Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اقتدار کے ’پاس‘ رہنے والا مہر خاندان

کہنہ مشق سیاستدان جی ایم سید نے اپنی کتاب ’جنب گزاریم جن سیں‘ میں لکھتے ہیں کہ علی گوہر مہر اول خالصتاً جاگیردار ہیں۔ سیاست یا سندھ کے مسائل سے ان کا کوئی تعلق نہیں، وہ سخی ہیں اور ان کا دسترخوان وسیع ہے۔ یہ بات ان کے بعد آنے والے مہر سرداروں پر بھی صادق آتی ہے۔ 
سندھ میں جتوئی اور مہر دو بڑے زمیندار خاندان  رہے ہیں۔ جتوئی ستّر کے عشرے  میں اقتدار  کے اعلیٰ  منصب پر پہنچ گئے مگر تقسیم ہند سے قبل سیاست میں ہونے کے باوجود  مہر خاندان اقتدار کے ایوانوں میں بڑا نام نہ تھا۔
ہر فوجی آمر کی طرح مشرف نے نئے پاور بروکرز متعارف کرائے تو مہر خاندان کا قرعہ بھی نکل آیا اور علی محمد خان مہر وزیراعلیٰ سندھ بن گئے۔ اس سے قبل  مہر  سرادر ضلع سطح کی سیاست کرتے تھے۔ 
مہر سرداروں کے بڑے حریف لونڈ سردار رہے ہیں۔ گھوٹکی ان دو  سرداروں کی سیاسی کشمکش کا مرکز کا رہا۔ یہاں پر سیاست بلوچ اور سماٹ (نسلاً سندھی) کی بنیاد پر منقسم رہی۔ بلوچ قبائل کلہوڑا اور تالپور دور میں آئے اور ان کی فوج کا حصہ بھی رہے لہٰذا مقامی سماٹ قبیلوں نے حکمران بلوچ قبیلوں کے جارحانہ رویے کے پیش نظراپنا اتحاد بنایا۔ واقعات بتاتے ہیں کہ مہر اور لونڈ سرداروں نے اپنی سیاست کے لئے بلوچ اور سماٹ تنازع کی تکرار کو زندہ رکھا۔ 
ایک مرتبہ مہر لونڈ قبائل میں تصادم ہوا۔ بھٹو نے دونوں سرداروں کو سرکٹ ہاؤس روہڑی میں نظربند کیا، اس کے بعد ان کے درمیان کبھی خون ریز تصادم نہیں ہوا۔ 


فوٹو بشکریہ فیس بک

شکار گاہیں اقتدار کی سیڑھی بنیں 
شمالی سندھ کے گھوٹکی ضلع کے صحرائی علاقے میں سکھر سے لے کر پنجاب میں رحیم یار خان تک شکار گاہیں ہیں۔ جن میں دوڑتے ہرنوں اور اڑتے نایاب پردیسی پرندوں کے شکار کے لئے ملک کے فوجی و سول حکمرانوں سے لے کر خلیج کے شیوخ و شہزادوں تک آتے رہے ہیں اور خیمہ گاہوں میں مہمانداریاں اور سیر وشکار کرتے رہے ہیں۔ 
شکار گاہوں میں پاکستان کے فوجی و سول حکمرانوں، خلیج کے شیوخ کی آمد کی وجہ سے مہر سرداروں نے با اثر اور اقتدار کے حلقوں کی قربت سمیٹی۔ صدراسکندر مرزا اور صدر جنرل ایوب کے ساتھ سردار مہر کے روابط اور ان کی خان گڑھ کی جاگیر اور شکار گاہوں پر دعوتیں تاریخ کا حصہ ہیں جن میں ذوالفقار علی بھٹو بھی شریک ہوتے  تھے۔ 
خلیج کے شیوخ پاکستان کی سیاست پر بھی اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ نوے کے عشرے میں بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر ان شیوخ نے سردار مہر کو محترمہ کے حق میں ووٹ دینے کی سفارش کی۔ یہ بھی میڈیا میں رپورٹ ہوا کہ جنرل مشرف نے سردار علی محمد مہر کو امارات کی ایک اعلیٰ شخصیت کی سفارش پر وزیر اعلیٰ بنایا تھا۔
ترکی ٹوپی اور غلام محمد مہر 
پاکستانی سیاست میں ماضی قریب میں دو ترکی ٹوپیاں مشہور ہوئیں۔ ایک نوابزادہ نصراللہ خان کی، جنہوں نے خود کو اپوزیشن کے لئے وقف کیا۔ دوسرے غلام محمد مہر جو ہمیشہ اقتدار کے ساتھ رہے۔ سیاسی حلقوں میں ایک کہاوت ہے کہ روایات اور رکھ رکھاؤ کے سختی سے پابند سردار غلام محمد نے ہمیشہ اپنے سر پرپہنی ترکی ٹوپی تو نہیں بدلی، مگر پارٹیاں  بدلتے رہے۔
1970  میں سردار مہر ہوا کا رخ نہ سمجھ سکے۔وہ یہ انتخابات عبد القیوم خان کی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر لڑے لیکن اپنے حریف سردار پی پی پی کے ٹکٹ یافتہ نور محمد لونڈ کے ہاتھوں  ہار گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے تو 1973 میں مہر سردار نے غلام مصطفیٰ جتوئی کے ذریعے بھٹو سے معاملات بنائے۔ ان کی دعوت پر بھٹو گھوٹکی آئے اور سردار غلام محمد مہر نے پی پی پی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ 
بھٹو نے سردار غلام محمد کو پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر بنایا۔ جیسے ہی بھٹو ایوان اقتدار سے رخصت ہوئے، سردار پی پی پی کو الوداع کہہ کر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ہو لیے اور وفاقی وزیر بن گئے۔
1988 میں ایک بار پھر سردار مہر کا اندازہ غلط نکلا جب وہ عام انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کے امیدوار بنے اور  پیپلزپارٹی کے امیدوار پیر بھرچونڈی کے ہاتھوں ہار گئے۔
1993 کے انتخابات میں مہر سردار پی پی پی میں شامل ہوکر انتخابات جیتے۔ نوے کی دہائی میں سردار غلام محمد مہر کے انتقال کے وقت ان کے بیٹے چھوٹے تھے، لہٰذا سرداری کی پگ ان کے کزن علی گوہر مہر کو پہنا دی گئی اور وہ مہر دوئم کے طور پر سیاسی افق پر نمودار ہوئے۔پی پی پی نے مہروں کو کبھی عہدہ نہیں دیا۔

تصویر بشکریہ فیس بک
تصویر بشکریہ فیس بک

وزارت اعلیٰ کی راتیں اور رنگین باتیں 
مشرف نے سیاسی  انجنیئرنگ کے ذریعے اکتوبر 2002 کے عام انتخابات اور 2005 کے بلدیاتی انتخابات میں پی پی پی مخالف گروپ کو شریک اقتدار کیا۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل احسان کے کہنے پر سردار علی محمد مہر نے پیپلزپارٹی کا ٹکٹ ٹھکرادیا اور سندھ اسمبلی میں منتخب ہوکر آئے۔
پرویز مشرف کا دورِ اقتدار پہلا موقع تھا کہ مہر خاندان کی پانچوں گھی میں سر کڑاہی میں تھا۔ علی گوہر خود ضلع گھوٹکی کے ناظم بنے اور چھوٹے بھائی علی محمد مہر وزیراعلیٰ سندھ، جبکہ سب سے چھوٹے بھائی علی نواز عرف راجہ مہر صنعت و پیداوار کے مملکتی وزیر بنے۔ 
خلیجی شیوخ کی سفارش، مشرف کی مہربانی، ایم کیو ایم،  پگارا کی فنکشنل لیگ کی مدد سے علی محمد مہر کو وزارت اعلیٰ مل تو گئی لیکن وہ سندھ کے کمزور ترین وزیراعلیٰ ثابت ہوئے۔ امن و امان کا مسئلہ رہا۔ انہوں نے پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف کوئی بڑا ایکشن نہیں لیا۔ لیکن گھوٹکی کی سطح پر پارٹی کے لوگوں کو تنگ کیا۔
مہر دور میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں شب و روز گزارنے والے ایک صاحب کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم بعض زمینوں کے پلاٹ الاٹ کرانا چاہتی تھی،  مہر نے انکار کیا، تو ایم کیو ایم کی قیادت نے ان کی جنرل مشرف سے شکایت کی۔ بہرحال دو سال کے بعد انہیں ہٹا دیا گیا۔ 
ان کے ایک سیاسی مشیر بتاتے ہیں کہ علی محمد مہر کو ہٹانے میں این ایف سی پر ان کا سخت موقف بھی تھا۔ این ایف سی اجلاس سے پہلے انہوں نے جنرل مشرف سے ملاقات کی۔ اجلاس کے بعد انہیں  بااثر ادارے کے ایک اعلیٰ افسر کا فون آیا کہ ’آپ نے اچھا نہیں کیا،‘
سردار مہر کے ساتھ کام کرنے والے افسران کہتے ہیں کہ ان میں قوت فیصلہ کم تھی یا خوفزدہ رہتے تھے کہ کوئی الزام نہ آجائے۔ لہٰذا کسی کا کام نہیں کرتے تھے۔ تاہم  بتاتے ہیں کہ   انہوں نے صحرائے روہی میں تیس ہزار ایکڑ زمین مبینہ طور اپنے نام الاٹ کرالی اور ڈیزرٹ مائنر نام سے ایک نہر بھی تعمیر کرائی یہ معاملہ اب زیر تفتیش ہے۔ 

شیئر:

متعلقہ خبریں