Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پراڈا چپل چور‘، اٹلی کے مشہور فیشن برانڈ کے خلاف انڈیا کی عدالت میں مقدمہ دائر

رپورٹ کے مطابق پراڈا کے اس چپل کی قیمت ڈیڑھ لاکھ ہے (فوٹو: پراڈا)
مشہور اٹالین فیشن کمپنی ’پراڈا‘ اس وقت شدید تنقید کی زد میں ہے کیونکہ اس نے انڈیا کی مشہور روایتی کولہا پوری چپل سے متاثر ہو کر ایسی چپلیں تیار کیں ہیں جن کی قیمت ایک لاکھ بیس ہزار انڈین روپے فی جوڑی رکھی گئی ہیں۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق مگر مسئلہ صرف قیمت کا نہیں ہے بلکہ اس کا اصل معاملہ چوری شدہ فن اور ہنرمندوں کے حق کو نظر انداز کرنے کا ہے۔
کولہا پوری چپل کی تاریخ
کولہا پوری چپل کی تاریخ مہاراشٹر کے علاقے کولہا پور سے جُڑی ہوئی ہے جہاں مقامی کاریگر چمڑے کی ہاتھ سے تیار کی جانے والی یہ چپلیں بناتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اُس وقت کے بادشاہ بیجالہ اور ان کے وزیرِ اعظم بسونا نے مقامی ہنرمندوں کی مدد کے لیے اس صنعت کو فروغ دیا۔
پہلے پہل ان چپلوں کو ان کے گاؤں کے ناموں سے جانا جاتا تھا جیسے کپاشی، پایتان، کچکڑی، بکلنالی اور پکری وغیرہ۔ مگر اٹھارویں صدی کے آتے آتے یہ چپل ’کولہا پوری‘ کے نام سے مشہور ہو گئی۔
دور حاضر میں بھی یہ چپلیں اپنے منفرد انداز، سبزیوں سے تیار شدہ چمڑے، بُنائی کے ہنر اور خوبصورت کاریگری کی وجہ سے دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہیں۔ سنہ 2019 میں کولہا پوری چپل کو جغرافیائی شناخت (جی آئی) کا درجہ دیا گیا تھا جس سے اس کی پہچان کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا گیا۔

کیا کولہا پوری چپل فیشن کا نیا ٹرینڈ ہے؟

معروف کولہا پوری چپل برانڈ کی بانی اور بالی ووڈ کی پسندیدہ ڈیزائنر اپراجیتا تور کہتی ہیں کہ اسے محض ٹرینڈ کہنا اس فن کی توہین ہے۔
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Prada (@prada)

ان کا کہنا ہے کہ ’کولہا پوری کوئی عارضی فیشن نہیں بلکہ ایک صدیوں پرانا ورثہ ہے۔ یہ کبھی بھی فیشن سے باہر نہیں گیا، بس اب لوگوں کی توجہ پھر سے اس پر مرکوز ہوئی ہے۔‘
اپراجیتا تور کا ماننا ہے کہ اس ہنر میں وقت کی آزمائش برداشت کرنے کی صلاحیت ہے اور عالمی توجہ صرف اس بات کا اشارہ ہے کہ لوگ اب اصل کہانیوں اور ہنر کے پیچھے موجود پس منظر کو جاننا چاہتے ہیں۔
’ایک کولہا پوری چپل بنانے میں کاریگر صرف ہاتھ نہیں دل سے کام کرتا ہے۔‘
اپراجیتا تور کہتی ہیں کہ ’ہر جوڑی ایک داستان ہے۔ ہر سلائی، ہر کٹاؤ، ہر خم سوچ سمجھ کر اور نسلوں کے تجربے سے کیا جاتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ صرف چپل نہیں، ایک زندہ ورثہ ہے۔ ایسی کہانی جو ہر کاریگر نسل در نسل سکھاتا ہے۔‘

عالمی سطح پر پذیرائی لیکن نام اور حق کیوں چھپایا گیا؟

اپراجیتا کا کہنا ہے کہ جب بین الاقوامی فیشن برانڈز انڈین ٹیلینٹ کو اپناتے ہیں تو یہ خوشی کی بات ہے لیکن جب وہ اصل ماخذ کو تسلیم نہیں کرتے تو یہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب کولہا پوری چپل کو بغیر کسی پس منظر کے صرف ایک مہنگے فیشن آیٹم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو اصل ہنر اور کہانی چھپ جاتی ہے۔ یہ نہ صرف ہنر مندوں کی توہین ہے بلکہ پورے ثقافتی ورثے کے ساتھ ناانصافی ہے۔‘

عدالت میں مقدمہ

یہ تنازعہ اب ممبئی ہائی کورٹ میں پہنچ چکا ہے جہاں معروف وکیل گنیش ہِنگمیرے نے عوامی مفاد کے تحت درخواست دائر کی ہے۔
انہوں نے اپنی پٹیشن میں مطالبہ کیا ہے کہ پراڈا کمپنی ان کاریگروں کو مالی معاوضہ دے جن کی محنت اور ڈیزائن کو چوری کیا گیا۔
پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ’کولہا پوری چپل مہاراشٹر کی ثقافت کی علامت ہے اور اس کے ساتھ عوامی جذبات وابستہ ہیں۔ کمپنی نے دباؤ کے بعد نجی سطح پر تسلیم کیا کہ ان کی چپلیں انڈین کاریکگروں سے متاثر ہیں مگر یہ اعتراف حکومت، جی آئی رجسٹری یا عوامی سطح پر نہیں کیا گیا۔‘
گنیش ہنگمیرے نے بتایا ہے کہ ’کمپنی نے ابھی تک کوئی باضابطہ معذرت نہیں کی، نہ ہی مالی ہرجانہ یا مناسب معاوضہ ادا کیا ہے۔ صرف بیان دینا کافی نہیں۔‘

 

شیئر: