Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”کزن بچہ“: اس کی ہڈیاں توڑنا نہیں ،ماس چھوڑنا نہیں

شہزاد اعظم
    کل ہم اپنی تنہائی پر بہت برہم ہوئے۔ جو کچھ ہمارے منہ میں آیا ، ہم نے فرمایا اور تنہائی بے چاری بالکل خاموشی سے سب کچھ سنتی رہی۔ مجال ہے جوذرا سی چون و چرا ہی کر دی ہو۔ہم نے سوال داغ دیا تھا کہ آخرماضی اور حال کی اقدار میں اس قدر فرق کیوں آگیا ہے۔ کل تک جو برائی تھی، آج وہ اچھائی قرار پانے لگی ہے۔ کل تک جو عمل جرم ہوتا تھا، آج وہ بھول چوک شمار ہونے لگا ہے۔ یہ تفاوت آخر کس لئے۔ معاشرے کا وہ کون ساطبقہ ہے جس نے انسانوں کی سوچ کا محور ہی بدل کر رکھ دیا؟ ہم چلا چلا کر تنہائی سے اس تغیر کا جواب طلب کر رہے تھے اور وہ کمرے کے کونے میں منہ چھپائے رو رہی تھی۔ اس چیخم دھاڑ کے دوران ہمارا ”کزن بچہ“ ہم سے ملنے آگیا۔ سلام کلام کے بعدوہ اپنے تئیں انتہائی ادب اور احترام کے ساتھ ہم سے مخاطب ہوا تو اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ یہ تھے کہ ”اور سناﺅ انکل میاں! کیا ہو رہا تھا؟“ہم نے کہا کہ فی الحال تو یہی سوچ رہے تھے کہ کل کی برائی، آج کی اچھائی بن چکی ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ”کزن بچہ“ کسی توقف کے بغیر بولا ”استاد“، ہم نے کہا ، وہ کیسے؟ اس نے جواب دیا:
    ” انکلمیاں! میں پانچویںجماعت میں تھا، ریاضی میں کمزور تھا۔ ابا میاں نے میرے ”ریاضیاتی تساہل“کو دیکھتے ہوئے ایک استاد کی خدمات مستعار لے لیں۔ ان کو گھر بلایا اور کہا کہ یہ ہمارا بیٹا ہے، ریاضی میں کمزور ہے ۔ اس کی ہڈیاں توڑنا نہیں اور ماس چھوڑنا نہیں۔ انہوں نے کہا آپ فکر نہ کریں۔
    اگلے روز وہ گھر پہنچے، شام کو 5 بجے بیٹھک کے دروازے پر دستک دی۔ میں نے دروازہ کھولا، اندر بٹھایا، پانی پلایا اور چائے کے لئے کہا تو فرمایا”میرا نام ریاض ہے ، میں تمہیں ریاضی پڑھانے آیا ہوں، ”اکل و شرب“کے لئے نہیں۔میں روزانہ 60منٹ پڑھایا کروں گا۔ ریاضی میں تمہیں محنت کرنی ہوگی، میرا کہا ماننا ہوگا، ذرا بھی دائیں بائیں ہوئے تو اس انداز کی ایسی کی تیسی کروں گا جو ساری زندگی رہ رہ کر یاد آئے گی۔اپنا مضمون تو تمہیں ”زہر “کی طرح گھول کر پلا دوں گا کہ خواب بھی ریاضی میں دیکھا کرو گے۔مجھے ایک چیز کا شوق بے حد ہے ،میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی انسان اور خاص طور پر میرا کوئی بھی شاگرد، اپنی اوقات بھلا کرمیرے سامنے لب کشائی کرے،پھر میں اس کو اوقات یاد دلاﺅں۔ آپ کو بتا دوں کہ میں نے ”اوقات“ میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے ۔ اپنا ایسا ”بہیمانہ تعارف“ کرانے کے بعد انہوں نے ہمیں 5بجکر9منٹ پر پڑھانا شروع کیا اور مسلسل پڑھاتے رہے ،جیسے ہی6بج کر 9منٹ ہوئے، انہوں نے کہا ”باقی کل“ ، پھر اٹھ کر کھڑے ہوئے اور دروازہ کھول کر بیٹھک سے نکل گئے۔
    ”انکلمیاں“یقین جانئے ، ریاض انکل کی باتیں سن کر تو ہماری ”نندیا“ ہی اُڑ گئی۔ میں کانچ کی گولیاں کھیلنا بھول گیا، گلی ڈنڈے کے تمام میچ منسوخ کر دیئے، پتنگ بازی سے کنارہ کشی پر غور شروع کر دیا،میں نے اس وقت تک جتنے چھوٹے ، بڑے، سادہ و رنگیں لٹو خریدے، جیسے یا جمع کئے تھے، سب کے سب کوڑیوں کے بھاﺅفروخت کر ڈالے ۔ میں ہر شام کرائے کی سائیکل لے کر آتی جاتی ہستیوں کی بصری خبر گیری کے لئے نکلا کرتا تھا، سو وہ علت بھی ترک کردی۔ رات دن ذہن پر پہاڑے مسلط رہنے لگے۔میں رات دن اسی اُدھیڑ بُنمیں لگا رہتا۔ ”ریاض“ صاحب مجھے صرف 100تک کے پہاڑے ہی یا د نہیں کراتے تھے بلکہ سوا ، ڈیڑھ، پونے دو، یعنی 1.25، 1.50اور 1.75کے پہاڑے بھی رٹاتے تھے۔ وہ جلدی جلدی سوال کرتے کہ ”ڈھائی ستے“، میں کہتا ساڑھے 17، وہ کہتے” 15سوائے“، میں ذرا مخمصے کا شکار ہوتا تو وہ دائیں ہاتھ میںتھمے پتلے بانس کومیرے بازو پر ہتھوڑے کی طرح مارتے اور بائیں ہاتھ سے زور دار تھپڑ میرے دائیں گال پر رسید کرتے، اسی دوران سوال داغ دیتے کہ 75پونے کتنے ہوئے۔اس موقع پر اگر 6بجکر 9منٹ ہوجاتے تو وہ اٹھ کھڑے ہوتے اور کہتے کہ یاد کر کے رکھنا، ” 75پونے کتنے“کاجواب کل لے لوں گا۔
    وقت گزرتا گیا، امتحانات ہوئے ۔ ریاضی کا پرچہ بھی ہوا۔میں نے 100میں سے 99نمبر لئے۔ابو میاں کو میں نے پرچہ لا کر دکھایا، وہ خوش ہوئے اور کہا کہ جاﺅ بازار سے گلاب جامن لے کر آﺅ، گھر میں سب کو کھلاﺅ ۔ خود اپنے استاد کے ساتھ کھانا۔ اُن کے لئے 2اور اپنے لئے ایک گلاب جامن الگ نکال کر رکھ لو۔ میں بے حد خوش تھا کہ ”ریاض“ صاحب ریاضی کا نتیجہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ میں ان کی آمد کا منبے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔ بالآخر وہ لمحہ آ ہی گیا۔ 5بجکر7منٹ پر دروازہ کھٹکا، وہ بیٹھک میں تشریف لائے، میں نے پرچہ دکھایا۔ اور ساتھ ہی پلیٹ پیش کی جس میں چاندی کے ورق میں لپٹی 2گلاب جامنیں رکھی تھیں۔ الگ کٹوری میں میری گلاب جامن تھی، میں منتظر تھا کہ ریاض صاحب گلاب جامن کھائیں تو میں بھی کھا لوں مگر انہوں نے گلاب جامن کی پلیٹ ایک جانب رکھی، کرسی سے اٹھے، کمرے کا دروازہ بند کیا، چٹخنی لگائی، ہاتھ میں وہی باریک بانس والی چھڑی اٹھائی اور میرے دھنائی شروع کر دی، وہ مارے جا رہے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ تو ایسا نالائق انسان ہے جس نے تمام استادوں میں اور تمام شاگردوں میں میری ناک کٹوا دی۔ لوگ کیا کہیں گے کہ ریاض کا شاگرد اور ریاضی میں پورے نمبر نہیں لے سکا۔ انہوں نے مجھے اتنا مارا، اتنا مارا کہ جس کی کوئی انتہاءنہیں۔ میں چلا رہا تھا اور میری چیخیں سارے محلے میں سنائی دے رہی تھیں۔
    یقین جانئے، اس روز کے بعدمیں نے زندگی میں جب کبھی ریاضی کا پرچہ دیا، اس میں میرے 100میں سے 100نمبر ہی آئے۔
    پتا ہے انکلمیاں! کل ہی میرا بیٹا ریاضی میں42نمبر لے کر صرف 2نمبروں سے پاس ہوا ہے۔ میں اس کے استاد کے پاس گیا تاور کہا کہ بچے کا رزلٹ کتنا خراب آیا ہے؟ استاد نے جواب دیا”سو واٹ“،یہ آپ ریاضی ویاضی کو چھوڑیں”ایگریگیٹ مارکس“ دیکھا کریں۔ بچہ پاس ہو گیا ہے، اتنا کافی نہیں؟خواہ مخواہ میں ایشو نہ بنائیں۔“
    ہمیں ”کزن بچہ“ کی باتیں سن کر خیال آیا کہ ہمارے ہاں ہر ادارے میں ایک ”ریاض“ کی ضرورت ہے۔
 

شیئر: