Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جدہ میں 40 سال سے بند گنبد نما عمارت کا راز کیا ہے؟

نصف صدی سے کھڑی اس گنبد نما عمارت کے حوالے سے متعدد پراسرار کہانیاں مشہور ہیں۔
سعودی عرب کا شہرجدہ دو حصوں میں منقسم ہے اور دونوں حصوں کے درمیان شارع فلسطین فصیل کا کام کرتی ہے۔
شارع فلسطین کے جنوب میں پرانا جدہ ہے جبکہ شمال میں جدید شہر واقع ہے۔ اس فصیل پر جہاں شارع فلسطین کا شاہراہ کنگ فہد یا جسے شارع ستین بھی کہا جاتا ہے کا ملاپ ہوتا ہے، وہاں گنبد نما گول عمارت کئی کہانیاں سنا رہی ہے جنہیں غیر ملکی تو کجا خود سعودی شہریوں کی بڑی تعداد بھی نہیں جانتی۔
جدہ میں آباد غیر ملکی اور مقامی شہریوں کی اکثریت جب بھی شارع فلسطین اور شارع ستین کی کراسنگ سے گزرتے ہیں تو خود سے ضرور یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر یہ خوبصورت گنبد نما عمارت کیا ہے اور اس کے پیچھے کیا راز ہے؟

  اس گنبد نما عمارت کا نام ’جدہ دوم‘ ہے جو فن پاروں کی نمائش کے لیے  1979 میں تعمیر کی گئی تھی۔   

اس عمارت کی کہانی سعودی عربین سوسائٹی فار کلچر اینڈ آرٹ کی جدہ برانچ کے سابق رکن عبید ابو الشامات کی زبانی سنیے:
وہ کہتے ہیں: ’اس غیر آباد اور کھنڈر میں تبدیل ہونے والی عمارت کو ’جدہ دوم‘ کہتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’اس کے متعلق جو کہانیاں زبان زد عام ہیں وہ غلط ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس پر اسرار عمارت پر جنات کا قبضہ ہے، کوئی کہتا ہے کہ اس کے مالک کا انتقال ہوگیا ، اب کوئی وارث نہیں ہے، کوئی کہتا ہے بہت سارے وارث ہیں جن کے درمیان جھگڑا چل رہا ہے۔ یہ سب غلط ہے۔ حقیقت جو کچھ ہے وہ کچھ اور ہے۔‘
ابو الشامات نے اردو نیوز کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں بتایا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ جدہ دوم کی تعمیر 1979 میں اس وقت کے معروف تاجر اور فنون لطیفہ کے آرٹسٹ موفق الحارثی نے کروائی تھی۔ اس وقت کا سعودی عرب مختلف تھا۔
عرب دنیا میں فنون لطیفہ، گائیگی، موسیقی، اداکاری اور فنون و علوم کا عروج تھا۔ مصر فنون لطیفہ کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ گرد وپیش میں ہونے والی تبدیلیوں سے سعودی عرب بھی متاثر ہوا۔ یہاں بھی اس میدان میں ترقی کا پہیہ تیزی سے گھومنا شروع ہوا۔‘ 

  چالیس سال سے بند ’جدہ دوم‘ کو ایک بار پھر عوام کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

وہ کہتے ہیں کہ ’جہاں فنون لطیفہ کے دیگر میدانوں کو نکھرنے کا موقع ملے وہاں فن کا شعبہ کیسے پیچھے رہ سکتا تھا۔ اس وقت جدہ کے فنکاروں نے فیصلہ کیا کہ شہر میں کوئی ایسا مرکز ہونا چاہیے جہاں مقامی فنکاروں کے علاوہ غیر ملکی بھی آکر اپنے فن کی نمائش کیا کریں۔ لوگ مقامی فنکاروں کے علاوہ غیر ملکیوں کے بھی فن سے واقف ہوں۔‘
ابو الشامات مزید کہتے ہیں:’ بس پھر کیا تھا، جدہ کے معروف تاجر موفق الحارثی نے خوابوں کے مرکز کو حقیقت کا رنگ دینے کا بیڑا اٹھا یا۔ وہ خود بھی بڑے آرٹسٹ اور باذوق آدمی تھے۔ فیصلہ ہوا کہ اس کا نام ’جدہ دوم‘ رکھا جائے گا اور اس کی تعمیر کیسی ایسی جگہ پرہو جہاں کا محل وقوع خود اس بات کا اشارہ دے رہا ہو کہ شہر جدیدیت کی طرف محو سفر ہے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ جدہ دوم کی تعمیر شارع فلسطین پر کی جائے جو بذات خود شہر کو دو حصوں میں بانٹتی ہے۔‘
ابو الشامات میرے سامنے بیٹھے تھے مگر 40 سال پہلے کی یادوں میں گم ہوگئے۔ اس کی خاموشی کا احترام کرتے ہوئے میں نے بھی سانسیں روکنے کی کوشش کی کہ مبادا میری سانسوں کی آہٹ سے یادوں کی تاریں کہیں بکھر نہ جائیں۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد گویا ہوئے: ’جدہ دوم کی طرز تعمیر منفرد رکھی گئی۔ اس وقت کے آرٹسٹ چاہتے تھے کہ کوئی بڑا ہال ہو جہاں فن پاروں کی نمائش کی جائے مگر اس کی طرز تعمیر ذرا ہٹ کر ہو۔ چنانچہ موفق الحارثی نے اس وقت بہترین انجینئروں کی خدمات حاصل کیں اور گنبد نما عمارت کی تعمیر پر اتفاق ہوا اور ریکارڈ وقت میں جدہ دوم تعمیر ہوگیا۔‘  

سعودی وزیر ثقافت شہزادہ بدر بن عبد اللہ  نے جدہ دوم کا دورہ کیا اور اسے سعودی آرٹسٹوں کے فن پاروں کی نمائش کے لیے کھولنے کا اعلان کیا۔  

انہوں نے بتایا کہ ’سعودی فنکاروں کا خواب سچ ہوتا دکھائی دیا اور وہ دن بھی آگیا جب جدہ دوم کا شاندار افتتاح ہوا۔ یہ 1979  کے شروع کی بات ہے۔ اس وقت جدہ میں غالبا ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے فنکار قیام پذیر تھے جن کا نام تو بھول رہا ہوں مگر سب انہیں پروفیسر رضوی کہا کرتے تھے۔ جدہ دوم کی سربراہی کے لیے پروفیسر رضوی سے بہتر کون ہوسکتاتھا۔ چنانچہ ان کی سربراہی میں جدہ دوم کے دروازے اہل ذوق کے لئے کھول دیے گئے۔‘
ابو الشامات کہتے ہیں:’جدہ دوم کے افتتاح کو چند مہینے ہی ہوئے تھے، ابھی عمارت پر مٹی بھی نہیں چڑھی، ابھی سعودی فنکاروں کی خوشی ہی پوری نہیں ہوئی کہ جدہ دوم کو بند کردیا گیا۔‘
مگر کیوں؟ بے ساختہ میری زبان سے نکل گیا۔

سعودی عرب میں ایک بار پھر فنون لطیفہ کا ہر شعبہ بیدار ہو رہا ہے۔ 

ابو الشامات نے لمبی سانس لی اور بولے: ’نومبر 1979 کی بات ہے جب خانہ کعبہ میں افسوسناک واقعہ رونما ہوا۔ جہیمان عتیبی کی جماعت نے حرم شریف پر قبضہ کرلیا تھا۔ خیر وہ بحران مختصر عرصے کے بعد حل ہوگیا مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ گرد وپیش کی دنیا سے ہم آہنگ معاشرے کو قدامت پسندی کی طرف موڑ دیا گیا۔ پھر ہر اس چیز پر پابندی لگ گئی جس سے جدیدیت کی بو آتی تھی۔ اس کا شکار جہاں فن کے دیگر کئی شعبے ہوئے وہاں آرٹ کا شعبہ بھی متاثر ہوا۔ اس کی کاری ضرب جدہ دوم پر پڑی جس پر اس وقت تالے لگ گئے۔
ابو الشامات کی بات ختم ہوگئی اور مزید کسی چیز کی وضاحت مطلوب بھی نہیں تھی۔ جدہ دوم 40 سال سے بند ہے اور شاید آئندہ کئی دہائیوں تک بند رہتا اور چند معدودے کے علاوہ کسی کو اس کی کہانی کا علم بھی نہ ہوتا اگر گذشتہ دنوں سعودی وزیر ثقافت شہزادہ بدر بن عبد اللہ بن فرحان آل سعود اس کا دورہ نہ کرتے۔
ہوا یہ کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سربراہی میں جہاں سعودی معاشرے کا احیا ہورہا ہے وہاں فنون وعلوم کا ہر شعبہ بیداری کی زد میں ہے۔ سعودی ثقافت کو دنیا میں اجاگر کرنے کے لیے حکومت نے وزارت ثقافت کا قیام کیا ہے جو بڑی تیزی کے ساتھ دہائیوں کی پڑی گرد جھاڑ رہی ہے۔ 
وزیر ثقافت شہزادہ بدر نے جدہ میں آرٹ کی نمایاں علامت جدہ دوم کا دورہ کیا اور اس کے احیا کی ہدایت جاری کی۔ دورے کے بعد انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ بہت جلد جدہ دوم کو پہلے کی طرح عوام کے لیے کھول دیا جائے گا۔ اب بہت جلد یہاں سعودی فنکارون کے فن پاروں کی نمائش ہوگی۔

شیئر: