Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور کے سو سال پرانے کوارٹرز

یہ ایک پرانی بستی ہے۔ اس کے مکین کہتے ہیں، یہ سو سال پرانی ہے۔
یہ اندرون شہر پشاور کے مشہور قصہ خوانی بازار کے ساتھ ہی گور کھٹری کے علاقے میں ایک تنگ سی گلی میں واقع ہے۔ 
گلی سے جیسے ہی اندر داخل ہوں، بدبو کے بھبھوکے اٹھتے ہیں۔ دیواریں ٹوٹی پھوٹی ہیں، ایک پرانا درخت کھڑا ہے، اس کو بارش نے ابھی تھوڑی دیر پہلے دھویا ہے۔ لیکن اس کا بوسیدہ تنا اور جھڑتے پتے سینے میں دفن دہائیوں کی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ 
تنگ سے گھر ہیں۔ زمانے کی ستم ظریفی نے ان گھروں کو شکستہ بنا دیا ہے۔ ان میں رہنے والی خواتین اس کے باوجود چھوٹے چھوٹے کمروں اور برآمدوں کو، جہاں صرف ایک چارپائی رکھنے کی گنجائش ہے، صاف رکھ کر خوبصورت بنانے کی اپنی سی کوشش کر رہی ہیں۔ 
کم سن بچیاں اپنے نازک نازک ہاتھوں میں جھاڑو پکڑ کر دیواروں کو رنگ رہی ہیں۔ 
ان کی مائیں، خالائیں اور چچیاں کھانا پکانے میں مصروف ہیں۔
سامنے دو نسبتاً بڑی عمر کی عورتیں بیٹھی دور کسی گہری سوچ میں گم ہیں۔ 
یہ پشاور کے نیلسن کوارٹرز ہیں جو قیام پاکستان سے بھی پہلے تعمیر ہوئے تھے۔

’یہاں کے باسی کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں، ان سب کے مسائل ایک ہیں۔‘

آج ان کوارٹرز کو کرسچیئن کالونی کہا جاتا ہے۔ یہاں مسیحی اور ہندو برادریوں کے درجہ چہارم کے سرکاری ملازم رہائش پذیرہیں۔ 
اس گلی نما کالونی میں اوپر نیچے تقریباً چھوٹے چھوٹے 35 شکستہ گھر ہیں۔
ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ایک طوفانی بارش اور زلزلے کا ہلکا سا جھٹکا پہلی ہی کوشش میں انہیں منہدم کر جائے گا۔ 
اس گلی میں ایک چرچ ہے۔ ایک مندر۔ اور ایک مزار بھی ہے۔
اور کالونی کے باہر، اس کے برلب ہی ایک مسجد اور کچھ دوسرے گھر ہیں، کالونی کے گھروں سے بہت بہتر حالت میں۔
یہ بستی نیلسن کوارٹرز، میونسپل کمیٹی کے زیر انتظام ہے۔
55 برس کے عاشق سلویسٹر نے یہاں اپنی ساری عمر بتا دی ہے۔
وہ کہتے ہیں یہاں میونسپل کمیٹی کے کوارٹرز کی تعمیرو مرمت کا خیال رکھنے والے زمہ دار برسوں سے نہیں آئے۔

ایک خاتون کے مطابق ’گھر اتنے خستہ حال ہیں کہ ہمیشہ دھڑکا ہی لگا رہتا ہے۔‘

عاشق سلویسٹر کہتے ہیں کہ ’وہ بس تنخواہوں سے کرایہ کاٹ لیتے ہیں۔ گھروں کی مرمت کا پوچھتے بھی نہیں۔‘
سرکاری عدم توجہ بستی کو روز بروز دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔
لیکن اس کے باسیوں میں پیار، محبت کا رشتہ ہے، بلا تفریق مذہب۔
عاشق سلویسٹر کہتے ہیں کہ ’یہاں بستی میں بہن بھائی کا رشتہ ہے، باہر مسلمانوں کے ساتھ  اس سے اچھا تعلق ہے، فوتگی کے وقت وہی ہماری مدد کو آتے ہیں۔  چارپائی، کولر وغیرہ دیتے ہیں، ایمرجنسی کے وقت ضرورت کی ہر چیز دیتے ہیں۔‘
لیکن حکومت کچھ دینے سے انکاری ہے۔
عاشق سلویسٹر کے مطابق ’یہاں غربت ہے، اور گیس، بجلی، پانی کی عدم فراہمی جیسے مسائل۔‘

اس کالونی میں ہندو اور مسیحی برادری رہتی ہے

عاشق سلویسٹر نے سنہ 1983 میں میٹرک کیا تھا، 1985 میں الیکٹرک سپروائزنگ کورس کا ڈپلومہ کیا، لیکن نوکری نہ ملی۔ ان کے والد خاکروب تھے، وہ ریٹائر ہوئے تو ان کی جگہ انہوں نے بالامر مجبوری خاکروب کی نوکری کر لی۔
عاشق سلویسٹر کہتے ہیں کہ ’زندگی کا لطف نہیں آ رہا۔ ہم خوش نہیں ہیں، خفا ہیں۔ خفا ہو کر یہاں بیٹھے ہیں۔ بس دن گزار رہے ہیں، انسانوں کے لیے جو ضروریات زندگی ہوتی ہیں وہ ہمارے پاس نہیں ہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود خاکروب کا کام کر رہا ہوں، کسی کو بتا بھی نہیں سکتا کہ میں سویپر ہوں۔ 25 ہزار میری تنخواہ ہے جو بچوں کی فیسوں میں چلی جاتی ہے، چاہتا ہوں کہ وہ میری جیسی نوکری نہ کریں، اعلیٰ عہدوں پر کام کریں۔‘

اس کالونی کے گھر ایک کمرے پر مشتمل ہیں

صرف عاشق سلویسٹر ہی نہیں، اس بستی کا ہر فرد اپنی بہتر زندگی کے خواب اب اپنے بچوں سے باندھے ہوئے ہے۔ 
ایک خاتون سرگوشی میں شکوہ کناں ہیں۔ ’ایسے دن بھی گرمیوں میں آتے ہیں کہ جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کچھ تو سو جاتے ہیں اور کچھ کمرے کے باہر بیٹھ کر رات گزار لیتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں ’گھر اتنے خستہ حال ہیں کہ ہمیشہ دھڑکا ہی لگا رہتا ہے۔‘
پشاور کی میونسپل کمیٹی کی ایک کارکن نرگس صبح سویرے سڑکوں کی صفائی کے لیے نکلتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’میری شادی کو 40 سال ہونے کو آئے، بچوں کی شادی بھی کر دی ہے لیکن مسائل وہی ہیں، دہائیوں پرانے۔‘
انہوں نے بتایا ’کہنے کو تو ہماری بستی شہر میں ہے، لیکن گیس کی سہولت موجود نہیں۔ ہم بھی بزرگ ہوگئے، بچے بھی جوان ہوگئے لیکن ہمارے حالات نہیں بدلے، بلدیہ والے یہ گھر ٹھیک نہیں کر رہے۔‘

شہر کے مرکز میں ہوتے ہوئے اس کالونی میں بجلی اور گیس کی بنیادی سہولت نہیں۔

اپنے چھوٹے سے آنگن میں کھانا پکاتے ہوئے 45 برس کی زینت بولیں ’ہماری حالت ٹھیک کرنے کے نام پر سیاستدان ہم سے آ کر ووٹ لے لیتے ہیں، لیکن پھر پوچھتے نہیں۔‘
گذشتہ انتخابات میں انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کی ثمر بلور کو ووٹ دیا تھا۔
زینت کا کہنا تھا ’وہ جب جیت گئیں تو ہم پیسے جمع کر کے ان کے لیے پھولوں کا ہار لے کرگئے۔ انہوں نے ہمیں ملنے تک سے انکار کر دیا۔ شاید ہم غریب ہیں، اس لیے کوئی پوچھتا ہی نہیں۔‘
تاہم ثمر بلور کا کہنا ہے کہ وہ زینت اور ان کے علاقے کے مسائل سے آگاہی کے باوجود کچھ نہیں کر سکتیں، کیونکہ ان کے پاس کام کرانے کے لیے فنڈز نہیں ہیں۔

اس گلی نما کالونی میں اوپر نیچے تقریباً چھوٹے چھوٹے 35 شکستہ گھر ہیں۔

صوبے کے وزیر بلدیات شہرام ترکئی کہتے ہیں کہ انہیں کسی نے اس بستی کے باسیوں کی مشکلات کے بارے میں بتایا ہی نہیں۔
شہرام ترکئی نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو میں کہا ’اقلیتوں کے نمائندوں نے میری توجہ اس جانب نہیں دلائی۔ اگر یہ معاملہ میری وزارت کے زیر انتظام آتا ہے تو یہ مسائل ضرور حل کیے جائیں گے، یہ میری ذمہ داری ہے۔‘
روینہ شام کی عبادت سے پہلے مندر کی صفائی کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس بستی کے باسیوں اور مسائل کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا ’یہاں کے باسی کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں، ان سب کے مسائل ایک ہیں۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں