Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرپشن اور اپوزیشن کا گٹھ جوڑ

***احمد آزاد ۔ فیصل آباد***
دنیا میں جمہوری نمائندوں کا کام ملکی صورتحال کو بہتر کرنا اورنظام میں پائے جانیوالے ناسوروں کوختم کرنا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں نمائندوں کا کام کرپشن کرنا اور اس کوچھپا کر رکھناہوتا ہے ۔چند ایک معاملات سے ہٹ کر شاید ہی کسی ایک بات پر حکومتی و اپوزیشن اراکین ایک زبان ہوئے ہوں۔اس بار اپوزیشن نے کرپشن کیخلاف ہونیوالے اقدامات سے بچنے کیلئے گٹھ جوڑ کرلیا ہے ۔اکثر کیسز نیب اورایف آئی اے کے پاس ہیں اور وہ اس پر سیاست دانوں اور ان سے جڑے ہوئے لوگوں کیخلاف تحقیقات کررہے ہیں۔مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت جیل میں ہے جبکہ پیپلزپارٹی کی قیادت سمیت 172افراد کے نام ای سی ایل میں ہیں، بلاول زرداری اور مراد علی شاہ کا نام نکالا جاچکا ہے۔ماضی میں اگر اداروں نے کرپشن کے خلاف اقدامات کرنے کی کوشش کی بھی تو حکومتوں نے اداروں کے ہاتھ باندھ دئیے۔ موجودہ حکومت احتساب سے پیچھے ہٹتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہی ۔وفاق اورپنجاب میں معمولی عددی برتری کے باوجود تحریک انصاف اپوزیشن کو ٹف ٹائم دے رہی ہے ۔ماضی میں جتنے بھی الائنس (گٹھ جوڑ) بنے ان کا مقصد حکومت کا خاتمہ تھا ۔ایوب خاں، بھٹو، ضیاء، نواز، بے نظیراورمشرف کیخلاف بنائے گئے اتحادوں کا بنیادی مقصد حکومت وقت کا خاتمہ تھا ۔یہ سیاسی جدوجہد میں ایک نیا طرز عمل ہے کہ اپوزیشن کی 2بڑی جماعتیں جنہوں نے ماضی میں ایک دوسرے کیخلاف کھلے عام عوامی جلسوں میں الزامات کی بوچھاڑ کی تھی،متحد ہوئی ہیں تو حکومت گرانے کیلئے نہیں بلکہ حکومتی گاڑی کو بریکیں لگانے کیلئے اور اس کی رفتار کوکم کرنے یاپھر اس کا رخ کسی اور طرف کرنے ۔
اہل نظر و اہل علم جانتے ہیں کہ آصف علی زرداری ماضی قریب میں برملا اس بات کا اظہار کرچکے ہیںکہ وہ شریف برادران کے دورحکومت میں بنائے گئے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں ۔چھوٹے میاں تو زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں بھی سیاسی جلسوں میں کرچکے ہیں ۔چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے اور صادق سنجرانی جو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ تھے کو ووٹ دیا تھا ۔وزیراعظم کے انتخاب کے وقت بھی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں اختلافات رہے۔ صدارتی انتخاب میں مولانا فضل الرحمن کو مسلم لیگ ن نے نامزد کیا تو بجائے اس کی حمایت کرنے کے پیپلز پارٹی نے اعتزازاحسن کومیدان میں کھڑا کردیا ۔اس طرح آصف زرداری نے شریف برادران کو ریلیف و مددفراہم کرنے سے انکار کئے رکھا۔رائیونڈ آمد پر بھی زرداری نے شہباز شریف سے ملاقات کرنا گوارہ نہ کی لیکن اب احتساب سے بچنے کی خاطر دونوں رہنماء گلے مل چکے ہیں ۔وزیراعظم عمران خان اپنے عوامی جلسوں میں پہلے ہی اس بات کی طرف اشارہ کرچکے تھے کہ احتساب سے بچنے کیلئے دونوں سیاسی پارٹیاں باہم شیروشکر ہوجائیں گی ۔گویا کہ یہ میثاق جمہوریت کا احیاء ہوگاجو آج سے گیارہ بارہ سال پہلے جمہوری قوتوں نے لندن میں بیٹھ کر کیا تھا ۔اس میثاق کو ختم کرنے کیلئے بھی وہی حربے استعمال ہوئے جن سے بچنے کیلئے یہ میثاق بنایا گیا تھا۔شریف برادران کو نااہل کروایا گیا،نوازشریف نے کالاکوٹ پہنا اور زرداری کی مخالفت میں کمر بستہ ہوگئے ،سینیٹ میں نوازشریف کا راستہ روکاگیا تو سامنے زرداری کو کھڑے پایا۔پھر عمران خان کا دورحکومت آیاجس میں اب سے پیشتر زرداری نے اکثر وہ کام کیے جس سے تحریک انصاف کو فائدہ پہنچا۔اب صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کیخلاف تو قانونی شکنجہ پہلے ہی کسا جاچکا ہے ۔بے نامی اکائونٹس کو لے کر پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف بھی شکنجہ تیار ہوچکا ہے ۔آصف علی زرداری جو مسلم لیگ ن کو گھاس تک نہ ڈالتے تھے اس بار ساتھ ملنے کو تیار ہیں ۔حکماء سچ ہی کہاکرتے تھے کہ کسی دشمن بارے بھی الفاظ کا چنائو سوچ سمجھ کر کیا جائے تاکہ اگر زندگی کے کسی موڑ پر اُس دشمن سے تعلقات بہتر کرنا پڑے تو اپنے الفاظ کی وجہ سے شرم محسوس نہ کرنی پڑے ۔اس گٹھ جوڑ کا کس کو فائدہ ہوگا اور کس کو نقصان یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن بلاول زرداری کا اس وقتی ریلیف سے مستقبل تاریک ہوتا نظر آرہا ہے ۔کیونکہ شریف برادران اور زرداری اپنی سیاست کی اننگز کھیل چکے ہیں اب صرف خود کو بچانے کیلئے بلاول کوبھی مفاہمت کی بھینٹ چڑھارہے ہیں ۔دوسری طرف ذرائع بتاتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اگرچہ الائنس کرنا چاہتی ہے لیکن ماضی کے تجربات سامنے رکھتے ہوئے بڑے میاں نے جو کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں اپنی جماعت کو محتاط رہنے کا اشارہ دیا ہے ۔یعنی کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ الائنس بن بھی جاتا ہے اور آنے والے دنوں میں ایک میز پر دونوں طرف کی قیادت بیٹھی نظر بھی آجاتی ہے تو کوئی بڑا دھماکہ نہیں ہوگا ۔کوئی قابل ذکر سیاسی دنگل نہیں دیکھنے کو ملے گا کیونکہ مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی کی حمایت میں ایک حد سے آگے تجاوز نہیں کرے گی ۔اس سارے کردار میں مولانافضل الرحمن کہا ںکھڑے نظر آتے ہیں یہ اہل نظر جانتے ہیں ۔حکومت کی ابتداء سے قبل ہی انہوں نے اتحاد کیلئے بھاگ دوڑ شروع کردی تھی لیکن مسلم لیگ ن او رپیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے خاطر خواہ پذیرائی نہ مل سکی ۔اس الائنس سے کچھ نیا نہیںنکلے گا بلکہ چند روزہ شوروغوغا ہوگا پھر قبرستان کی سی خاموشی۔احتسابی عمل سے بچنے ،کچھ ریلیف حاصل کرنے اور حکومت پر دبائو بڑھانے کی خاطر یہ اتحاد بن تو جائے گا لیکن اس کی بیل منڈھے نہیں چڑھ پائے گی ۔
اس الائنس کو بنانے میں جہاں کرپشن زدہ قیادت کا ہاتھ ہے وہیں حکومتی ترجمانوں کا بھی ہاتھ ہے ۔اپنے ہاتھوں سے مشکلات کھڑی کرتے یہ گرم گفتار بھول جاتے ہیں کہ عوام کے پاس جب یہ لوگ ووٹ مانگنے جائیں گے تو وہ اپنے مسائل پر بات کریگی۔حکومتی ترجمان اس وقت حکومت کے ترجمان کم اور نیب و عدلیہ کے ترجمان زیادہ لگتے ہیں ۔شعلہ بیانی میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے کہ وفاقی وزیراطلاعات نے حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق میں فارورڈ بلاک بنانے کی بات کی جس پر جوابی وار کرتے ہوئے انہوں نے اتحاد سے نکلنے کی دھمکی دے ڈالی ۔جس پر بعد میں وفاقی وزیراطلاعات کو معافی مانگنی پڑی ۔ایسے ہی اپوزیشن کو لے کر ترجمان لتاڑتے رہتے ہیں جس سے انہیں بڑھاوا ملتا ہے ۔حکومتی ترجمانوں کو اپنی حیثیت کا احساس کرتے ہوئے کم سے کم بولنا چاہیے اور الفاظ کا چنائو بہترین ہوتاکہ عوام الناس میں ان کی قدر بڑھے ۔
 

شیئر: