Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’لیجیے مبارک ہو، ادبی سفر شروع ہوگیا‘

اشفاق احمد کا ادب میں ورود افسانے کے ذریعے ہوا۔ پہلا افسانہ ’توبہ‘ سنہ 1944میں ’ادبی دنیا‘ میں شائع ہوا۔ تقسیم کے بعد جو نئے افسانہ نگار سامنے آئے، ان میں اشفاق احمد کو ممتاز حیثیت حاصل ہوئی۔
 انھوں نے’ گڈریا‘ جیسا لازوال افسانہ لکھا جس کے بغیر اردو افسانے کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔
عظیم فکشن نگار سعادت حسن منٹو کسی دوسرے لکھاری کو ذرا کم ہی گرادنتے تھے لیکن اشفاق احمد کی خوش قسمتی کہیے کہ ان سے بھی داد وصول کی۔
 اشفاق احمد کے عزیز دوست اور معروف مصنف اے حمید نے لکھا ہے’  منٹو صاحب نے بھی اشفاق احمد کا افسانہ ” گڈریا “ پڑھ لیا تھا اور اس سے بڑے متاثر تھے۔منٹو صاحب لکشمی مینشن کے فلیٹ میں رہتے تھے۔ ایک بار میں اور اشفاق احمد ان سے ملنے گئے تو منٹو صاحب نے اشفاق کے افسانے کی تعریف کی۔اشفاق جھینپ گیا۔ چہرہ سرخ ہوگیا اور بولا۔’’ وہ تو منٹو صاحب ....“
منٹو صاحب نے عقابی آنکھوں سے اشفاق احمد کی طرف دیکھ کر کہا:’’بس کیا۔ اچھا افسانہ لکھا ہے تم نے ....“
پھر منٹو صاحب نے میری طرف دیکھا اور کہا۔ ’’تم بکواسی ہو۔ کھمبے کو دیکھ کر رومانٹک ہوجاتے ہو۔‘‘

لارنس باغ لاہور میں سعادت حسن منٹو، اشفاق احمد اور اے حمید کی تصویر ’نقوش‘ نے شائع کی۔

سعادت حسن منٹو اور محمد حسن عسکری نے ” اردو ادب “ کے نام سے جو رسالہ نکالا، اس کے دو ہی پرچے شائع ہوئے۔ پہلے شمارے میں اشفاق احمد کا افسانہ ” بابا“ اور دوسرے میں ” سنگ دل “ شامل تھا۔
ممتاز ادیب محمد خالد اختر ” گڈریا “کو لافانی کہانی قرار دیتے ہیں۔ وہ تو وہ ان کے والد کو بھی یہ افسانہ بہت پسند تھا ۔اس کے کئی فقرے انھیں زبانی یاد تھے۔وہ بیٹے کے شوقِ مطالعہ سے واقف اور جانتے تھے کہ اسے لکھنے کی للک ہے،ایک دن انھوں نے فرزندِ ارجمند سے کہا: گڈریا جیسی کہانی لکھ سکوتو پھر کوئی بات بنے گی۔
 ” گڈریا “ کے بعد ” نقوش “ میں شائع ہونے والے ناولٹ ” مہمان بہار“ کا بھی چرچا ہوا۔
 سنہ1951میں افسانوں کا پہلا مجموعہ ” ایک محبت سو افسانے “ شائع ہوا۔ چند سال بعد ” اجلے پھول “ سامنے آئی۔ان کتابوں کی اشاعت سے اشفاق احمد کی ادبی حیثیت مستحکم ہوئی۔ اس وقت یوں لگ رہا تھا کہ وہ اردو فکشن کو اپنی تحریروں سے بہت آگے لے کر جائیں گے لیکن پھر انھیں ادب کی جولان گاہ تنگ لگی اور انھوں نے دوسری سرزمینوں کا رخ کرلیا۔
ریڈیو پران کے جوہر خوب چمکے۔بہت سے ڈرامے اور فیچر لکھے۔ ” تلقین شاہ “ انھیں شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔ چالیس سال یہ ڈرامہ چلا۔اشفاق احمد نے سکرپٹ لکھنے پر ہی اکتفا نہ کیا، تلقین شاہ بھی خود بنے۔ مخصوص لہجے میں ان کی صداکاری سننے والوں کو بہت پسند آئی۔

ریڈیو پروگرام  ” تلقین شاہ “ اشفاق احمد کو شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔ فوٹو: ریڈیو پاکستان

ریڈیو کی اقلیم اپنے نام کرنے کے بعد اشفاق احمد نے ٹی وی کا قلعہ بھی فتح کرلیا۔ان کے قلم سے نکلے ڈراموں کو ناظرین نے پسند کیا۔ ٹی وی کا میڈیم انھیں آخری زمانے تک راس آیا۔ ان کا پروگرام ” زاویہ “ معاشرے کے مختلف طبقات میں نہایت شوق سے دیکھا جاتا۔اس سلسلے کے پروگراموں میں ان کی گفتگو، کتابی صورت میں سامنے آئی تو اسے بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
اشفاق احمد باکمال نثر نگار تو تھے ہی، تقریر کرنا بھی خوب جانتے۔ بات سے بات نکالنے میں ان کا ثانی نہ تھا۔ممتاز ادیب انتظار حسین نے لکھا ہے کہ اشفاق احمد کا زمانہ آنے تک داستان گوئی کی روایت دم توڑ گئی وگرنہ داستان گو کے طور پر وہ خوب نام کماتے۔
میڈیاسے وابستگی نے ادب سے ان کا رشتہ کمزور کیا، جس کی وجہ سے ممتاز مفتی اور اے حمید ان سے شاکی رہے، وہ سمجھتے تھے کہ اشفاق احمد کا ٹیلنٹ ادب کے میدان میں بروئے کار آنا چاہیے لیکن شہرت کی چاٹ ایک دفعہ لگ جائے تو اس سے پیچھا چھڑانا بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔خیر،ایسا بھی نہیں تھا کہ میڈیا کی کان میں جاکر ،وہ ادب کے خیال سے یکسر غافل ہو گئے ہوں، ان کا تخلیقی سفر سست روی سے سہی لیکن جاری وساری رہا۔

پی ٹی وی پر اشفاق احمد کا پروگرام ’زاویہ‘ معاشرے کے مختلف طبقات میں نہایت شوق سے دیکھا جاتا تھا۔ فوٹو: سکرین گریب

 ’سفر مینا‘ کے عنوان سے ان کی جو کتاب شائع ہوئی، اس میں افسانے بھی تھے، سفرنامے بھی اور ناولٹ ” مہمان بہار“ بھی۔ اس کتاب میں ماﺅزے تنگ سے ملاقات کا دلچسپ احوال بھی شامل ہے۔ یہ کتاب مصنف نے اپنے بیٹوں، انیق ، انیس اور اثیر کے نام کی۔
سفر در سفر“ کے عنوان سے سفر نامہ شائع ہوا تو اسے چالو سفر ناموں سے مختلف ہونے کی بنا پر سراہا گیا۔”پھلکاری“’صبحانے فسانے“ اور ” طلسم ہوش افزا “ افسانوں کے مجموعے ہیں۔ ” کھیل تماشا“ اکلوتا ناول ہے۔ اردو اور پنجابی ڈرامے کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے۔ 
 ”کھٹیا وٹیا“ پنجابی شاعری کی کتاب ہے جس میں شامل کئی نظموں کو اشفاق احمد کے دوست اور ممتاز مصور آزر زوبی نے السٹریٹ کیا۔
اشفاق احمد نے ارنسٹ ہمینگوئے کے ناول ’ اے فیر ویل ٹو آرمز ‘ کا ’وداع جنگ‘ اور ریٹا رچی کی کتاب ’ دی گولڈن ہاکس آف چنگیز خان‘ کا ” چنگیز خان کے سنہرے شاہین“کے عنوان سے ترجمہ کیا۔
 ”اردو کے خوابیدہ الفاظ “کے نام سے چھوٹی سے ڈکشنری مرتب کی۔ اسے مرکزی اردو بورڈ نے شائع کیا، یہی ادارہ بعد میں اردو سائنس بورڈ کہلایا ۔ اشفاق احمد 23برس اس ادارے کے سربراہ رہے۔ 

اشفاق احمد، بانو قدسیہ، قدرت اللہ شہاب اور ابن انشا ادب کی دنیا میں بڑے نام ہیں۔ فوٹو: دی نیشن

سنہ 1959 میں اشفاق احمد نے ” داستان گو “ کے نام سے ادبی رسالہ نکالا ،جس نے مواد اور حسن طباعت کے باعث قارئین کی توجہ بہت جلد حاصل کرلی۔افسوس یہ معیاری پرچہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا۔
اشفاق احمد نے ” دھوپ اور سائے “ کے نام سے فیچر فلم بھی بنائی جو بری طرح ناکام ہوئی۔
 تصوف سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔ سائیں فضل شاہ صاحب کو مرشد مانتے ۔تصوف کی کتابوں میں ”تذکرہ غوثیہ“ انھیں بہت پسند تھی۔
غیر ملکی ادیبوں میں دستو فیسکی فیورٹ رائٹر تھے۔ اردو فکشن نگاروں میں راجندر سنگھ بیدی پسند تھے۔
 اشفاق احمد کی اہلیہ بانو قدسیہ اردو کی معروف ادیبہ ہیں۔ ایک کامیاب اور بھرپور زندگی گزارنے کے بعد، کینسر کے مرض میں مبتلا اشفاق احمد 7ستمبر2004 کولاہور میں انتقال کرگئے۔
اشفاق احمد ،بانو قدسیہ اور گورنمنٹ کالج
 اشفاق احمد اور بانو قدسیہ نے کامیاب ازدواجی زندگی گزاری۔ دونوں گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے اردو میں کلاس فیلو تھے۔ بانو قدسیہ نے اپنی کتاب ” راہ ِرواں “میں کلاس کے پہلے دن کے احوال میں لکھا ہے: ’’ابھی کاپیاں کتابیں رکھ کر سیٹل ہوہی رہی تھی کہ ایک خوبصورت، گورا چٹا اطالوی شکل کا نوجوان اندر داخل ہوا۔ اس نے لٹھے کی شلوار، نیلی لکیروں والا سفید کرتا اور پشاوری چپل پہن رکھی تھی۔ وہ بڑی ملائمت کے ساتھ آگے بڑھا اور مردانہ قطار میں مولوی طوطا کے ساتھ بیٹھ گیا۔ چند لمحے خاموشی رہی ۔ پھر نوجوان نے اپنا تعارف کرانے کے انداز میں کہا....” خواتین و حضرات ! میرا نام اشفاق احمد ہے ۔میں مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور سے آیا ہوں۔ہمارے قصباتی شہر کا نام مکتسر ہے۔ میرے والد وہاں ڈنگر ڈاکٹر تھے۔ پھر رفتہ رفتہ حیوان ناطق کا علاج بھی کرنے لگے۔ ہم آٹھ بہن بھائی ہیں اوراس وقت میں موج دریا کے بالمقابل1 -مزنگ روڈ میں رہتا ہوں۔ میرے پاس ایک سائیکل ہے جس پر میں اس وقت آیا ہوں....“

اشفاق احمد نے اپنے والد کی مخالفت کے باوجود ،دسمبر 1956 میں بانو قدسیہ سے شادی کرلی۔ فوٹو: فیس بک

بانو قدسیہ نے کنیئرڈ کالج سے بی اے کیا تھا، ان کی اردو بہت کمزور تھی، رفتہ رفتہ اس زبان میں انھوں نے اپنی استعداد بہتر بنائی اور لکھنے کے مرحلے تک آن پہنچیں۔اشفاق احمد کتابوں کے رسیا تھے، انھوں نے بانو قدسیہ کو بھی مطالعے کے لیے بہت سی کتابیں دیں۔ ان کی کہانیاں پڑھنے کے واسطے حاصل کیں۔ بانو قدسیہ کا پہلا افسانہ ”واماندگی شوق “ ادب لطیف میں چھپا تو رسالہ گھر دینے آئے اور کہا: ’’لیجیے مبارک ہو۔ ادبی سفر شروع ہوگیا۔
 رسالے کے اوپر لکھا تھا:” کاش میں بھی ایسا ایک افسانہ لکھ سکتا۔
 مصنفہ نے افسانے پر اپنا نام قدسیہ چٹھہ لکھا تھا جسے اشفاق احمد نے بانو قدسیہ میں بدل دیا اور پھر ادب میں اسی نام سے ان کی پہچان ہوئی۔
 ایم اے کے بعد اشفاق احمد نے کچھ عرصہ گورنمنٹ دیال سنگھ کالج میں پڑھایا، جس کے بعد اٹلی چلے گئے۔روم یونیورسٹی میں اردو کی تدریس سے متعلق ہوگئے۔اطالوی زبان میں ڈپلومہ بھی حاصل کیا۔ اٹلی سے واپس آنے کے بعد  انھوں نے  اپنے والد کی مخالفت کے باوجود ،دسمبر 1956 میں بانو قدسیہ سے شادی کرلی۔

گورنمنٹ کالج لاہور جہاں سے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی محبت پروان چڑھی۔ فوٹو: اے ایف پی

گورنمنٹ کالج جہاں دونوں کی محبت پروان چڑھی ، اس سے اپنے تعلق کی کہانی اشفاق احمد نے ” چاند کا سفر“ میں یوں بیان کی ہے: ’ہم دونوں کا گورنمنٹ کالج سے بندھن ایک بہت ہی کمزور اور کچے دھاگے سے بندھا ہے۔ ایک گم نام اور بے نام پگڈنڈی ہے جو خود رو جھاڑیوں اور کھنگریلے رستوں سے الجھ الجھ کر بڑی مشکل سے من مندر تک پہنچتی ہے اور پھر وہاں سے تب تک اٹھنے کو جی نہیں چاہتا جب تک کہ کوئی وہاں سے اٹھا نہ دے! نکال نہ دے!!
بانو قدسیہ اور میں نے گورنمنٹ کالج کو کبھی ایک درس گاہ نہیں سمجھا۔ نہ کبھی ہم اس کی علمی روایت سے متاثر ہوئے اور نہ کبھی اس کے استادوں کے تبحر علمی سے مرعوب ہوئے۔اس کی قدامت ، اس کی عمارت اور اس کی شخصی وجاہت بھی ہمیں کبھی مسحور نہیں کرسکی۔اس سے کچھ لیا نہیں، مانگا نہیں،دیا نہیں، دلوایا نہیں۔ پھر بھی اس کے ساتھ ایک عجیب سا تعلق قائم ہے جسے ہم آج تک کوئی نام نہیں دے سکے۔ دراصل ہم دونوں گورنمنٹ کالج کو درس گاہ نہیں مانتے....اس میں ” سین “ کے حرف کو وافر سمجھتے ہیں!

شیئر: