Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خلیجی ممالک میں رنگین عبایوں کی مانگ

وقت بدلنے کے ساتھ عرب ممالک میں بہت ساری چیزوں کے ساتھ خلیجی عبایوں میں بھی واضح تبدیلی آئی ہے۔
ماضی میں خلیجی خواتین خیمہ نما عبایہ استعمال کرتی تھیں جس سے ان کا پورا جسم مکمل طور پر ڈھک جاتا تھا تاہم نئے عبائے رنگ و انداز میں ماضی کے عبایوں سے مختلف ہیں۔
عبایوں کی ڈیزائنرز کے مطابق پرانے اور نئے عبایوں کا مقصد پردہ ہے تاہم نئے عبایوں کے ڈیزائن اور سائز مختلف ہیں۔
ایک مقامی اخبار ’الیوم‘ سے بات کرتے ہوئے عبایہ ڈیزائنر لجین الفواز نے کہا کہ اب سیاہ رنگ کے علاوہ دیگر رنگوں میں بھی عبائے دستیاب ہیں۔
عبایوں کی ایک اور ڈیزائنر نہال الاسمری بتاتی ہیں کہ آج کل زیادہ طلب رنگین عبایوں کی ہے۔ خواتین ایسے عبائے زیادہ پسند کرنے لگی ہیں جن پر چاندی اور سونے کے پھول بوٹے بنے ہوتے ہیں۔

ان کے مطابق آج کل کے عبائے میکسی نما ہو گئے ہیں، ان میں کمر کے گرد بیلٹ کا بھی اضافہ ہو گیا ہے اور اب بعض لڑکیاں عام لباس کے انداز کے عبائے طلب کرتی ہیں۔
ایک خاتون غالیہ ام احمد نے ’الیوم‘ اخبار کو بتایا کہ ماضی کی خواتین عبائے کے لیے نرم اور چمک دار کپڑا پسند کیا کرتی تھیں۔ ہر علاقے میں عبایہ کی شکل دوسرے علاقے سے مختلف ہوتی ہے۔
ایک اور خاتون ام حبیب بتاتی ہیں کہ ماضی میں نقاب نہایت مہین کپڑے کا استعمال کیا جاتا تھا۔
ان کے مطابق ماضی میں لڑکیاں چھ برس کی عمر ہی سے عبایہ پہننے لگتی تھیں اورعبایہ کے طور پر ’الردائی، البخنق، الشیلہ اور الجادر‘  کے مختلف ناموں اور عنوانوں سے پردے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔
الردئی کے بارے میں ام حبیب کہتی ہیں کہ یہ اعلیٰ درجے کا کپڑا ہوتا تھا جس کے دونوں حصے سرخ رنگ کے ہوتے اور یہ ہاتھ سے تیار کیا جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ الشیلہ نامی عبایہ بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ کالے رنگ کا کپڑا ہوتا تھا اسے مستطیل شکل میں کاٹا جاتا تھا۔ 

شیئر: