Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ختم، وکلا کا تحفظات کا اظہار

سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین جسٹس آصف سعید کھوسہ کی زیر صدارت جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف صدارتی ریفرنس سنا گیا۔
پاکستان میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں جسٹس قاضی فائز اور جسٹس کریم خان آغا کے خلاف بھیجے گئے صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ختم ہو گیا ہے تاہم کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔
بند کمرے (ان کیمرا) میں جاری رہنے والے سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کی صدارت کونسل کے چیئرمین جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کی۔
اجلاس میں کونسل کے دیگر ممبران جسٹس گلزار احمد جسٹس عظمت سعید، جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس احمد علی شیخ شامل تھے۔
خیال رہے کہ چودہ جون کو منعقدہ پہلے اجلاس کی کارروائی کے اختتام پر جسٹس قاضی فائز اور جسٹس کے کے آغا کو صدارتی ریفرنس اور اس کے ساتھ منسلک دستاویزات بھیج کر ان کا مؤقف مانگا گیا تھا۔
منگل کو سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس تقریباً آدھ گھنٹہ جاری رہا۔ اجلاس کے اختتام پر کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔

 


جسٹس آصف سعید کھوسہ (درمیان) کی زیر صدارت جسٹس فائزعیسیٰ (دائیں) اور جسٹس کے کے آغا (بائیں) کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی۔

سماعت کے اختتام پر وکلا کے تحفظات

وکیل رہنما حامد خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے قانون اور قواعد کے تحت ابتدائی اجلاس کے بعد جس جج کے خلاف ریفرنس ہو اس کا مؤقف سامنے آتا ہے اور اگر تحریری جواب کے بعد بھی ضرورت محسوس کی جائے تو مذکورہ جج کو ذاتی طور پر پیش ہو کر اپنا جواب دینے کے لیے بلایا جا سکتا ہے۔
اجلاس کے موقع پر سپریم کورٹ کے احاطے میں وکلا نے دھرنا دیا جبکہ پاکستان بار کونسل کے دفتر میں مشاورت بھی کی گئی۔
دھرنے کے اختتام پر پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے مشترکہ پریس کانفرنس کی ۔
دونوں رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ریفرنس کی دوسری تاریخ تھی۔ ’ہم نے اپنا اجلاس بھی طلب کیا تھا۔ تمام بارز کے نمائندوں نے شرکت کی، وکلاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ملک کی بقا، عدلیہ کی آزادی، آئین اور قانون کی حکمرانی کے لیے سب متحد ہیں۔ امجد شاہ نے کہا کہ ہم ججز کے خلاف یہاں نہیں کھڑے، مطالبہ کیا تھا کہ تمام ریفرنسز کی سماعت کی جائے، ہمیں کچھ تحفظات ہیں۔

صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے احاطے میں وکلا کا احتجاج۔ فوٹو: اردو نیوز

وائس چیئرمین نے کہا کہ اعلی عدلیہ میں نئے ججوں کے تقرر کے لیے گذشتہ روز منعقد جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں وکلا کے دو نمائندے شریک ہوئے اور نئے ججز کی نامزدگی پر اعتراض اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام ثبوت بھی فراہم کیے لیکن ہمارے نمائندوں کی بات کو اہمیت نہیں دی۔
امجد شاہ کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں میڈیا کو بھی آزادی ملے۔
پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے احتسابی ادارے، سپریم جوڈیشل کونسل، میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف صدارتی ریفرنس پر منگل کی صبح کو کارروائی ہوئی تھی۔ 

 

صدارتی ریفرنس کے خلاف وکلا کا احتجاج

صدارتی ریفرنس کی منگل کو ہونے والی سماعت کے دوران  ملک بھر میں وکیلوں نے ہڑتال اور احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے احاطے میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف  دائرحکومتی ریفرنس کے خلاف وکیلوں کا دھرنا سماعت کے دوران جاری رہا، جس میں وکیل رہنما علی احمد کرد اور دیگر نے شرکت کی تھی۔
عدالت عظمیٰ کے باہر پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ اور سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ کنرانی نے مشترکہ پریس کانفرنس کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آج پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، ریاست کے تیسرے ستون پر حملہ ہوا ہے اور اس حملے کے لیے ہدف قاضی فائز عیسی کو چنا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وکیلوں کے ضمیر پیسوں سے خریدنے کے لیے پروپیگنڈہ کیا گیا۔ ’وکیل پیسوں پر بکنے والے نہیں۔‘
سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ کنرانی نے کہا کہ تمام بار ایسوسی ایشنز کی ہڑتال میں شرکت سے پروپیگنڈہ کرنے والے ناکام ہوگئے ہیں۔ ’ہم سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ختم ہونے تک یہاں بیٹھے ہیں جس کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ پاکستان بار کونسل کے دفتر میں دونوں تنظیموں کے عہدیداروں کا آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے اجلاس منعقد کیا جا رہا ہے۔‘

وکلا رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ملک کی بقا، عدلیہ کی آزادی، آئین اور قانون کی حکمرانی کے لیے سب متحد ہیں :فائل فوٹو اردو نیوز

دوسری طرف پنجاب بار کے چند وکلا نے مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ججوں کا احتساب ضروری ہے اور وہ صدارتی ریفرنس کے حق میں ہیں۔
پنجاب بار کے نمائندے جمیل اصغر بھٹی نے کہا کہ وہ قانون کی حکمرانی کے لیے حکومت کے ساتھ ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پر ابتدائی سماعت 14 جون کو ہوئی تھی۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے ریفرنس کی کاپی بھجوا کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے وضاحت طلب کی تھی۔
ذرائع کے مطابق کونسل نے اپنی ابتدائی اجلاس میں ریفرنس کے دستاویزات مذکورہ ججوں کے ساتھ شیئر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم ججوں کو ’سپریم جوڈیشل کونسل پروسیجر آف انکوائری ایکٹ 2005‘ کے تخت مذکورہ ججوں کو کوئی شو کاز نوٹس نہیں بھیجا گیا تھا۔
خیال رہے سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید، سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ اور پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ شامل ہیں۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ پر اپنی بیگم اور بچوں کے نام پر برطانیہ میں موجود تین جائیدادوں کو انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے، جبکہ جسٹس کے کے آغا پر برطانیہ میں دو جائیدادوں کے مالک ہونے کا الزام ہے۔
 

شیئر: