Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں

***احمد آزاد ۔ فیصل آباد***
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس نے دہشت گردی کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونا اپنی ذمہ داری سمجھا ہے ۔فتنہ تکفیر ،خوارج اور غیرملکی دشمن عناصر کے ہاتھوں میں کھیلتے غداران وطن سے پاکستانی قوم ایک عرصہ سے نبردآزماہے۔ایک وقت تھا کہ پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا ۔دہشت گرد جہاں چاہتے اور جس طرح کے ٹارگٹ کو چاہتے اپنے نشانے پر رکھ لیتے ۔2007-08ء میں تو دہشت گرد قبائلی علاقوں اوروادی سوات میں اپنے عروج پر تھے ۔طاقت کے نشے میں چور دہشت گردانہ عزائم رکھنے والوں نے اپنے ہی بھائیوں کو نشانے پر رکھ لیا تھا ۔اسلام کا نام لے کر نہتے لوگوں اور اپنے ہی ملک کے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے خلاف ’’جہاد‘‘کا اعلان کردیاگیاجوکہ اصل میں فساد فی الارض تھا۔قانون نافذ کرنیوالے ادارے، اسپتال، ہوٹل، مزار، مساجد غرض کوئی علاقہ بھی دہشتگردی سے بچا ہوا نہیں تھا۔ ان دہشتگردوں کیخلاف ایک عشرے سے زائد سیکیورٹی ادارے اپنی پوری تندہی و طاقت سے برسرپیکاررہے ۔اب کچھ عرصہ سے جب سیکیورٹی و انٹیلی جنس اداروں نے محسوس کیا ہے کہ دہشتگرد تعداد میں کم ہوچکے ہیں اور ان کی طاقت کا محورختم ہوچکا ہے تو دیگر مسائل پر توجہ دی جارہی ہے جن میں ایک مسئلہ افغان بارڈر بھی ہے ۔دہشتگرد پاکستان میں کارروائی کرتے اور بھاگ کر افغانستان چلے جاتے ۔پاکستان نے اس مسئلہ کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا کام شروع کیا جس کی وجہ سے دہشتگردی میں ریکارڈ کمی دیکھنے کو ملی ۔ طورخم بارڈر کے قریبی علاقوں میں آہنی باڑ کی تنصیب کر کے دہشتگردوں کی نقل و حرکت ختم کی گئی جس کے باعث خیبر پی کے سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں ریکارڈ کمی دیکھنے میں آئی لیکن بلوچستان سے ملحقہ افغان بارڈر پر چونکہ باڑ کا کام جاری ہے جس کے باعث دہشتگردوں کی باآسانی آمدورفت ممکن ہے۔ اسی باعث  بلوچستان میں ابھی تک دہشتگردی کے واقعات ہورہے ہیں جو باعث تشویش ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب بھی پاکستان میں چند ایک دہشت گردانہ واقعات ہوجاتے ہیں جیسے کہ ابھی پچھلے دنوں لورالائی میں ڈی آئی جی کمپلیکس پر حملہ ہے جس کے نتیجے میں3پولیس اہلکار ،5سول ملازمین اور ایک امید وار شہید ہوا، جبکہ 21افراد زخمی ہو گئے۔4 گھنٹے جاری رہنے والے آپریشن میں سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں3دہشتگرد ہلاک ہوئے۔
پاکستان اس وقت جہاں امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنائے ہوئے ہے وہیں وزیراعظم پاکستان کی کوششوں سے بیرونی سرمایہ کار پھر سے پاکستان کی طرف آرہے ہیں ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق  پاکستان بہتری کی جانب گامزن ہے توایسے میں دشمن کی ہرزہ سرائیاں اور بزدلانہ کارروائیاں ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ابھی یکم جنوری کوہونیوالی کارروائی بھی ذہن سے نہیں گئی تھی جب بلوچستان کے ضلع لورالائی میں ایف سی ٹریننگ سنٹر پر دہشتگردوں کے حملے میں 4 جوان شہید جبکہ جوابی فائرنگ میں 4 دہشتگرد مارے گئے تھے۔ دہشتگردوں نے ایف سی ٹریننگ سینٹر کے رہائشی اور انتظامی کمپاؤنڈ پر حملے کی کوشش کی تاہم انہیں انٹری پوائنٹ پر ہی روک لیا گیاتھا۔ دہشتگردوں نے حملے میں ناکامی پراندھا دھند فائرنگ شروع کی، جس کے نتیجے میں 4 جوان شہید اور 2 زخمی ہوگئے۔ فورسز کی جوابی فائرنگ میں ایک خود کش بمبار سمیت 4 دہشت گرد بھی مارے گئے۔ان میں سے ایک خود کش بمبار نے آخر میں خود کو دھماکے سے اڑالیا۔ملک کی معاشی حالت کو بہتری کی جانب چلنے سے روکنے کیلئے جہاں ملک دشمن عناصر دیگر ذرائع استعمال میں لارہے ہیں وہیں دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعے سرمایہ کاروں کو ڈرانے اور ملکی معیشت کو ڈانواں ڈول کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں ۔
پاکستان میں ہوئی دہشتگردانہ کارروائیوں میں سے 95فیصد واقعات ایسے ہیں کہ جن میں افغان سرزمین استعمال ہوئی ہے اور موجودہ واقعات کے پیچھے بھی انہیں لوگوں کا ہاتھ ہے جنہوں نے اس سے پیشتر بزدلانہ دہشتگردانہ کارروائیاں کی ہیں ۔لورالائی کے علاقے میں بھی دہشتگرد سرحد پار سے ہی آئے تھے۔ حکومت پاکستان نے متعدد مرتبہ افغان قیادت سے رابطہ کر کے دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے پر زور دیا ہے لیکن کمزور کابل حکومت جس کی رٹ اپنے ہی دارالحکومت میں چیلنج ہے وہ دہشتگردوں کے خاتمے کی طاقت نہیں رکھتی۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی پوری قیادت افغان سرزمین پر بیٹھ کر پاکستان میں دہشتگردی پھیلانے میں ملوث ہے۔ کراچی میں چینی سفارتخانے پر حملے میں بھی افغان سرزمین استعمال ہوئی جبکہ لورالائی کی کڑیاں بھی وہیں جا ملتی ہیں۔ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کروانے میں پاکستان بنیادی کرداراداکررہا ہے ۔مضبوط و خوشحال افغانستان ہی پاکستان کے حق میں ہے۔اس وقت مضبوط و مستحکم افغانستان خطے کے تمام ممالک کیلئے اہم ہے ۔کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعے حکومت کرنے کاتجربہ ماضی میں بری طرح سے ناکام ہوچکا ہے ۔طویل جنگ وجدل کے باعث عام افغانی دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔افغانیوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں مہاجروں کی شکل میں قیام پذیر ہے اور چند واقعات میں افغان مہاجرین کے روپ میں ہی دہشتگرد پائے گئے ہیں۔ایسے میں اگر پاکستان افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی بات کرتا ہے تو وہ جائز اور حق پر ہے ۔افغانستان چونکہ پاکستان کاہمسایہ ملک ہے اور اس کے ساتھ ہرلحاظ سے پاکستان کی سرحدیں ملتی ہیں جو کہ جغرافیائی حدود سے کہیں زیادہ ہیں تو امریکہ کی واپسی کے بعد ایک مضبوط اور دوراندیش مخلص افغان حکومت ہی دیگر ممالک کے ساتھ حالات کو سازگار رکھنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ماضی میں افغان سرزمین پاکستان کے دشمن ممالک بھی استعمال کرکے اپنے فوائد سمیٹتے رہے ہیں ۔پاکستان نے کابل حکومت کو بارہا اس بارے میں مطلع کرنے کے ساتھ ساتھ ثبوت بھی فراہم کیے ہیں لیکن اس کے باوجود کابل حکومت ان ممالک کو باز رکھنے میں ناکام رہی ہے ۔خلاصہ کلام یہ کہ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کا خاتمہ یا 75فیصدی کمی افغانستان میں استحکام سے ہی ممکن ہے ۔
 

شیئر: