Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مارٹن لوتھر کنگ: انکار سے خواب تک کا سفر

56 سال قبل آج کے دن مارٹن لوتھر کنگ نے اپنا ’خواب‘ بھرے مجمعے کو سنایا تھا جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ فوٹو اے ایف پی
’خوابوں پر کوئی پابندی نہیں‘ یہ جملہ ہر اس وقت ایک مخصوص تحقیری ’ہونہہ‘ کے ساتھ بولا جاتا ہے جب کوئی کم حیثیت اپنی اوقات سے بڑھ کر بات کر دے۔
اُس وقت بھی یقیناً اعلیٰ نسل کے دعویداروں اور ان کے بالا ایوانوں میں یہی ہوا ہو گا۔ جب حیثیت ہی نہیں، شکل، رنگ، تعلیم وغیرہ میں انتہائی کم ترشخص نے کہا کہ ’میرا ایک خواب ہے۔‘
(!I have a dream)
 حالانکہ حقیقت کی سب سے بنیادی اکائی خواب ہی ہے۔
جب یہ ’سیاہ خواب‘ تقریر اور ڈھائی لاکھ کے مجمعے میں ڈھلا تو ’سفید محل‘ کا رنگ اڑنا شروع ہوا، اس کے 41 سال بعد ایک سیاہ فام وائٹ ہاؤس کا مکین بنا مگر یہ پوری داستان ساڑھے چار سو سال پر مشتمل ہے۔
سال ہے 1619، وائٹ لوائن نامی ولندیزی جہاز کی میکسیکو جاتے ہوئے ہسپانوی بحری جہاز کے عملے سے جھڑپ ہوتی ہے اور 20 افریقی غلاموں کو پکڑا جاتا ہے، جب یہ مرمت کے لیے ورجینیا کے ساحل پر لنگرانداز ہوتا ہے تو وہی 20 غلام معاوضے کے طور پر مکینک کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔ یہاں سے شروع ہوتا ہے سلسلہ غلامی کا، پھر افریقہ کے جنگلوں میں جا کر سیاہ فاموں کو پکڑنے اور بیگار کے لیے امریکا لانے کا کام زور پکڑتا ہے اور یہ باقاعدہ کاروبار بن جاتا ہے۔
وقت گزرتا رہا، سیاہ فام لائے جاتے رہے، اس وقت ’ہیومن زو‘ بھی بنے جہاں لوگ پنجروں میں بند افریقیوں کو دیکھنے آتے۔ شروع میں انہیں زنجیروں میں باندھ کے رکھا جاتا، پھرگھروں میں کوارٹر بنائے جانے لگے پھر الگ بستیاں قائم ہوئیں، اس وقت سیاہ فاموں کے لیے انسان کے بجائے ’شے‘ کا لفظ استعمال ہوتا۔

مارٹن لوتھر کنگ کی یاد میں واشنگٹن ڈی سی میں میموریل سابق صدر باراک اوباما کے دور میں تعمیر کیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

 1862 میں امریکہ نے غلامی کو غیرقانونی قرار دے دیا تاہم امتیازی قانون ضرور موجود رہے، جن کے مطابق ان کی بستیاں الگ تھیں، سکول الگ تھے، ان کے لیے لازم تھا کہ گاڑی میں سفر کرتے ہوئے سفید فام سوار ہو تو اس کے لیے جگہ چھوڑیں اور پیچھے کے مخصوص حصے میں کھڑے ہو کر سفر کریں۔ اس دور میں ہی جارج سٹینلے نامی اس سیاہ فام بچے کا واقعہ بھی پیش آیا جسے غلط سزائے موت دی گئی اور کئی دہائیوں بعد 2014 میں بے گناہ قراردیا گیا۔

آزادی کے لیے عدالت سے رجوع

1857 میں ڈریڈ سکاٹ نامی ایک سیاہ فام غلام نے اس تاثر سے مغلوب ہوکرعدالت سے رجوع کیا جو اسے کچھ سفید فاموں کی جانب سے ہمدردی کی شکل میں ملا تھا، اس نے درخواست دی کہ ’میں ایک مکمل انسان ہوں، مجھے اور میرے بچوں کو وہ تمام حقوق ملنے چاہییں جو کسی بھی شہری کو ملتے ہیں، عدالت نے جائزہ لینے کے بعد فیصلہ سنایا۔
’اگر ایک غلام کسی ایسی ریاست میں پناہ لے لے جہاں غلامی ممنوع ہے تب بھی وہ ایک آزاد شخص تصور نہیں کیا جا سکتا اور کانگریس کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی علاقے میں غلام کو کالعدم قرار دے۔ غلام اور اس کے ورثا شہریت حاصل کرنے کے اہل نہیں، اس فیصلے پر اس وقت کے امریکی صدر ابراہَم لنکن سمیت متعدد حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔

’انکار‘ کا سفر

15 جنوری 1929 کو ایک سیاہ فام پادری کے گھر آنکھ کھولنے والے مارٹن لوتھر کنگ نے اپنے 39 سال کے صرف پر مشتمل زندگی میں سیاہ فاموں کو صدیوں کا سفر برسوں میں طے کروایا۔ شروع سے ہی ایک مخصوص ماحول اور سلوک دیکھنے پر مارٹن اکثر سوچتا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے، نوجوانی میں ہی اس نے حقوق کے لیے آواز اٹھانا شروع کی، وہ گاندھی کے فلسفہ عدم تشدد سے متاثر تھا۔
اس کی جدوجہد کو اس وقت پیش آنے والے دو واقعات سے مہمیز ملی۔
1955 میں ایک سیاہ فام لڑکی نے بس میں سفید فام کے لیے سیٹ چھوڑنے سے انکار کر دیا جس پر اسے گرفتار کر لیا گیا، کچھ روز بعد منٹگمری میں ’روزا پارک‘ نامی سیاہ فام خاتون کو بھی سیٹ خالی نہ کرنے پر گرفتار کیا گیا جس پر مارٹن لوتھر کنگ نے احتجاج کیا۔
اس دوران سیاہ فاموں اور ان کے حامی سفید فاموں نے اپنے علاقوں کی بسوں کا بائیکاٹ کیا جس پر ڈسٹرکٹ کورٹ نے بسوں میں نسلی امتیاز کا یہ قانون ختم کر دیا۔
یہ برابری کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے بہت بڑی فتح تھی، سیاہ فاموں نے اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا۔ ویسے تو شروع سے ہی امریکہ کے سفید فاموں میں سیاہ فاموں کے لیے ہمدردی کا جذبہ کسی نہ کسی حد تک موجود تھا لیکن اس کی شرح بہت کم تھی۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بڑھتی گئی اور بات پہنچی اس تاریخی ’خواب‘ تک۔

امریکہ میں 1964 میں شروع ہونے والی شہری حقوق کی تحریک کے 41 سال بعد ایک سیام فام وائٹ ہاؤس کا مکین بنا۔ فوٹو اے ایف پی

میرا ایک خواب ہے

آج سے 56 سال قبل، آج ہی کی صبح واشنگٹن کی سڑکوں پر جگہ جگہ سیاہ فام دکھائی دے رہے تھے، چھ تنظیموں نے سب کو واشنگٹن پہنچنے کی کال دے رکھی تھی، جوں جوں وقت گزرتا گیا لوگوں کی تعداد بڑھتی رہی اور اسے میڈیا نے کوَر کرنا شروع کیا۔ اس میں سیاہ فاموں کے علاوہ انسانی برابری پر یقین رکھنے والے سفید فام اور دوسری اقوام کے لوگ بھی مختصر تعداد میں شریک تھے۔
چند گھنٹوں میں ہی ابراہَم لنکن کی یادگار لوگوں سے بھر گئی جن کی تعداد ڈھائی لاکھ بتائی جاتی ہے، سیاہ فاموں کے نوجوان رہنما کنگ وہاں پہنچے تو بھرپور استقبال کیا گیا۔ امریکی حکومت اس کا بغور جائزہ لے رہی تھی، خبروں میں بار بار اس اجتماع کا تذکرہ ہو رہا تھا اور جب مارٹن لوتھر کنگ نے مائیک سنبھالا تو یہ منظر میڈیا پر براہ راست جا رہا تھا۔
انہوں نے دھیمے سے اندازمیں کہا ’میرا ایک خواب ہے‘ اور پھر تیز آواز میں دُہرایا۔
’میرا خواب ہے کہ جارجیا کی سرخ پہاڑیوں کے دامن میں ایک دن سفید فام آقاؤں اور سیاہ فاموں غلاموں کے وارث ایک دوسرے سے گلے ملیں، میرا ایک خواب ہے کہ میرے بچے اپنے رنگ کے بجائے اپنے کردار سے پہچانے جائیں، میرا اک خواب ہے کہ۔۔۔‘ 
پھر بولے مجھے خوشی ہو رہی ہے اپنی آزادی کے لیے جمع ہونے والے اس تاریخی مجمع میں شریک ہو کر، آج ہم اس عظیم امریکی لیڈر کی یادگار کے سائے میں کھڑے ہیں جس نے سب کے لیے آزاد ہونے کا اعلان کیا تھا مگر سو سال گزر جانے کے باوجود سیاہ فام آج بھی غلام ہیں۔
لوتھر کنگ جونیئر کی اس تقریر نے سب کو ہلا کر رکھ دیا، اسے ابراہَم لنکن کی گیٹِس برگ کی تقریراور فرنکلن روز ویلٹ کے تاریخی خطاب کے بعد امریکی تاریخ کی تیسری عظیم ترین تقریر کہا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا ’غلامی نے کئی طبقات سے صدیاں چھینی ہیں ان کا حق بنتا ہے کہ ان کی سماجی، تعلیمی اور مساوی طور پر بحالی کے لیے کم از کم 50 ارب ڈالر کا فنڈ قائم کیا جائے۔‘
کنگ نے ویتنام جنگ کے حوالے سے اپنائی جانے والی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے نو آبادیاتی جنگ قرار دیا۔

سیاہ فام کی اپنے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے جدوجہد آج بھی جاری ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس وقت کے صدر جان ایف کینیڈی نے بھی براہ راست ٹی وی پر اس تقریر کو سنا۔ اگلے روز مارٹن کو وائٹ ہاؤس بلایا گیا، ہر طرف اس تقریر کا اثر محسوس ہو رہا تھا جیسے امریکی معاشرے کو کسی نے گہری نیند سے جگا دیا ہو۔
اسی جدوجہد کے نتیجے میں 1964 کا شہری حقوق کا وفاقی قانون اور 1965 میں ووٹ کے مساوی حق کا قانون منظور ہوا۔
1964 میں کنگ کو شہری حقوق کے لیے اہم کردار ادا کرنے پر امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ بیسویں صدی کی اہم شخصیات کی فہرست میں کنگ کا نام دوسرے نمبر پر ہے۔
اس قدر جاندار کردار پر جہاں ایک طرف دنیا میں ہر طرف ان کو پذیرائی مل رہی تھی وہیں کچھ لوگ حسد کی آگ میں بھی جل رہے تھے ایسے ہی ایک نسل پرست نے 4 اپریل 1968 کو اس وقت مارٹن کو گولی مار کر قتل کر دیا جب وہ اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑے تھے۔
لیکن ان کا خواب آج بھی زندہ ہے!

شیئر: