Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معیشت میں بہتری،حکومت کا امتحان

تنویر انجم٭٭٭***
کسی بھی معاملے کو پرکھنے کیلئے عموماً اس کا دو پہلووں سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ مثبت اور منفی۔ دونوں پہلو پیش نظر رکھ کر نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ مثبت رخ کا جائزہ لیتے وقت منفی عناصر کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے اور تنقیدی نظر سے دیکھنے کیلئے مثبت پہلو کو چھپانا پڑتا ہے اور پھر دونوں نتائج کو یکجا کرکے ایک حتمی رائے قائم کی جاتی ہے۔ ہر معاملے کا ایک تیسرا پہلو بھی ہوتا ہے، جسے عموماً ’تیسری آنکھ‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں دونوں پہلو بیک وقت آپ کے سامنے رہتے ہیں اور موضوع کا ماہر بیک وقت اپنی تمام صلاحیتوں اور قابلیت کا استعمال کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کرتا ہے۔
موجودہ حکومت کی بات کی جائے تو ہمیں کئی رپورٹس مل جائیں گی جن میں کسی نے حکومت کی ناکامیوں اور کامیابیوں کو مختلف پہلوئوں سے پرکھ کر نتائج دیے ہیں۔ بلاشبہ میڈیا کے ذریعے جاری ہونے والے نتائج عوامی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک جانب تو تحریک انصاف کی حکومت کے وزرا ء اور پارٹی کارکنان ہیں جو حکومتی اقدامات کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں جبکہ دوسری جانب اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما اور کارکن ہیں جو غلطیوں کی نشاندہی کررہے ہیں۔ ملک میں سیاسی طور پر ایک جنگ جاری ہے جس میں حکومت حزب اختلاف کی سیاست کو دفن کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے انہیں جیلوں میں پہنچانے کے انتظامات کررہی ہے جبکہ مخالف محاذ پر اپوزیشن ہے جو حکومتی اقدامات کو انتقام قرار دیتے ہوئے حکومت گرانے کی دھمکیوں اور حکومت کے جلد خاتمے کی پیش گوئی کررہے ہیں۔ ایسے میں عوام جو بے چارے مہنگائی اور معاشی مسائل کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں، خود کو بے بس، لاچار اور لاوارث محسوس کررہے ہیں کہ ان کا درد محسوس کرنے والا کوئی نہیں۔ لیکن اگر آپ ’تیسری آنکھ‘ سے دیکھیں تو آپ کو وزیر اعظم عمران خان دکھائی دیں گے جو یکسوئی کے ساتھ اپنا ایک رُخ متعین کیے ہوئے ہیں اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کیلئے دن رات مصروف نظر آ رہے ہیں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں کئی ناکامیوں کے باوجود بطور رہنما ان کی نیک نیتی پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ 
ایک بات تو طے ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے جو ٹیم اکٹھی کی ہے، وہ بہرحال انہی افراد پر مشتمل ہے جو ’’اِدھر، اُدھر‘‘ سے جمع ہونے والے اور ماضی میں مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہے۔ کوئی بھی وزیر عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک اپنے شعبے میں بہتری لانے میں فی الحال ناکام دکھائی دیتا ہے، مگر اس کے باوجود وزیرا عظم پُرعزم دکھائی دیتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کابینہ اجلاسوں میں باقاعدگی سے کارکردگی رپورٹ طلب کرنے اور ہدایات جاری کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے وزیرا عظم کی جانب سے دو ٹوک احکامات ان کے ہدف کو ظاہر کرتے ہیں۔ کسی بھی شعبے کے وزیر کو دیکھا جائے تو اپنے کام سے زیادہ ’’سیاست‘‘ میں مصروف نظر آتا ہے۔ کوئی عدلیہ پر بات کرتا ہے تو کوئی مقدمات پر، کوئی اپوزیشن کو جیل میں ڈال دیتا ہے تو کوئی انہیں چور ڈاکو قرار دے رہا ہے۔ تاہم ’’تیسری آنکھ‘‘ سے دیکھا جائے تو وزیر اعظم عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک سیاسی طور پر بہت ’’ٹھنڈے‘‘ دکھائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف بہت زیادہ سخت زبان استعمال نہ کرتے ہوئے تحمل مزاج ہونے کا ثبوت دیا ہے بلکہ شروع سے اب تک وہ ایک ہی متعین کردہ رُخ پر چلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم کا ہدف صرف ملکی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا اور ملک میں کاروبار اور سرمایہ کاری کو بحال کرکے عوام کو ریلیف دینا شامل ہے۔ اس حوالے سے سب سے اہم اور بنیادی حیثیت غیر ملکی سرمایہ کاری اور ترسیلات زر کی ہے، جس کے لیے وزیر اعظم سرگرداں دکھائی دے رہے ہیں۔  وزیرا عظم رواں ماہ قطر کے دورے پر روانہ ہوں گے جہاں دونوں ممالک کے مابین مختلف معاہدوں پر دستخط کیے جائیں گے۔ وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم قطر سے اچھی خبر لے کر آئیں گے۔ اسی دوران سعودی وفد بھی پاکستان میں موجود ہے جس نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں ملکی تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کرے گا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے دروازے ملک میں کھل چکے ہیں اور مختلف ممالک کے اعلانات کے ذریعے اس کا اظہار بھی ہو رہا ہے۔ دوسری جانب بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں اضافہ بھی حکومت پر قوم کے اعتماد کا مظہر ہے۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں 10 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، حکومت کو چاہیے کہ یہ اعتماد قائم رکھے۔گوکہ سابقہ حکومتیں بھی ملک کو امداد اور قرضوں ہی کے ذریعے چلا رہی تھیں، جس کے نتیجے میں پاکستان کا ہر شہری گردن گردن قرض میں ڈوب چکا ہے۔ ایسی صورت حال میں موجودہ حکومت کے پاس بھی معیشت کو سہارا دینے کے لیے قرض لینے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں، تاہم اس معاملے میں جس طرح سے دوست ممالک سے تعاون حاصل کیا گیا، یہ قابل تعریف ہے کہ مالیاتی اداروں اور دوستوں سے امداد میں بہرحال فرق ہے اور رہے گا۔ معیشت کو سہارا ملنے کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاری اور ملک میں کاروبار بڑھانے کے حوالے سے حکومتی کوششوں کے نتیجے میں فی الحال امید کی جا رہی ہے کہ موجودہ حکومت کو کچھ زیادہ برداشت کرلیا جائے تو صرف وزیر اعظم کی بے داغ شخصیت کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اپنا قرض اتارنے کے قابل بھی ہو جائے گا۔ اس وقت معیشت کی بہتری کے لیے وزیرا عظم کے ساتھ عدلیہ اور عسکری قیادت بھی اپنے طور پر حصہ ڈال رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے کئی اہم فیصلے اس حوالے سے اہم ہیں۔ سرکاری زمینوں پر قبضے ختم کرائے جا رہے ہیں، تجاوزات کے خاتمے کی ملک گیر مہم جاری ہے، ان تمام اقدامات کا انجام بہتر ہے۔ گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی میں تاجروں کے وفد سے ملاقات میں کہا کہ تاجر امن اور کاروبار کے لیے سازگار ماحول کا فائدہ اٹھائیں اور معاشی استحکام کے لیے تعاون کریں۔ فوج اور عدلیہ جیسے اہم اداروں کے ہم قدم ہونے کے بعد موجودہ حکومت پر لازم ہے کہ حکومت کے تمام معاملات شفاف رہیں، بیرون ملک ہونے والے معاہدوں کا عوام کو علم ہو، اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر اقدامات کیے جائیں اور احتساب اور کرپشن کے خلاف کارروائیوں کے نام پر انتقامی سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف ملکی معاشی ترقی کے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے لیے وزیرا عظم کو اپنے وزرا اور کارکنوں کو بھی اپنے ساتھ ملا کر سیاسی بیان بازیوں اور لڑائی جھگڑے کا ماحول پیدا کرنے کے بجائے اخلاقیات، سیاسی اقدار اور ذمے داری کا درس دینا چاہیے کہ تمام مخالفین اب بھی حکومت سے اختلافات کے باوجود اچھی امید رکھتے ہیں۔ گوکہ وزیرا عظم رواں سال 2019ء کو معیشت کی بحالی کا سال قرار دیتے ہیں، تاہم اس کے لیے ضروری ہوگا کہ حکومت نے گزشتہ 6 ماہ کے دوران جو قرضے لیے ہیں، ان کا استعمال شفاف اور درست ہو اور انہیں ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ ساتھ ہی 23 جنوری کو حکومت نے منی بجٹ پیش کرنے کا اعلان بھی کررکھا ہے، اس بجٹ میں عوام کے ساتھ حکومت کیا سلوک کرتی ہے ، یہی حکومت کے لیے بڑا امتحان ثابت ہوگا۔
 

شیئر: