Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سکستھ جنریشن وارفیئر مغالطوں اور مبالغے کی جنگ: عامر خاکوانی کا کالم

’ففتھ یا سکستھ جنریشن وارفئیر صرف حکومت، اسٹیبلشمنٹ یا ایجنسیوں کا مسئلہ نہیں۔‘ فائل فوٹو: اے ایف پی
بعض اصطلاحات اور تراکیب مختلف وجوہات کی بنا پر اس قدرمتنازع ہو جاتی یا دانستہ بنا دی جاتی ہیں کہ ان پر بات ہی نہیں ہو سکتی۔ یہی ففتھ جنریشن وارفیئر کی ترکیب کے ساتھ ہوا۔ چند سال قبل یہ بات چونکہ مقتدر حلقوں کی جانب سے کہی گئی اور تب ن لیگ، پیپلزپارٹی، جے یوآئی وغیرہ معتوب تھے، شدید اختلاف رکھتے تھے، اس لیے انہوں نے ففتھ جنریشن وارفیئر کو شدت سے نشانہ بنایا۔
وقت گزرنے کے ساتھ حالات بدل گئے، پوزیشنیں الٹ ہو گئیں۔ تب کی حکومت اپوزیشن میں چلی گئی، اپوزیشن کو حکومت مل گئی جو کہ پچھلے سال ہونے والے الیکشن کے بعد سے جاری و ساری ہے۔ اب ففتھ جنریشن وار فیئر کو نشانہ بنانے کی ذمہ داری تحریک انصاف نے لے لی۔ خاص کر ان کے وہ اینکر، ولاگر، یوٹیوبر جو آج کل پاکستان سے باہر ہیں۔ وہ سب بڑے زور شور سے ان تمام چیزوں پر تنقید کر رہے اور نت نئی سازشی تھیوریز تخلیق کر رہے ہیں۔
ففتھ جنریشن وارفئیر آسان لفظوں میں کسی غیرملکی دشمن ریاست، نان سٹیٹ ایکٹر وغیرہ کی جانب سے آئیڈیاز کی ایسی جنگ ہے جس میں کسی ملک کے عوام کو کنفیوز اور فکری طور پر منتشر اور تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ یہ سائبر وار ہے، جو سوشل میڈیا کی مدد سے لڑی جاتی ہے۔ فیک ویڈیوز، فساد پھیلانے والی فیس بک پوسٹیں، شرانگیز ٹویٹس، اداروں کو متنازع بنانے کی سوچی سمجھی تحریر، مسلکی، لسانی اور علاقائی فساد پھیلانے کی سازشیں۔ دشمن پر حملہ میزائل پھینکے بغیر۔ صرف فتنہ پھیلانے، شکوک پیدا کرنے والی تحریریں، ویڈیوز، سٹیٹس مختلف فیک آئی ڈی کی مدد سے ڈال کر وائرل کر دی جائیں اور قوم کا مورال ڈاؤن ہو۔
ویسے سچ تو یہ ہے کہ اب ففتھ جنریشن وارفیئر سے بھی معاملہ آگے جا چکا۔ اب تو سکستھ جنریشن وارفیئر کا زمانہ ہے۔ جس میں اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت سے بہت کچھ ایسا فیک مواد تشکیل و ترتیب دیا جا رہا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں پہلے ہی سے بعض فالٹ لائنز موجود ہوں۔ مختلف صوبوں کے مابین عدم اطمینان، عدم تحفظ موجود ہو، وہاں جلدی آگ بھڑ ک اٹھتی ہے۔ جب ہر حکومتی اور ریاستی ادارے پر تنقید چل رہی ہو، میڈیا اپنی کریڈیبلٹی کھو چکا ہو، اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کی باتیں کھلم کھلا ہوں۔ عدلیہ پر جانبداری کے الزامات عائد کیے جا رہے ہوں، سیاست میں شدید قسم کی پولرائزیشن موجود ہو۔ ایک جماعت کے ہیرو، دوسری کے ولن ہوں، ایسے میں دلوں کے اندر جلتے ناپسندیدگی کے الاؤ معمولی سی کوشش سے نفرت کے بھانبھڑ بن جاتے ہیں۔
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ففتھ یا سکستھ جنریشن وارفئیر صرف حکومت، اسٹیبلشمنٹ یا ایجنسیوں کا مسئلہ نہیں۔ یہ ہمارا، ہم سب کا، پاکستانیوں کا مسئلہ ہے۔ ملک ہمارا ہے، خدانخواستہ اسے کوئی نقصان پہنچا تو وہ ہمارا نقصان ہے۔ ہم سب اس کے سٹیک ہولڈر ہیں۔ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ملکوں پر مشکل وقت آتے ہیں، سخت گیر، متنازع حکمران بھی کبھی الیکشن کے ذریعے اور کبھی مارشل لا لگا کر حکمران بن جاتے ہیں۔ امریکہ میں بے شمار امریکی شہری صدر ٹرمپ کے خلاف شور مچا، احتجاج کر رہے ہیں۔ اسرائیل میں نیتن یاہو اور انڈیا میں نریندر مودی کے مخالفین بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ ان سب کی مجبوری ہے کہ ان کا مخالف الیکشن جیت کر حکمران بنا اور وہ اپنی مدت پوری کر کے ہی ٹلے گا۔ پارلیمانی نظام میں حکومت تبدیل ہو سکتی ہے، لیکن اگر عددی اکثریت نہ بنے تو صبر ہی کرنا پڑتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ ان تمام ممالک میں عوام اپنے ناپسندیدہ حکمران کی وجہ سے اپنے ملک کو داؤ پر نہیں لگا دیتے۔ یہی ہمارا معاملہ ہے۔ ضیا سے مشرف تک کئی آئے، گئے، آ ج وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ڈکٹیٹروں کے دور میں نشانۂ ستم بننے والوں کی ذہنی کیفیت، ان کے کرب کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، لیکن انہیں اپنے غصے، نفرت کا مرکز ڈکٹیٹروں کو بنانا چاہیے۔ فوج بطور ادارہ ہماری محبت، سپورٹ کی حق دار ہے۔

’دہشت گردی کے عفریت کو قابو کرنے کے لیے مختلف اوقات میں کئی حربے آزمائے گئے۔‘ فائل فوٹو: اے ایف پی

انڈیا کے خلاف حالیہ جنگ نے ثابت کر دیا ہے کہ فوج اپنا کام اچھے طریقے سے کر رہی ہے۔ اس نے کئی گنا زیادہ بڑی فوجی قوت کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا۔ اب اسے دنیا بھر کے اخبار، جرائد تسلیم کر رہے ہیں۔ ممتاز برطانوی جریدے اکانومسٹ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں مانا کہ پاکستان نے مئی کے تصادم میں انڈیا کے پانچ طیارے گرائے جن میں سے کم از کم ایک رفال تھا۔ اکانومسٹ جیسے میگزین کا یہ ماننا کوئی معمولی بات نہیں۔
اس لیے عرض یہ ہے کہ ہم اپنے سیاسی آدرش، اپنے خوابوں کے لیے سیاسی جدوجہد کریں۔ اپنی پسندیدہ جماعت کو اقتدار میں لانے کی پرامن جمہوری سعی ضرور کریں۔ اگر ایسا نہ ہو پائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ملک ہی کے خلاف مہم شروع کر دیں۔ اس دنیا میں بہت کچھ فیئر نہیں ہوتا۔ انصاف بعض اوقات نہیں مل پاتا، اس کے لیے ہمیشہ لڑتے رہنا چاہیے۔ مت بھولیں کہ یہ کوئی چھوٹی لڑائی نہیں، لمبی جدوجہد ہے۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ ضروری نہیں کوئی غیرملکی ایجنٹ بن کر، پیسے لے کر ففتھ جنریشن یا سکس جنریشن  وار فیئر کے ایجنڈے کو آگے بڑھائے۔ کئی لوگ نادانستہ طور پر بھی استعمال ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ کسی معاملے میں غیرضروری جذباتیت، حساسیت کا شکار ہو کر بہت آگے چلے جاتے ہیں۔ سرخ لکیرعبور کرنے سے وہ بعد میں گرفت میں آ جاتے ہیں۔ اس میں ان کا اپنا قصور ہے۔ ردعمل ہمیشہ تناسب اور توازن میں ہونا چاہیے۔ خلوص، نیک نیتی کبھی غلط کام کا جواز نہیں بن سکتی۔
ہمارے ہاں بعض فقرے بڑی ہوشیاری، ہنرمندی سے تخلیق کیے جاتے ہیں، ایسے چبھتے ہوئے جملے، ون لائنر جو سننے والوں کو اچھے لگیں اور وہ انہیں بلا سوچے سمجھے آگے بڑھا دیں۔ سائیکلوجیکل وارفئیر میں ان کی بنیادی اہمیت ہے۔
فوج پر ہر خرابی کا الزام اس کی ایک مثال ہے۔ یہ نہایت فضول، غلط اور بے تکی بات ہے۔ یعنی ہزاروں فوجی جوان، افسر، کرنل، بریگیڈیئر سے لے کر جنرل کی سطح تک کے اعلیٰ افسر شہید ہوئے۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ دنیا میں کون احمق ایسا ہوگا جو اپنے ہی ساتھیوں کو نشانہ بنائے اور اپنے آپ کو کمزور کر دے۔
پختونخوا کے بعض علاقوں میں فوج کے خلاف نعرے لگتے رہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتے ہیں کہ فوج جس نے جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان میں آپریشن کر کے اپنے سینکڑوں جوان شہید کرائے، آئے روز فوجی قافلوں پر حملے ہوتے رہے، تو خدانخواستہ ان حملوں کے پیچھے وہ خود ہیں۔ کاش ایسا زہریلا اور گھٹیا الزام لگانے والوں کے منہ میں کوئی خاک بھر دے۔ شہدا کے گھروالوں کویہ کہا جائے کہ آپ نے اپنا بیٹا خود ہی مارا ہے تو پھران کا کیا حشر ہوگا؟
بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے عفریت کو قابو کرنے کے لیے مختلف اوقات میں کئی حربے آزمائے گئے۔ ان میں سے ایک مقامی قبائلی لشکر بنانا بھی تھا۔ ایک طریقہ ٹی ٹی پی کو تقسیم کر کے بعض گروپوں کو الگ کرنا بھی تھا۔ یہ سمجھ میں آنے والی حکمت عملی ہے کہ دشمن دہشت گردوں کو جس قدر ہو سکے علیحدہ اور کمزور کرو۔ جو گروپ تھک گئے انہیں امن کی طرف واپس آنے کا راستہ دیا جائے۔ دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے۔ برطانیہ جیسے ملک میں شمالی آئرلینڈ کے گوریلوں کو عام معافی دے کر ملک میں امن قائم کیا گیا۔ یہ باتیں مگر عام آدمی کو سمجھانے کی کوئی زحمت نہیں کرتا۔

’انڈیا کے خلاف حالیہ جنگ نے ثابت کیا کہ فوج اپنا کام اچھے طریقے سے کر رہی ہے۔‘ فائل فوٹو: اے ایف پی

ایک اور خطرناک فقرہ ہے: ’پنجاب میں اگر دہشت گردی ہو، لاشیں گریں، مسنگ پرسنز بنیں، تب آپ کو پشتون، بلوچوں کے ساتھ ہونے والا ظلم سمجھ آئے گا۔‘ یہ جھوٹ کی انتہا ہے، بلکہ یہ کہنا ظلم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پنجاب کے ہزاروں لوگ شہید ہوئے۔ بے شمار فوجی جوانوں کے علاوہ، اسلام آباد، پنڈی، لاہورمیں دہشت گردی کی متعدد وارداتیں ہوئیں۔ عام پنجابی نشانہ بنے۔ واہگہ بارڈر پر ہونے والا حملہ ہو یا چیئرنگ کراس پر خود کش حملہ، داتا دربار بم دھماکہ ہو یا مون مارکیٹ میں دھماکے سے جھلس کر ناقابل شناخت ہوجانے والی لاشیں، گلشن اقبال پارک میں مرنے والے عام شہری خاندان ہوں یا مختلف شہروں میں ہونے والی درجنوں وارداتیں۔
اہل پنجاب نے مگر اپنے قاتلوں کو صرف دہشت گرد سمجھا، انہیں قومیت کے حوالے سے نہیں پکارا۔
مسنگ پرسنز کا معاملہ بھی پنجاب میں کم نہیں۔ القاعدہ، کالعدم تنظیموں سے تعلق کے شبہ میں سینکڑوں لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غائب ہیں، ماورائے عدالت ہلاکت کے کیسز بھی بہت ہوئے۔
یہ بات واضح ہو چکی کہ انڈین فوج اور انٹیلی جنس کو جنگ میں شکست ہوئی، اب وہ اس کا بدلہ پراکسی وار کے ذریعے ہی لے گی۔ بلوچستان ان کا اصل محاذ ہے اور دشمن کی کوشش ہوگی کہ محاذ بڑھائے جائیں تاکہ پاکستانی فوج ان جھمیلوں میں پھنس جائے۔ اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کیا جائے گا، آرٹیفیشل انٹیلی جنس بروئے کار لائی جائے گی۔ بہت کچھ ہو رہا ہے، اس سے کئی گنا زیادہ ہم آنے والے دنوں میں دیکھیں گے۔ اس لیے ہوشیار، سمجھدار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
ففتھ جنریشن اور سکستھ جنریشن وارفیئر ایسے ہی بظاہر بے ضرر نظر آنے والے جملوں، فقروں، جھوٹی کہانیوں اور فیک ویڈیوز کی مدد سے لڑی جاتی ہے۔ اسے کنٹرول کرنے کے لیے ان مغالطوں کو دور کرنا ہوگا۔ عام آدمی تک حقائق پہنچیں، حکومتی ادارے اپنی ساکھ بہتر بنائیں، ان کی کہی بات پر عوام یقین کریں تو یہ سب سازشیں ان شااللہ ناکام بنا دی جائیں گی۔

شیئر: