پنجاب میں پیرا فورس کی کارروائیوں سے تاجر پریشان، ’ہراسگی کسی صورت قبول نہیں‘
پنجاب میں پیرا فورس کی کارروائیوں سے تاجر پریشان، ’ہراسگی کسی صورت قبول نہیں‘
ہفتہ 9 اگست 2025 5:48
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
پیرا فورس کا باقاعدہ افتتاح گذشتہ مہینے وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز نے کیا تھا۔ (فوٹو: پیرا)
پنجاب بھر میں تجاوزات کے خاتمے کے لیے بنائی گئی پنجاب انفورسمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پیرا) فورس ان دنوں سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ ایک طرف حکومت کے حامی اس فورس کی کارروائیوں کی تعریف کر رہے ہیں تو دوسری طرف اس فورس کے ’متاثرین‘ سخت احتجاج کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک ایسی کہانیوں سے بھرا پڑا ہے۔ حافظ عرفان کا تعلق صوبائی دارالحکومت لاہور کی کریم بلاک مارکیٹ کے علاقے سے ہے۔ وہ اس علاقے میں گذشتہ پانچ برسوں سے ریڑھی پر سامان بیچ رہے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’میں پانچ برس سے یہاں بیلٹ بیچ رہا ہوں۔ گذشتہ برس اکتوبر سے جب تجاوزات کے خلاف آپریشن ہوا تو میں نے اپنی ریڑھی ہٹا لی۔ اس کے بعد سے میں اسی مارکیٹ میں وہی چیزیں ہاتھوں میں پکڑ کر بیچ رہا تھا۔ مجھے پکڑ لیا اور ہتھکڑیاں لگا کر گھسیٹ کر لے کر گئے۔ مجھے اس چیز کا بڑا دکھ ہے۔ میری ویڈیوز بنائی گئی ہیں اور مجھے سب کے سامنے تذلیل کا نشانہ بنایا گیا۔ میں تین بچیوں کا باپ ہوں۔ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے میری بچیاں بھی یہ ویڈیوز دیکھیں گی، میں بہت تکلیف میں ہوں۔‘
خیال رہے کہ پیرا فورس کا باقاعدہ افتتاح گذشتہ مہینے وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز نے کیا تھا اور اس فورس کو باقاعدہ قانون سازی کے بعد صوبے بھر میں لانچ کیا گیا ہے۔
اس فورس کی ذمہ داریوں میں نہ صرف تجاوزات کا خاتمہ ہے بلکہ سرکاری زمینوں پر قبضے بھی واگزار کروانا ہے۔ تاہم عملی طور پر پہلے سے جاری تجاوزات کی مہم جو کہ شہروں کی ضلعی انتظامیہ چلا رہی تھی اب یہ کام پیرا فورس کے ذریعے ہو رہا ہے۔
نئی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر باوردی اہلکار بازاروں اور مارکیٹوں میں سرگرم ہیں تاہم ان کارروائیوں پر تاجر برادری بظاہر خوش نظر نہیں آتی۔
دو روز قبل شاہدرہ میں ایک مارکیٹ میں دکان کے اوپر لگا بورڈ ہٹاتے ہوئے چار افراد کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گئے۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ پیرا فورس نے پوری مارکیٹ سے بورڈز ہٹانے کا حکم دیا تھا۔
ان کارروائیوں کے حوالے سے لاہور انجمن تاجران کے جنرل سیکریٹری میاں خلیل الرحمن کہتے ہیں کہ ’مجھے لاہور کی سب مارکیٹوں کا پتہ ہے۔ میں خود اس جگہ پر گیا ہوں جہاں چار لوگ جان سے گئے ہیں۔ وہ بورڈ دکان کے اوپر لگا ہوا تھا اور اس سے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہو رہی تھی اور نہ وہ سرکاری جگہ پر تھا۔‘
’ان چار اموات سے تاجروں میں بڑا غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ہم یہ بالکل نہیں کہہ رہے کہ حکومت تجاوزات کے خلاف آپریشن نہ کرے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ مارکیٹوں میں ہوٹر والی گاڑیوں پر آنا اور ہراسگی کا ماحول پیدا کرنا یہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔‘
’یہ چار بندے بھی اسی لیے مرے ہیں کہ بازاروں میں دہشت پھیلی ہوئی ہے۔ ایک طرف سے آواز نکلی کی پیرا والے آ گئے اور چونکہ ان کو بورڈ ہٹانے کا نوٹس ملا ہوا تھا، تو وہ جلدی سے ہٹانے لگے اور کرنٹ لگنے سے ہلاک گئے۔ انفورسمنٹ اور دہشت میں فرق ہے۔ اس وقت کم از کم ایک لاکھ افراد بے روز گار ہو چکے ہیں۔ یہ سب کچھ کاروبار کے لیے سازگار نہیں ہے۔‘
پیرا فورس کی کارروائیوں پر تاجر برادری بظاہر خوش نظر نہیں آتی۔ (فوٹو: پیرا)
میاں خلیل الرحمن کا کہنا تھا کہ ’ہم اس حکومت کے حامی ہیں لیکن یہ جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک نہیں ہے۔ حکومت کو صرف اس بات پر نظر ثانی کرنی ہو گی کہ یہ فورس کام کیسے کرے گی۔ ان کی اخلاقی تربیت بھی کرنا ہو گی، گالیوں اور بدتہذیبی کی کون سا قانون اجازت دیتا ہے؟‘
تاہم دوسری طرف پیرا فورس ان الزمات کی تردید کرتی ہے۔ کریم بلاک مارکیٹ کے علاقے میں پیرا فورس کے انسپکٹر عابدعلی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم صرف اور صرف قانون پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ چونکہ زیادہ تر لوگ غیرقانونی طریقےسے کاروبار کر رہے ہیں، اس لیے عمل درآمدگی کا کوئی بھی طریقہ ان کے لیے ناگوار ہے۔‘
’شولڈر سیلنگ یعنی کندھے پر چیزیں رکھ کر بیچنا ایس او پیز کے خلاف ہے، اس لیے ایسے لوگوں کو پہلے وارننگ دی گئی پھر کارروائی کی گئی۔ کیونکہ دکاندار یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لاکھوں روپے کرایہ دیتے ہیں اور باہر سے گاہک یہ لے جاتے ہیں۔ اس لیے شولڈ سیلنگ کو ایس او پیز کا حصہ بنایا گیا اور ہم اس پر عمل درآمد کروا رہے ہیں۔‘