شاعر حشمت صدیقی کے اعزاز میں ادارہ ادب اسلامی ریاض نے الوداعی محفل کا اہتمام کیا ،صدارت کے فرائض ڈاکٹر حفیظ الرحمان فلاحی نے ادا کئے کے این واصف۔ریاض ریاض کے معروف شاعر حشمت صدیقی اپنی خدمات سے سبکدوش ہوکر وطن لوٹ رہے ہیں۔ ادارہ ادب اسلامی، ریاض نے حشمت صدیقی کے اعزاز میں الوداعی محفل کا اہتمام کیا۔ یہ محفل دو حصوں پر مشتمل تھی ۔
پہلا حصہ نثری اور دوسرا شعری تھا۔ ان محافل کی صدارت ڈاکٹر حفیظ الرحمان فلاحی نے کی جبکہ ہندوستان سے آئے ہوئے معروف ادیب ڈاکٹر سلیم خان نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ نظامت کے فرائض اقبال انصاری نے ادا کئے ۔ محفل کا آغاز ماسٹر منیب رضوان کی تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا۔ محفل کے پہلے حصے میں چار افسانے اور صاحب محفل حشمت صدیقی پر ایک انشائیہ پیش کیا گیا۔ پہلا افسانہ ’’حادثہ‘‘ کے عنوان سے تنویر عبدالبشیر تمّا پوری نے ، دوسرا افسانہ ’’تماشہ‘‘ کے عنوان سے جاوید علی نے ،تیسرا افسانہ ’’سیلفی کے عنوان سے ابونبیل مسیح دکنی نے اور چوتھا افسانہ ڈاکٹر سلیم خان نے’’دھرم داس، کرم داس‘‘ کے عنوان سے پیش کیا۔ آخر میں ملک محی الدین نے اپنا انشائیہ ’’حشمت صدیقی اور ان کی شاعری‘‘ کے عنوان سے پیش کیا۔ شعری نشست کے ناظم اقبال انصاری نے شعراء حضرات سے اختصار کے ساتھ کلام پیش کرنے کی گزارش کی جس کا احترام کچھ شعراء نے کیا اور کچھ نے نہیں۔ محفل میں 20شعرائے کرام نے اپنا کلام پیش کیا ۔ نمونہ کلام قارئین کی نذر:
٭٭
داؤد اسلوبی:
ہرایک لفظ کرے گا دھماکے ذہنوں میں
زمینِ شعر میںایٹم اُگادیا ہم نے
٭٭
مرغوب محسن:
ناکامیوں پہ میری ہیں کیوں خندہ زن حریف
ٹھوکر لگی ضرور ہے ،ہارا نہیں ہوں میں
٭٭
صغیر احمد صغیر:
بارش گھٹاو دھوپ کا منظر تمہارا نام
موتی صدف و لالہ و گوہر تمہارا نام
٭٭
اشرف کمال اعظمی:
ملامت کررہے ہیں لوگ میری حق بیانی کی
مرا دشمن ہوا سارا جہاں ،آہستہ آہستہ
٭٭
سعید اختر اعظمی:
پیمانہ دل کا، اشک کی مے خوب ہے میاں
اختر ہو جب فراق کا موسم پیا کرو
٭٭فیضان اعظمی:
تلخ لہجہ ہے نرم ہم کرلیں
اپنا کردار محترم کرلیں
درد مٹ جائیگا زمانے سے
مذہبی اختلاف کم کرلیں
٭٭
سجاد فکری:
عشق نے میرے کیا کہوں، مجھ کوبھی کیا مزہ دیا
رنج و الم کو زیست کے، دل سے مرے مٹادیا
٭٭
شوکت جمال:
برباد ہوئے جاتے ہیں یہ وصل کے لمحے
میرے لئے وہ چائے بنانے میں لگے ہیں
٭٭قاضی منصور قاسمی:
برگِ امید توڑ آئے ہیں
خود کو صحرا میں چھوڑ آئے ہیں
٭٭
طاہر بلال:
کل کا منظر بھی وہی تھا کہ دِگر تھاکیا تھا
قابلِ دید تھا یا بارِ نظر تھا کیا تھا
دامنِ شام لہو کرگیا سورج کا ملال
رات زخمی رہی یادردِ سحر تھا کیا تھا
٭٭
صدف فریدی:
زمین دل پہ یہی معجزہ ہوا ہوگا
کہیں گلاب کہیں خواب ہی جلا ہوگا
جو جارہے ہو تو آنکھیں بھی ساتھ لے جاؤ
تمہارے بعد بھلا دیکھنے کو کیا ہوگا
٭٭
ڈاکٹر شفیق ندوی:
جھانک کر دیکھو میرے دل میں اجالا کتنا
کتنے منظر ہیں نیارنگ نرالا کتنا
شدت پیاس سے ممکن ہے کہ مرجاؤں میں
آپ کے سامنے آنکھوں کا پیالہ کتنا
٭٭
ڈاکٹر اقبال اعجاز بیگ:
بھیڑ ہی میں دکھائی دیتے ہو
لگتا ہے آج کل اکیلے ہو
تم تو واقف ہومیرے اپنوں سے
خیر سے تم بھی تو پرائے ہو
٭٭
حشمت صدیقی:
ہرظلم سہہ رہے ہیں خموشی سے ہم ابھی
وہ وار کررہا ہے بڑے اطمینان سے
ترکش میں جو پڑاہے وہ کیا رنگ لائے گا
وہ تیر ہے ہی کیا جو نہ نکلا کمان سے
٭٭٭
دیکھئے مل رہا ہے سنگ کہ گل
خون دل ہم نچوڑ آئے ہیں
٭٭
رضوان الحق الہٰ آبادی:
بکھرے ہوئے ہیں آج منظم بھی کبھی تھے
مت بھول جہاں تو ہے، وہاں ہم بھی کبھی تھے
ہم ہی تھے وہ جو درد کے محرم بھی کبھی
تھے زخموں کے عوض بانٹتے مرہم بھی کبھی تھے
٭٭
ملک محی الدین:
میں جن سے سوختہ داماں ہوا وہ اپنے تھے
پتہ نہ تھا کہ مرے لوگ اتنا جلتے تھے
گلاب اُگ گئے کھڑکی میں رکھے گملوں پر
ترے خطوط وہاں پڑھ کے میں نے رکھے تھے