Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لیبیا کے معمر قذافی: بغاوت سے بغاوت تک

قذافی نے لیبیا کی ایک بغاوت شروع کی اوردوسری ان پرآ کر ختم ہوئی۔ فوٹو: اے ایف پی
ایک بغاوت وہ تھی جس میں خون کا ایک قطرہ نہیں بہا، دوسری وہ جس میں بے بہا بہہ گیا۔
دونوں کے نتیجے میں حکومتیں بدلیں، نظام بدلے، لوگ بدلے۔ دونوں بغاوتوں کا مرکز اور مرکزی کردار ایک ہی نام تھا، معمر قذافی، جو جدید لیبیا کی تاریخ سے جڑا ہے۔
قذافی نے لیبیا کی ایک بغاوت شروع کی اور دوسری ان پر آ کر ختم ہوئی۔ یہ یکم ستمبر 1969 کا دن تھا۔
اس روز لیبیا کے حکمران شاہ ادریس بیرون ملک تھے۔ بظاہر سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ سڑکوں، دفاتر اور گھروں میں زندگی رواں تھی۔
اچانک فوج کے 70 آفیسرز ٹینکوں سمیت بن غازی کے علاقے میں نکل آئے۔
ان کی قیادت 12 فوجی افسران پر مشمتل ایک ڈائریکٹوریٹ کر رہا تھا جسے ’ریوولوشنری کمانڈ کونسل‘ کا نام دیا گیا تھا۔ معمر قذافی اس ڈائریکٹوریٹ کے ایک رکن تھے۔
آر سی سی یعنی ’ریوولوشنری کمانڈ کونسل‘ نے ایک ایک کر کے سرکاری اداروں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا شروع کر دیا۔ کارروائی کے دوران ہی فوج کے دیگر اہلکار بھی ساتھ مل گئے، ایک کے بعد دوسرا دفتر فوج کے کنٹرول میں آتا گیا۔
صرف دو گھنٹے کی کارروائی میں لیبیا کا تمام انتظام اس ’آر سی سی‘ نے سنبھال لیا۔ حسن بن ردا، جو شاہ ادریس کے خاندان کے ایک اہم رکن تھے اور ان کے جانشین کے طور پر دیکھے جاتے تھے۔ ان کو دیگر شاہی امرا کے ہمراہ حراست میں لے لیا گیا۔

معمر قذافی ’ریوولوشنری کمانڈ کونسل‘ اس ڈائریکٹوریٹ کے ایک رکن تھے۔فوٹو: اے ایف پی

اس تمام عمل کے حوالے سے عوام کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔
اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ حسن بن ردا نے تمام شاہی اختیارات چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ وہ بغیر تشدد کے نئی حکومت کو تسلیم کر لیں۔
شہری علاقوں کے نوجوانوں نے شہنشاہیت کے خلاف بغاوت پر جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوجیوں کو باقاعدہ خوش آمدید کہا اور پھر استقبال کا یہ سلسلہ دیگر علاقوں تک پھیل گیا۔
آر سی سی نے ملک کی آزادی اور اسے خود مختار ریاست بنانے کا اعلان کرتے ہوئے لیبیا کے نئے نام ’لیبین عرب ریپبلک‘ قرار دیا اور تمام عوام کو یکساں حقوق دینے کا اعلان کر دیا۔
بظاہر تو یہ ایک دن کی کارروائی تھی لیکن اس کے پیچھے ایک طویل منصوبہ بندی تھی۔
فری آفیسرز موومنٹ
1942 میں سرت میں پیدا ہونے والے معمر قذافی بن غازی ملٹری یونیورسٹی اکیڈمی اور برطانیہ کی رائل ملٹری اکیڈمی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد لیبیا کی فوج میں کیپٹن کے عہدے پر بھرتی ہوئے۔

معمر قذافی وہ پڑوسی ملک مصر کے صدر جمال عبدالناصر کی بغاوت کو آئیڈئیلائز کرتے تھے۔ فوٹو: پن ٹریسٹ

وہ پڑوسی ملک مصر کے صدر جمال عبدالناصر کی بغاوت کو آئیڈئیلائز کرتے تھے، جس میں انہوں نے بغاوت کرتے ہوئے اقتدار حاصل کیا تھا۔
تاہم لیبیا میں بغاوت کا ماحول بنانے کے لیے قذافی کو باقاعدہ مہم چلانا پڑی۔
انہوں نے فوج کے اندر ہی ’فری آفیسرز موومنٹ‘ شروع کی۔ چونکہ ان کی شخصیت میں کرشمہ اور قیادت کی اہلیت موجود تھی اس لیے وہ جلد ہی فوج میں اپنا پیغام پھیلانے میں کامیاب ہو گئے۔
شاہ ادریس سے معاہدہ
بغاوت کے واقعات کے بعد کی تمام معلومات شاہ ادریس تک پہنچ رہی تھیں۔ حسن بن ردا کے علاوہ خاندان کے کئی دیگر افراد بھی حراست میں لیے جا چکے تھے۔ شاہ ادریس کو اپنے خاندان کے افراد کی فکر تھی۔
انہیں صورت حال کی نزاکت کا بھی اندازہ تھا، اس لیے انہوں نے پڑوسی ملک مصر کے صدر جمال عبدالناصر کی وساطت سے آر سی سی کو پیغام بھجوایا کہ مسئلے کا حل نکالنے کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔

1969 میں جس روز بغاوت ہوئی لیبیا کے حکمران شاہ ادریس بیرون ملک تھے۔ فوٹو: وکی پیڈیا

معمر قذافی کے گروپ  کی رضامندی کے بعد جمال عبدالناصر کے ذریعے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔
شاہ ادریس نے یقین دہانی کروائی کہ وہ کبھی وطن واپس نہیں آئیں گے جس کے بعد فریقین میں ایک معاہدے کے زریعے  شاہ کے خاندان کے تمام افراد کومصرجانے کی اجازت دے دی گئی۔
شاہ ادریس مصر میں مقیم ہوگئے اور 1983 میں اپنی طبعی موت مرگئے۔
نئی حکومت کا قیام
سات ستمبر 1969 کو آر سی سی نے اعلان کیا کہ وہ نئی حکومت کے قیام کے لیے کابینہ تشکیل دینے جا رہی ہے۔
امریکا سے تعلیم حاصل کرنے والے محمود سلیمان المغربی، جن کو 1967 میں سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے گرفتار کیا گیا اور وہ جیل میں تھے، انہیں وزیر اعظم نامزد کر دیا گیا۔ ان کی مدد کے لیے آٹھ رکنی کابینہ کا اعلان کیا گیا جس میں چھ سویلین اور دو فوجی اراکین شامل تھے۔
اگلے روز کابینہ کو ہدایات جاری کی گئیں کہ آر سی سی کی تجویز کردہ سفارشات پر عمل کرتے ہوئے ریاستی پالیسی بنائی جائے اور انہی میں سے ایک سفارش یہ بھی تھی کہ کیپٹن معمر قذافی کو کرنل کے عہدے پر ترقی دیتے ہوئے لیبیا کا کمانڈر انچیف بنایا جائے۔

کرنل قذافی انتہائی طاقتور شخصیت کے طور پر سامنے آئے۔ فوٹو: اے ایف پی

ایسا ہی کیا گیا اور کرنل قذافی انتہائی طاقتور شخصیت کے طور پر سامنے آگئے۔ کچھ روز بعد وہ ملک کے سربراہ بن گئے۔
قذافی 42 برس تک اس عہدے پر رہے اور اس دوران انہوں نے مختلف ادوار کے دوران مختلف نظام کار اپنائے۔
پہلے عرب دنیا کا ساتھ دیا پھر افریقی بلاک کے لیے سرگرم ہوئے، ان کا نام دہشت گردوں کے سہولت کار کے طور پر بھی لیا گیا، اقوام متحدہ نے لیبیا پر پابندیاں بھی لگائیں، ان کا الگ انداز زندگی، خواتین گارڈز، خیمہ، اونٹ وغیرہ بھی خبروں میں رہے۔
آخری بغاوت
پڑوسی ملک تیونس سے شروع ہونے والی ’عرب سپرنگ‘ کے اثرات کو لیبیا پہنچنے میں زیادہ عرصہ نہیں لگا۔
کرنل قذافی نے اسے سختی سے دبانے کی کوشش کی لیکن امریکہ اور اتحادی ممالک کی پشت پناہی سے یہ تحریک زور پکڑ گئی۔

2011 میں باغیوں نے معمر قذافی پر تشدد کیا اور پھر انہیں قتل کر دیا۔ فوٹو: اے ایف پی

اکتوبر 2011 میں کرنل قذافی اچانک غائب ہو گئے۔ بعد ازاں خبر آئی کہ ان کو باغیوں نے گرفتار کر لیا ہے۔
ایک ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں وہ خون میں لت پت باغیوں کے درمیان بے بسی کے عالم میں موجود تھے اور ان پر تشدد کیا جا رہا تھا، اسی روز، 17 اکتوبر 2011 کو ان کو قتل کر دیا گیا۔
یوں ایک بغاوت کے ذریعے منظر عام پر آنے والے کرنل قذافی دوسری بغاوت کے نتیجے میں منظر سے ہمیشہ کے لیے روپوش ہو گئے۔
 

شیئر: