آج سے پورے 50 سال قبل پردۂ سیمیں پر ایک ایسی فلم پیش کی گئی جس کی نظیر اس سے قبل نہیں ملتی۔
یہ فلم دیو مالائی پریوں یا خوفناک عفریتوں کی کہانی نہیں تھی بلکہ اس میں حقیقی دنیا میں نظر آنے والی شکاری مچھلی شارک کو ایک ایسے عفریت کے طور پر دکھایا گیا جو انسانوں کے مقابلے پر اتر آئی تھی۔
ہالی وڈ کے معروف فلمساز اور ہدایتکار سٹیون سپیلبرگ کی فلم ’جاز‘ یعنی ’جبڑا‘ نے انسان اور جانوروں کی کشمکش والی ایک ایسی فلم پیش کی جس نے ہالی وڈ سینما کی دنیا کا رخ موڑ دیا۔
مزید پڑھیں
-
گرو دت کی فلم ’پیاسا‘ جسے ٹھکرانے کا دلیپ کمار کو ملال رہاNode ID: 886107
یہ فلم 20 جون سنہ 1975 کو پہلی بار ریلیز کی گئی اور آج بھی اسے پہلے پہل دیکھنے والے اس کے اثرات کو نہیں بھولے ہیں کہ کس طرح سے اس فلم نے ناظرین کو باندھ رکھا تھا کہ جب بھی شارک مچھلی کوئی حملہ کرتی پورا ہال خوف کے مارے چیخیں مارنے لگتا۔
یہ فلم پیٹر بینچلی کے ناول ’دی جاز‘ پر مبنی ہے جو کہ اس سے ایک سال قبل ہی منظر عام پر آئی تھی۔ جاز جہاں اپنے آپ میں ایک نایاب تجربہ ہے وہیں اس کی فلمسازی کی کہانی بھی قابل ذکر ہے۔
معروف انگریزی روزنامہ ’دی گارڈین‘ نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ 50 سال پہلے ایک شارک نے دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ 20 جون 1975 کو امریکہ میں سینما دیکھنے والوں نے سب سے پہلے جاز کے سنسنی خیز اور سمندری پھیلاؤ کا تجربہ کیا۔
روزنامہ کے مطابق یہ فلم ’اصل بلاک بسٹر‘ ٹھہری جس نے ’شارک سپلوائٹیشن‘ یعنی دیو قامت شارک مچھلی کی چھپاک سے پیدا ہونے والے خوف اور تھرل سےبھرپور تفریح کی ایک پوری صنف کو متاثر کیا، اور اس نے شارک کے بارے میں لاکھوں لوگوں کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا۔
لیکن سٹیون سپیلبرگ کا یہ سمندری شاہکار ابتدا میں ایک برا تجربہ نظر آ رہا تھا۔ 1973 میں ناول نگار پیٹر بینچلی نے کتاب کے جمع کرنے کی آخری تاریخ سے صرف 20 منٹ پہلے اس کا عنوان ’جاز‘ رکھا تو ان کے ایڈیٹر نے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ بینچلی نے جواب دیا کہ ’مجھے بھی کوئی اندازہ نہیں ہے لیکن یہ مختصر نام ہے۔‘
اس فلم کے لیے تین مصنوعی شارک مچھلیاں بنائی گئیں جو میکانکی طور پر کام کر سکیں۔ ایک مکمل جسم والی شارک بنائی گئی جبکہ مختلف زاویوں سے اس مچھلی کی فلم بندی کے لیے اس کے دو اور رخ بنائے گئے۔ اور سپیلبرگ کے وکیل بروس ریمر کے نام پر ان سبھی مصنوعی شارک کو ’بروس‘ کا عرفی نام دیا گیا۔

فلم بندی کے دوران بروس مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی رہی۔ سمندر کے نمکین پانی نے شارک کے میکینکس پر تباہ کن اثرات مرتب کیے۔ یہ مچھلی اکثر ڈوب جاتی اور میکانکی خرابی کا شکار ہو جاتی یا پھر وہ فلمساز کے خیال کے مطابق ٹھیک سے حرکت نہ کر پاتی تھی جس کی وجہ سے فلم کریو نے اسے ’دی گریٹ وائٹ فلاپ‘ کا نام دے دیا تھا۔
اس تکنیکی خرابی کی وجہ سے فلم میں شارک کو شاذ و نادر ہی دکھایا جا سکا اور جب ایڈیٹنگ کے بعد حتمی طور پر فلم سامنے آئی تو اس میں شارک صرف چار منٹ کے لیے پردے پر تھی۔
مسلسل ناکامی کی وجہ سے سپیلبرگ نے فلم میں اس مچھلی کا خوف اور دہشت دکھانے پر توجہ مرکوز کی اور کیمرہ کے زاویوں کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے فلم کو مزید سسپینس فل بنا دیا۔ باقی اپنے آپ میں تاریخ ہے۔
جاز میں روئے شیڈر نے پولیس چیف مارٹن بروڈی کا کردار ادا کیا ہے، جو ایک سمندری ماہر حیاتیات (رچرڈ ڈریفس) ہیں اور جو شارک کے ایک پیشہ ور شکاری (رابرٹ شا) کی مدد سے ایک آدم خور دیوقامت سفید شارک مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ یہ شارک موسم گرما کے ریزورٹ ٹاؤن میں ساحل سمندر پر جانے والوں پر حملہ کرتی ہے۔
اس فلم میں مرے ہیملٹن نے میئر کا کردار ادا کیا ہے اور لورین گیری نے بروڈی کی بیوی کا کردار ادا کیا ہے۔
فلم کی موسیقی سادہ لیکن خوفناک ہے جو کہ مرکزی تھیم کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس فلم کے موسیقار جان ولیمز کا کہنا ہے کہ موسیقی کی تھیم شارک کی بے عقل اور بے لگام فطرت کی نمائندگی کرتی ہے۔

اگرچہ یہ موسیقی خوف پیدا کرنے والی ثابت ہوئی لیکن جب ولیمز نے اسے پہلی بار پیانو پر بجایا، تو سپیلبرگ اسے سن کر ہنس پڑے تھے اور انہوں نے سوچا تھا کہ ولیمز مذاق کر رہے ہیں لیکن وہ سنتے رہے اور پھر دھیرے دھیرے انہیں یہ احساس ہونے لگا کہ یہ کتنی موثر ہے۔
فلم جاز میں اس کی موسیقی نے بھی خوف پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، خاص طور پر جب شارک سکرین پر نظر نہیں آتی تو اس کی موسیقی سراسیمگی پیدا کر رہی ہوتی ہے کہ نہ جانے وہ کہاں سے نمودار ہو جائے۔
چنانچہ جب پہلی بار شارک کے پیشہ ور شکاری کو وہ سفید دیو نظر آتا ہے تو ان کے منھ سے نکلتا ہے کہ ان کی یہ کشتی اس کے لیے بہت چھوٹی ہے اور یہ کہ انہیں مزید بڑی کشتی لے کر آنا چاہیے تھا۔ ان کا یہ فقرہ ضرب المثل کی حیثیت کے طور پر سنا اور سنایا جاتا ہے۔
اس فلم کو کئی آسکر انعامات ملے جن میں جان ولیمز کے سکور نے بہترین اوریجنل اسکور کا اکیڈمی ایوارڈ جیتا اور اسے فلم کی تاریخ کے اعلی ترین فلمی اسکور میں شمار کیا جاتا ہے۔
اس فلم کی خصوصیت خاموشی اور سکوت کا شاندار طریقے سے استعمال بھی ہے۔ ولیمز نے شارک کے کچھ حقیقی حملوں کے دوران کوئی موسیقی استعمال نہیں کی، جس سے وہ حملے مزید چونکا دینے والے ثابت ہوئے۔ موسیقی صرف اس وقت استعمال ہوتی تھی جب شارک ’شکار‘ کر رہی ہوتی تھی۔
فلم جاز پر یہ الزام ہے کہ اس نے امریکیوں اور بہت سے دوسرے ممالک کے لوگوں میں شارک کے متعلق جنون پیدا کیا۔ اس کا جیتا جاگتا ثبوت ڈسکوری چینل کی ’شارک ویک‘ اور ’شارکناڈو‘ جیسی ٹیلی فلمیں ہیں۔

جاز کے مصنف پیٹر بینچلی نے 1999 میں اپنے ایک انٹرویو کے دوران اس بات پر تاسف کا اظہار کیا تھا کہ عظیم سفید شارک کی بے حرمتی میں ان کا بھی حصہ ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس جانور کو لوگوں نے ان کی وجہ سے انسان دشمن سمجھ لیا اور اس کے شکارپر نکل پڑے۔ اور یہ کہ یہ اب اس نسل کے جانور میں شامل ہے جو معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔
بینچلی نے 1999 میں (برگن، این جے) دی ریکارڈ کو بتایا کہ ’25 سال پہلے کوئی بھی عظیم سفید شارک کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ ان کے ایک بدمعاش شارک کے تصور پر لوگوں نے یقین کر لیا جو انسانی گوشت کا ذائقہ رکھتی ہے۔‘
سپیشل ایفکٹس سے قبل موشن پکچر کی تاریخ میں جاز حد فاصل یا واٹرشیڈ لمحے کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اس فلم کو اس موسیقی اور ایڈیٹنگ کے لیے کئی ایوارڈز ملے۔ دو سال بعد ’سٹار وار‘ کی ریلیز تک یہ اب تک کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم تھی۔
دونوں فلموں نے ہالی وڈ کے جدید بزنس ماڈل کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ایکشن اور ایڈونچر فلموں کا اعلی معیار قائم کیا۔
جاز کے بعد اس کے تین سیکوئلز سامنے آئے جن میں سے کسی میں بھی سپیلبرگ یا بینچلی شامل نہیں تھے اور یہ جاز کی پہلی سستی نقل ثابت ہوئے۔
2001 میں لائبریری آف کانگریس نے اس فلم کو امریکہ کی نیشنل فلم رجسٹری میں محفوظ کرنے کے لیے منتخب کیا۔ بہر حال اس فلم کے بعد ’جوراسک پارک‘ جیسی فلموں نے لوگوں میں ایک معدوم جانور کے زندہ ہونے کے خطرے کو پیش کیا اور یہ فلم بھی سٹیون سپیلبرگ کے فن کا کرشمہ تھی۔