Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساون کی رُت میں لاہور کا 'ہائبرڈ' میلہ

ساون کا خیال آتے ہی سب سے پہلے مزے مزے کے پکوان ذہن میں آتے ہیں لیکن اور بھی بہت سی ایسی روایات ہیں جن کو ساون سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ پنجاب کے دیہاتی اور شہری کلچر میں بکھرا ہوا ہے۔ تیزی سے بدلتے وقت میں یہ سب کچھ دھندلا بھی رہا ہے۔ ایسے میں لاہور کے پارکوں کے نگران ادارے پی ایچ اے (پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی) نے ان روایات کو ایک چھت تلے جمع کر کے اسے ’ساون میلے‘ کا نام دیا ہے۔ دس دن کا یہ میلا لاہور کے ریس کورس یا جیلانی پارک میں 15 اگست تک سجا رہے گا۔
ویسے تو پنجاب کے معدوم ہوتے دیہاتی میلوں کا وقت بہار کے بعد گندم کی کٹائی کے موسم میں ہوتا ہے جب کسان فصلوں کو سمیٹ کر ان میلوں کا رخ کرتے تھے۔ اور ساون کی جھڑی میں تو گھروں میں بیٹھ کر نئے نئے پکوان اور موسم کے مخصوص کھانے بنا کر بارش سے محظوظ ہونا ہی روایت رہی ہے۔
پی اے ایچ کے چیئرمین یاسر گیلانی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’آپ بظاہر اسے ہائیبرڈ میلہ کہہ سکتے ہیں کیوں کہ اس میں پنجاب کے کلچرل میلے اور ساون کے پکوانوں کے ساتھ ساتھ عمومی کلچر کو بھی جوڑ دیا گیا ہے۔ میلے میں مختلف اقسام کے سٹالز لگے ہیں جو شہریوں کی توجہ حاصل کریں گے۔‘

ساون میلے کا مقصد پنجاب کی معدوم ہوتی ہوئی روایات کو زندہ رکھنا اور لوگوں کو دیہی کلچر سے روشناس کرانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے ادارے کا کام پارکوں کی رونقیں بحال رکھنے کا ہے اس لیے مختلف آئیڈیاز پر کام کیا جاتا ہے۔ یہ دوسری بار ہے کہ بارشوں کے موسم میں ’ساون میلے‘ کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے 2012 میں یہ کوشش کی گئی تھی۔
یاسر گیلانی کا کہنا تھا کہ بارش کے بعد جب لوگ گھروں سے باہر نکلتے ہیں تو سموسوں پکوڑوں کی دکانوں پر بہت رش ہوتا ہے اور پھر لوگ پارکوں میں بھی آتے ہیں۔ ’ایسے میں پکوڑوں کے ساتھ ان کو مکئی کی روٹی اور ساگ کے ساتھ روایتی بھٹی پر بھنے ہوئے چاول بھی ملیں تو یقیناً یہ اچھی سرگرمی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میلے کا ایک بڑا مقصد کلچر کا ملاپ ہے کہ شہریوں کو دیہاتی کلچر سے روشناس کروایا جائے اور اسی لیے پکوانوں کے ساتھ ساتھ دیگر چیزوں کے بھی سٹالز لگائے گئے ہیں۔ ہاتھ دیکھ کر قسمت کا حال بتانے والے، بچوں کے لیے ہارر ہاؤس، کھدر کے کپڑے اور روز مرہ  استعمال کی اشیا، سبھی کچھ ساون میلے کا حصہ بنا دیا گیا یے۔ 

میلے میں لگے مختلف سٹالز شہریوں کی بھرپور توجہ حاصل کر رہے ہیں۔

ساون کی بارشیں اور کلچر 

کیا ساون کو ہمیشہ سے ایسے ہی طریقوں سے منایا جاتا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب پنجاب یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر شبیر احمد کچھ یوں دیتے ہیں۔ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ساون خوشی بھرے انداز میں منانا صدیوں سے اس کلچر میں چلا آ رہا ہے۔ اگر آپ تزک بابری پڑھیں تو اس میں بھی ساون کے موسم میں گرمی کے اچانک کم ہو جانے کو لوگ باقاعدہ طور پر مناتے تھے۔ چونکہ برصغیر میں زیادہ تر حکمران باہر سے آتے رہے ہیں تو جون جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی کے بعد بارشوں کا موسم انہیں حیران کر دیتا تھا تو وہ اپنی خوشی کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتے تھے اور اس میں پکوان کو خاصی اہمیت حاصل رہی ہے۔‘

ساون میلے میں طرح طرح کے کھانے پینے کے علاوہ بچوں کی تفریح کے لیے بھی سٹالز لگائے گئے ہیں۔

پروفیسر شبیر احمد نے کہا کہ ’اگر آپ کتاب ’کالی داس‘ پڑھیں اور جتنا ادب اس خطے میں تخلیق ہوا ہے تو اس میں بارشوں اور خاص طور پر ساون کا بہت زیادہ ذکر ملتا ہے۔ شاعروں نے تو مے نوشی کو بھی ساون سے جوڑ دیا۔‘
لاہور کے ساون میلے سے متعلق ان کا کہنا تھا ’تاریخی اعتبار سے بیساکھی کی طرح کے میلے ساون میں تو نہیں رہے لیکن ہمارے ملک میں چونکہ جب بھی دیہاتی ’فیسٹی وٹی‘ کا ذکر آتا ہے تو سب سے پہلے میلہ ہی ذہن میں آتا ہے۔ میرے ذاتی خیال میں ہر وہ چیز جس سے تھوڑی بہت خوشی یا ریلیف میسر آئے اس کی شکل کیسی بھی ہو اس کی بھر پور پذیرائی کرنی چاہیے، یہاں تو ویلنٹائن ڈے تک نہیں منانے دیا جاتا۔‘
 

شیئر: