Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہند کے کسانوں کیلئے نئی مصیبت

***ظفر قطب۔ لکھنؤ ***
مولانا کی لکھی ہوئی یہ نظم تقریبا ایک صدی سے بچوں کو پڑھائی جارہی ہے اور گائے کے سلسلے میں جو باتیں شاعر کہہ گیا آج اسے پڑھ کر تعجب ہوتا ہے کہ یہ وہی گائے ہے جسے ہمارے بزرگوں نے رحمت سمجھا تھا لیکن آج کے سیاست دانوں نے اسے زحمت کا ذریعہ بنادیاہے ۔ مودی اور یوگی حکومتوں نے عوام سے کیا گیا اپنا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ خاص طور سے کسانوں کو جس طرح بیوقوف بنایا گیا اس کی مثال جدیدہندستان کی سیاسی تاریخ میں نہیںملتی ۔ جن اچھے دنوں کی آمد کا وعدہ کیا گیا تھا وہ ہوا ہوگئے۔ آج ملک کا کسان ہر طرف سے مسائل میں گھرا ہوا ہے نہ تو اس کی پیداوار کی مناسب قیمت اسے مل رہی ہے اور نہ اسے بینکوں اور ساہوکاروں کے ظالم پنجوں سے نجات مل رہی ہے۔ حکومت ترقی یافتہ بیج اور کیمیائی کھاد مہیا کرانے میں ناکام ہے ۔اس سلسلے میں کاشتکار دہلی سے لے کر ملک کی مختلف ریاستوں میں احتجاج کررہے ہیں ، دھرنا دے رہے ہیں لیکن ان کی ایک بھی نہیں سنی جارہی۔ مودی کی حکومت آتے ہی جہاں ایک طرف نوٹ منسوخی نے کسانوں کی کمر توڑ دی تھی تو وہیں اب ان کی پیداوار کی ناقدری نے انھیں کہیںکا بھی نہیں رکھ چھوڑا۔ وہ اپنا گنا جلانے پر مجبور ہیں تو آلو سڑکوں اور اسمبلی ہاؤس اور گورنر کے بنگلوں کے سامنے پھینک رہے ہیں۔ ابھی انھیں اس سے نجات نہیں ملی تھی کہ ان پرگائے اور دوسرے آوارہ جانوروں کی ایک اور مصیبت ٹوٹ پڑی ہے۔ یہ وہ جانور ہیں جنھیںریاستی حکومتوں خاص کر یوپی ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں مذہبی اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ یہ جانور گائے ہے جس کے نام پر یوپی، راجستھان اور ملک کی دوسری ریاستوں میں اقلیتی فرقہ کے تعلق رکھنے والوں کی جانیں جاچکی ہیں ۔بلکہ شبہ میں کچھ اکثریتی فرقہ کے افراد بھی شامل ہیں جنھیں نام نہاد گائے محافظین نے اس بری طرح سے مارا پیٹا کہ انھیں اسپتال میں داخل ہونا پڑا ہے۔ دراصل بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی گائے کو ایک ایسا مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا تھا گویاکہ پورے ملک میں گائے کی نسل ختم کی جارہی ہے ۔اترپردیش کے موجودہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور ڈپٹی وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریہ جو اپنے بڑبولے پن کیلئے بہت مشہو رہیں انھوںنے اپنے انتخابی جلسوں میں یہ اعلان کیا تھا کہ یوپی میں بی جے پی حکومت قائم ہوتے ہی تمام سلاٹر ہاؤس بند کرادیے جائیں گے۔ ان کے اس بیان کو مزید تقویت بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ سے بھی۔ ملی انھوںنے بھی اپنی تقریروں میں سلاٹر ہاؤس اور گائے کا نام لے کر ایسے افسانوی بیان جگہ جگہ دیئے کہ ماحول کو اپنے حق میں کرنے میں انھیں مدد ملی۔ ویسے بھی گائے کا نسخہ یوپی میں خصوصاً مشرقی علاقے میں یوگی آدتیہ ناتھ کیلئے بڑا آزمودہ نسخہ رہا ہے ،جو ان کی سخت گیر تنظیم ہندو یوا واہنی عرصہ سے استعمال کرتی آرہی تھی یہ تنظیم خود کو گائے کا محافظ بتاتی تھی اور گائے تحفظ کے نام پر مشرقی یوپی سے گزرنے والے ٹرک اور ریلوے کے وہ ویگن جن میں مختلف قسم کے جانور ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصوں میں منتقل کیے جاتے تھے انھیں روک کر گایوں کو آزاد کرالیتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ کبھی کبھی تو گورکھپور بستی مہاراج گنج دیوریا اور پڈرونا جیسے شہروں میں ان جانوروں کی اتنی کثرت ہوجاتی تھی کہ سڑکوں پر گاڑیوں کا چلنا مشکل ہوجاتا تھا ۔انسان بھی پیدل چلنے میں دقت محسوس کرتے تھے۔ آج اس سے بری کیفیت پورے اترپردیش کی ہوچکی ہے جہاں گزشتہ ڈیڑھ برس کے اندر گایوں کی اتنی کثرت ہوچکی ہے کہ وہ کاشتکاروںکیلئے ایک عذاب بن چکی ہیں۔ یہ آوارہ مویشی کھیتوں میں کھڑی فصلیں چٹ کرجاتے ہیں اور کسانوں کیلئے بھوک اور غریبی کا بہت بڑا مسئلہ پیدا کرجاتی ہیں۔ ان سے عاجز آکر بالآخر کسانوں نے پہلے تو ضلع مجسٹریٹ اور اپنے تحصیلدار کے یہاں ان جانوروں کے خلاف درخواستیں دیں لیکن سرکاری عملہ بھی یہ خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھا کہ وہ گایوں کے خلاف کوئی قدم اٹھائے کیونکہ انھیں یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ گائے کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانا کتنا خطرناک ہے ۔ یوگی نے اقتدار سنبھالتے ہی ریاست میں سارے سلاٹر ہاؤس کچھ دنوں کیلئے بند کرادیے تھے۔ ان میں وہ سلاٹر ہاؤس بھی شامل ہیں جو باضابطہ طور پر لائسنس لے کر چلائے جارہے تھے۔یہ تو کہیے کہ گوشت کے کاروباریوں نے جب عدالت کا سہارا لیا تو اس نے ریاستی حکومت کی زبردست سرزنش کی اور ہدایت دی کہ جن سلاٹر ہاؤسوں کے پاس بھینس ذبح کرنے کے باقاعدہ لائسنس ہیں انھیں ذبیحہ کی آزادی دی جائے۔ اس کے بعد وزیراعلیٰ یوگی، ڈپٹی وزیراعلیٰ موریہ اور امت شاہ کے بول بدل گئے اور عدالت کو جو سرکاری جواب داخل کیا گیا اس میں اس سے انکار کیا گیا کہ ہم نے کبھی بھی لائسنس والے سلاٹر ہاؤسز کو بند نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد جاکر بڑے جانور کا ذبیحہ شروع ہوا۔ گائے کا ذبیحہ آزادی کے بعد سے ہی قانونی طور سے بند تھا اس پر نہ کبھی تو کسی نے اعتراض کیااور نہ اس قانون کو توڑنے کی کوشش کی گئی البتہ اس کی پاداش میں جھوٹے الزامات لگاکر اقلیتوں کو نقصان پہنچایا گیا ۔ جہاں تک سوال گائے کی نسل کے جانوروں کی کثرت کا ہے تو اس کا ایک عمل ہندستان میں قدیم زمانے سے رائج ہے کہ ملک کی جن ریاستوں میں اس جانورکا گوشت استعمال میں آتا ہے وہاں یوپی ، مدھیہ پردیش ، راجستھا ن اور گجرات وغیرہ سے سپلائی کیے جاتے رہے ہیں،لیکن یوپی میں یوگی کی حکومت قائم ہونے کے بعد ان جانوروں کی دوسری ریاستوں میں منتقلی پر بھی پابندی عائد ہوگئی تو ان کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوتا گیا۔
 

شیئر: