Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کوائف درست، تصویر غلط‘، راولپنڈی پولیس کا فوری موٹرسائیکل لائسنس جاری کرنا درست ہے؟

عام طریقۂ کار سے موٹرسائیکل کا لائسنس بنواتے وقت پہلے لرنر لائسنس حاصل کرتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی
راولپنڈی پولیس حالیہ دنوں میں موٹرسائیکل سواروں کو مختلف مقامات پر قائم دفاتر میں براہِ راست لائسنس بنا کر دینے کی سہولت فراہم کر رہی ہے، جسے پنجاب حکومت کی پالیسی قرار دیا جا رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران موٹرسائیکل سواروں سے نہ تو سگنل ٹیسٹ لیا جاتا ہے اور نہ ہی ڈرائیونگ ٹیسٹ۔
دوسری جانب آپ جب عام طریقۂ کار سے موٹرسائیکل یا گاڑی کا لائسنس بنواتے ہیں تو پہلے لرنر لائسنس حاصل کرتے ہیں جس کی مدت مکمل ہونے کے بعد لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔ لیکن راولپنڈی پولیس کی جانب سے ضابطے کی کارروائی کرنے کے چند دن بعد لائسنس متعلقہ شہری کے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔
راولپنڈی کے رہائشی محمد عرفان بھی اس سہولت سے مستفید تو ہوئے مگر اُن کے ساتھ ایک مسئلہ بھی پیش آ گیا۔ وہ گزشتہ ماہ اپنے دوست کے ہمراہ کمیٹی چوک مری روڈ سے گزر رہے تھے کہ ایک ٹریفک وارڈن نے انہیں روک لیا۔
ٹریفک وارڈن نے انہیں بائیک سڑک کے کنارے لگانے کے لیے کہا۔ محمد عرفان نے سوچا کہ شاید آج کسی وجہ سے ان کا چالان ہونے والا ہے، اس لیے احتیاطاً اپنا شناختی کارڈ جیب سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔
ٹریفک وارڈن نے انہیں کمیٹی چوک کے بائیں جانب موجود ٹریفک آفس میں آنے کے لیے کہا۔
محمد عرفان نے اپنا شناختی کارڈ دوست کو دیا اور اسے اندر بھیجا کہ وہ شاید چالان کا عمل مکمل کر کے واپس آ جائے اور خود باہر ہی کھڑے رہے۔
جب کچھ دیر گزر گئی تو وہ خود اندر گئے اور اپنے دوست کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ان کا چالان نہیں ہو رہا بلکہ لائسنس بننے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
اُنہوں نے اُردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’ان کا اسی وقت لرنر لائسنس بنا، پھر میڈیکل ٹیسٹ کے بعد کاغذات اور فیس جمع کی گئی، اور انہیں کہا گیا کہ لائسنس کے لیے آپ کی درخواست مکمل ہو گئی ہے، جو چند دن بعد آپ کے گھر پہنچا دیا جائے گا۔‘
کچھ دن بعد محمد عرفان کو لائسنس موصول ہوا، لیکن اس میں تصویر ان کے دوست کی تھی جبکہ باقی تمام ڈیٹا ان کا اپنا تھا۔

ایک سابق پولیس افسر کے مطابق یہ عمل خلافِ قانون نہیں مگر خلافِ ضابطہ ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی

شہری سہولت کے لحاظ سے تو اسے ایک خوش آئند عمل قرار دے رہے ہیں، لیکن لائسنس پر غلط معلومات یا تصویر ہونے کے حوالے سے شکایات بھی آ رہی ہیں۔
اردو نیوز نے اس حوالے سے راولپنڈی ٹریفک پولیس کے پبلک ریلیشنز آفیسر شاہ رخ شاہ سے رابطہ کر کے اس پالیسی کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کی۔
شاہ رخ شاہ نے بتایا کہ ’موٹرسائیکل سواروں کی تعداد چونکہ بہت زیادہ ہے اور وہ لائسنس کی اہمیت اور اس حوالے سے آگاہی نہیں رکھتے اس لیے پنجاب حکومت کی پالیسی کے مطابق  شہریوں کو سہولت دیتے ہوئے ایک روز کے اندر ہی لائسنس کا عمل مکمل کیا جا رہا ہے۔ اس میں سگنل یا ڈرائیونگ ٹیسٹ شامل نہیں کیا جاتا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’راولپنڈی کے مختلف مقامات پر موجود ٹریفک آفس سینٹرز میں سڑک سے گزرنے والے موٹرسائیکل سواروں کو لایا جاتا ہے، اور ضروری کارروائی مکمل کر کے لائسنس جاری کر دیا جاتا ہے۔ فیس جمع کروانے کے بعد لائسنس لاہور سے براہِ راست شہری کے پتے پر بھیج دیا جاتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’شہری ایک سال، تین سال یا پانچ سال کے لیے لائسنس بنا سکتے ہیں، جن کی فیس مختلف ہوتی ہے۔ اگر کسی کے پاس رقم کم ہے تو وہ ایک سال کا لائسنس بھی بنوا سکتا ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک شہری کو ایسا لائسنس جاری کیا گیا جس پر تصویر کسی اور کی اور ڈیٹا کسی اور کا تھا، تو کیا یہ عجلت میں کام کرنے کا نتیجہ ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ ان کے علم میں نہیں ہے، ممکن ہے کوئی تکنیکی یا پرنٹنگ کا مسئلہ ہوا ہو جسے درست کیا جا سکتا ہے۔
تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ لائسنس جاری کرتے وقت تمام ضروری چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔

فوری لائسنس جاری کرتے وقت موٹرسائیکل سواروں سے کسی قسم کا ٹیسٹ نہیں لیا جاتا۔ فائل فوٹو: راولپنڈی پولیس فیس بک

اس حوالے سے اردو نیوز نے پولیس سروس کا وسیع تجربہ رکھنے والے سابق ایس ایس پی (ر) سید فرحت کاظمی سے رابطہ کیا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ کیا پولیس اس طرح لائسنس جاری کر سکتی ہے۔
انہوں نے اپنے تجزیے میں بتایا کہ ’یہ غیر قانونی تو نہیں، لیکن خلافِ ضابطہ ضرور ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جس طرح کی غلطی اس کیس میں ہوئی ہے، ایسی غلطیاں اسی وقت ہوتی ہیں جب آپ سڑک پر جا رہے موٹرسائیکل سواروں کو فوری لائسنس جاری کریں، کیونکہ یوں ضابطے کی کارروائی مکمل نہیں ہوئی ہوتی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’لائسنس کسی کو گھر جا کر یا سڑک پر فوری طور پر جاری نہیں کیا جا سکتا، اس کے لیے لائسنس حاصل کرنے والے کو باقاعدہ درخواست اور عمل مکمل کرنا پڑتا ہے۔‘
انہوں نے یہ امکان بھی ظاہر کیا کہ اس کی وجہ ٹریفک پولیس کی آمدنی میں اس طریقے سے اضافہ کرنا بھی ہو سکتا ہے۔

 

شیئر: