Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچھڑنا بھی ضروری تھا: اس قصے میں میرے بے گناہ بھائی کا کیا قصور ؟

 اس کے دل کی آگ نے پورا وجود جھلسا دیا،وہ زخمی ناگن کی طرح بل کھا رہی تھی ، خشمگیں نگاہوں سے گھو رہی تھی، اس نے کتنی کوشش کی تھی کہ فرجادہار نہ مانے مگر وہ ڈر گیا 
زاہدہ قمر۔جدہ
کیسی باتیں کرتے ہو یوسف ؟ عارف صاحب ان کی حالت دیکھ کر لرز اٹھے۔ انکا بھائی ان کا بیمار بھائی جو ابھی اتنی جان لیوا بیماری سے لڑ کر صحت مند ہوا ہے، کمزور اور ناتواں لاچار اولاد کے ہاتھو ں بے بس۔وہ اس بھائی سے ناراض ہوجائیں؟ اس کے زخمی دل کو مزید چرکے لگاکر کیا مل سکے گا؟ وہ ایسے سنگدل تو کبھی بھی نہیں تھے۔
یوسف تو بہت محبت کرنے والا سادہ دل بھائی ہے۔ اولاد کی سرکشی کی سزا اسے کیوں ملے؟
اس سارے قصے میں میرے بے گناہ بھائی کا کیا قصور ؟ وہ ضمیر کی عدالت میں کھڑے خود کو دلائل دے رہے تھے۔ اپنی غلطی تسلیم کررہے تھے۔انہوں نے پوری شدت سے یوسف صاحب کو گلے لگالیا بس۔ اب کوئی پرانی بات یا قصہ نہیں چھیڑا جائے گا۔ سب سن لیں۔ وہ خاندان والوں سے مخاطب تھے کیونکہ بارات آنے میں تھوڑا وقت تھا۔ 
سب سن لیں میں نے یوسف کو دل سے معاف کیا اب میرے سامنے میرے معصوم اور بے قصور بھائی کو کوئی ایک لفظ بھی کہے گا تو نتائج کا ذمہ دار خود ہوگا۔ ہم دونوں بھائی ایک تھے اور ہمیشہ ایک ہی رہیں گے اور رہی بات بچوں کی غلطیوں کی، تو بچوں کا کیا ہوگا؟ وہ تو غلطیاں اور حماقتیں کرتے ہی رہتے ہیں۔ انکی حماقتوں کی سزا بھائی کیوں بھگتیں۔مجھے اپنے بھائی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔
انہوں نے مشرف کی سنگین غلطی کو حماقت قرار دیکر اپنی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا۔ان کے اس رویے اور واشگاف الفاظ نے خاندان بھر کو کھسیانے پر مجبو رکردیا خصوصاً آصف چچا خفت کے مارے پسینہ پسینہ ہوگئے۔ وہ تو ایک تیر سے دو شکار کرنے کی بھرپور کوشش میں مصروف تھے۔ وہ شرمندگی سے سرخ چہرہ لیکر بارات دیکھنے کے بہانے باہر نکل گئے۔ یہ تو بازی ہی الٹ گئی۔ میں تو اس خیال میں تھا کہ منگنی ٹوٹنے پر نرمین کو خاندان بھر میں ہمدردی کے بہانے تماشا بنوا کر مشرف اور صارف کو بدکردار مشہور کرکے اپنے نقصان کا بھرپور بدلہ لے سکوں گا مگر یہاں تو سارا پلان ہی چوپٹ ہوگیا۔ جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔ اتنی بڑی غلطی کو حماقت قرار دیکر سارا معاملہ ہی لپیٹ دیا گیا۔ وہ پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے سوچ رہے تھے ۔اندر سب ہنس بول رہے تھے۔ بڑا خوشگوار ماحول تھا۔ واقعی! بڑے دلوں اور ظرف میں بڑی بڑی غلطیاں جانے کونسے کونوں کھدروں میں چھپ جاتی ہیں۔ پتہ بھی نہیں چلتا۔ اعلیٰ ظرف خاندانی لوگوں کے دل سمندر کی سی گہرائی رکھتے ہیں۔ اندر ایک پوری دنیا آباد اور سطح بالکل پرسکون۔ غزالہ نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے سوچا ۔وہ بے حد ہلکی پھلکی ہوکر خاندانی اعلیٰ ظرفی کے مظاہرے دیکھ رہی تھی۔ پھر بارات آگئی اور بہت سی مبارکبادوں کے شور میں وہ فرجاد سے منسوب ہوگئی مگر اس خوبصورت ماحول میں بھی ایک انجانی بے چینی نے عالم آرا کے دل کو بجھایا ہوا تھا۔ وہ خود کو مسلسل تسلی دے رہی تھی اور اس گہری اداسی کی دھند کو جو ان کے وجود کا احاطہ کئے ہوئے تھی، مشرف کی اس تقریب میں عدم موجودگی کی وجہ قرار دے رہی تھیں یا پھر غزالہ کی جدائی پر محمول کررہی تھیں ۔انہیں قطعاً علم نہ تھا کہ یہ ایک ماں کے دل کا وہ احساس تھا جو آنے والے وقتوں سے پہلے روحانی طور پر انہیں آگاہ کررہا تھا۔ غزالہ کے حوالے سے من©زہ اس نکاح میں شریک تو تھی مگر اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ فرجاد کے ساتھ بیٹھی غزالہ کو اسٹیج سے دھکا دیدے، اس گھر کی خوشیوں کو آگ لگادے۔ اس کے اندر جلن اور حسد کا آتش فشاں کھول رہا تھا۔ اس کے دل کی آگ نے اس کا پورا وجود جھلسا دیا تھا ۔وہ زخمی ناگن کی طرح بل کھا رہی تھی اور خشمگیں نگاہوں سے مسلسل فرجاد کو گھو رہی تھی۔ اس نے کتنی کوشش کی تھی کہ فرجاد ہار نہ مانے مگر فرجاد ڈر گیا۔ اس نے ماں بہنوں کی محبت کے آگے ہتھیار ڈالدیئے ۔یہی بات منزہ کو تپانے کیلئے کافی تھی۔ اسے یہ احساس رہ رہ کر کچوکے لگا رہا تھا کہ اتنے عرصے کی محبت اور ریاضت پر خون کے رشتوں کا پیار غالب آگیاتھا۔ یہ کیسے ہوگیا؟
میری محبت میں آخر کیا کمی تھی جو فرجاد نے اپنی ماں کو مجھ پر ترجیح دی۔میرا حسن ماند پڑ گیا ہے یا میری اداﺅں کا جال کمزور ہوگیا ہے؟آخر فرجاد لڑاکیوں نہیں؟ ڈٹ کیوں نہیں گیا؟یہ سارے سوالات اسے پاگل کئے دے رہے تھے۔ وہ بے دلی سے سب رسموں میں دنیا دکھاوے کو شریک ہوئی۔ فرجاد اس کے سامنے چور سا بنا بیٹھا تھا۔ وہ بار بار منزہ سے معافی مانگ چکا تھا۔وہ منزہ کی خاطر غزالہ سے لاتعلق سا دکھائی دے رہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ منزہ کو منا لے گا۔ اس سارے واقعے میں دلشاد احمقوں کی طرح بے نیاز تھا۔وہ بھائی کی اس شادی پر مسرور تھا جس پر خود اسکا بھائی خوش نہیں تھا۔
خورشید بیگم اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ فاتحانہ انداز میں بیٹھی تھیں۔ صبح کی فلائٹ سے ان کی بحرین والی بیٹی فرحین بھی آگئی تھی۔ اچھا بھئی! اب اجازت دیں۔ د ل تو چاہ رہا ہے کہ ابھی اپنی بہو کو گھر لے جاﺅں مگر خیر اگلے ہفتے ہمارے گھر میں محفل ہے۔ آپ کے سب گھر والوں اور خصوصاً ہماری بہو کو خاص دعوت ہے۔ خورشید بیگم نے تقریب کے اختتام پر غزالہ کو پیار کرتے ہوئے عالم آرا کومدعوکیا۔
ضرور ضرور بھئی، آپ بلائیں اور ہم نہ آئیں ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ ان شاءاللہ ہم سب آئیں گے۔ عالم آرا نے بڑی خوشدلی سے جواب دیا۔ دونوں بیٹیاں بھی بہت پیار او راخلاق سے عالم آرا کے گھر والوں سے ملیں اور دوبارہ ملنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے سب رخصت ہوگئے۔ 
فرجاد بے حد ریزرو تھا اور منزہ بچوں کو ٹوکتی ہوئی بہانے سے پہلے ہی باہر جاچکی تھی۔ عالم آرا نے گو ان سب کو بہت اعلیٰ قسم کی پہناﺅنیاں دی تھیں۔ خورشید بیگم کو کنگن اور منزہ سمیت دونوں بیٹیوں کو نفیس سے جھمکے دیئے تھے۔ فرجاد اور اس کے دونوں بھائیو ںکو بھی کپڑوں، گھڑیوں اور پرفیوم کے تحفے دیئے تھے مگر سچ یہ ہے کہ خورشید بیگم بری توبہت شاندار لائی تھیں۔جوڑے ، جیولری، میک اپ اور ہار پھول ہی نہیں مٹھائی او رمیوہ بھی سیروں کے حساب سے تھا۔ عالم آراءبیٹی کی اتنی پذیرائی پر بہت خوش اور مطمئن تھیں۔
(باقی آئندہ: ان شاءاللہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: