Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں سخت قواعد کا نفاذ، شکار کے کاروبار سے جُڑے افراد مشکل میں

حکومت نے پرندوں کی معدومیت کے خطرے کے پیش نظر قوانین کو سخت کیا۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں شکار سے متعلق حکومت نے سخت قوانین اور ایس او پیز نافذ کر رکھے ہیں۔ بڑے جانوروں کے شکار پر تو پہلے ہی مکمل پابندی ہے، اسی طرح بعض نایاب پرندوں مثلاً فالکن وغیرہ کے شکار کی بھی اجازت نہیں۔ تاہم تیتر، مرغابی اور بٹیر کے شکار کے لیے پنجاب بھر میں نئے اور سخت قواعد و ضوابط لاگو کیے گئے ہیں۔
حکومتِ پنجاب نے صوبے میں عام طور پر شکار کیے جانے والے پرندے، جیسے تیتر، بٹیر اور مرغابی وغیرہ کے جال کے ذریعے شکار پر پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ گن فائر کے ذریعے براہِ راست شکار کی اجازت برقرار رکھی ہے۔
اس سلسلے میں وائلڈ لائف پنجاب کی جانب سے ایسے شکاریوں اور ان کی مدد کرنے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے۔
قوانین کی خلاف ورزی کرنے یا کسی ممنوعہ پرندے یا جانور کا شکار کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا رہی ہیں۔
وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ جال کے ذریعے شکار پر پابندی کا مقصد یہ ہے کہ اس طریقے سے شکاری ایک ہی وقت میں پرندوں کی بڑی تعداد پکڑ لیتے ہیں اور اسے تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، لہٰذا اس رجحان کو روکنے کے لیے یہ پابندی عائد کی گئی۔
دوسری جانب شکار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے نیٹ یا جال کے ذریعے شکار پر پابندی نے ان پرندوں کا شکار تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔’اس فیصلے سے وہ عام لوگ بھی متاثر ہو رہے ہیں جن کے لیے یہ شکار آمدنی کا ذریعہ تھا۔ اسی لیے ان کا مطالبہ ہے کہ جال کے ذریعے شکار کو مکمل طور پر ممنوع کرنے کے بجائے مخصوص مدت یا سیزن میں اس کی اجازت دی جائے۔‘
اردو نیوز نے اس معاملے پر وائلڈ لائف حکام سے رابطہ کیا۔ راولپنڈی ریجن کی اسسٹنٹ چیف وائلڈ لائف رضوانہ عزیز  نے اردو نیوز سے گفتگو میں واضح کیا کہ پنجاب حکومت نے صرف اُن پرندوں اور جانوروں کے شکار پر پابندی لگائی ہے جن کی نسل کو معدومیت کا خطرہ ہو، دیگر کے شکار پر پابندی نہیں۔

پاکستانی شکاری زیادہ تر مرغابی، تیتر اور بٹیر کا شکار کرتے ہیں۔ فائل فوٹو: وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ

تاہم اُن کا کہنا ہے کہ شکار کے حوالے سے طریقۂ کار اور ایس او پیز کو تبدیل کیا گیا ہے۔ جیسا کہ تیتر، بٹیر اور مرغابی کا شکار پرمٹ لینے سے مشروط ہے، یعنی اس کے لیے مقررہ وقت اور مقررہ دنوں میں پرمٹ کے ساتھ شکار کی اجازت دی جاتی ہے، لیکن یہ شکار جال کے ذریعے نہیں بلکہ 12 بور گن کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس سے قبل پنجاب بھر میں مذکورہ پرندوں کا شکار لوگ جال لگا کر کرتے تھے، جس سے شکاریوں اور اس شکار سے منسلک افراد کو مالی فائدہ ہوتا تھا، کیونکہ یہ ان کے روزگار کا ذریعہ تھا۔
اس سوال کے جواب میں وائلڈ لائف پنجاب کا کہنا ہے کہ تیتر کا شکار پہلے بھی گن کے ذریعے ہوتا تھا، تاہم بٹیر اور مرغابی کے شکار کے لیے نیٹنگ یعنی جال لگانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
وجوہات بیان کرتے ہوئے رضوانہ عزیز کا کہنا تھا کہ جال کے ذریعے کاروبار میں ایسے افراد ملوث تھے جو بڑے پیمانے پر پرندوں کا شکار کر کے خرید و فروخت کرتے تھے اس لیے پابندی لگائی گئی۔
اُنہوں نے بتایا کہ پنجاب بھر میں بٹیر کا شکار 15 اگست سے 15 اپریل تک پرمٹ کے تحت ہوتا ہے، لیکن یہ شکار بھی صرف ہفتہ اور اتوار کو کرنے کی اجازت ہے۔ حکومت اور محکمہ شکاریوں کو فیس کی ادائیگی کے بعد مخصوص وقت کے لیے پرمٹ جاری کرتا ہے۔
اسی طرح مرغابی کا شکار بھی یکم اکتوبر سے شروع ہوگا اور یہ بھی ون ڈے پرمٹ کے تحت گن کے ذریعے کیا جا سکے گا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس شکار کے ایک سیزن میں پانچ پرمٹ وائلڈ لائف جاری کرتی ہے۔
تیتر کے شکار کے حوالے سے وائلڈ لائف پنجاب کا کہنا ہے کہ اس کا شکار بھی مخصوص سیزن میں ہوتا ہے، جو عموماً یکم دسمبر سے شروع ہو کر تقریباً 15 فروری تک جاری رہتا ہے۔ اس کا پرمٹ ایک دن کے لیے جاری کیا جاتا ہے اور سیزن میں تین پرمٹ دیے جاتے ہیں۔

پنجاب میں جال کے ذریعے شکار پر مکمل پابندی عائد ہے۔ فائل فوٹو

اردو نیوز نے اس معاملے پر شکار کمیونٹی کے ممبر ڈاکٹر فیصل درانی سے رابطہ کیا، جو پیشے کے اعتبار سے پروفیسر اور قانونی شکار کا شوق رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں عام شکاری کمیونٹی زیادہ تر تین پرندوں کا شکار کرتی ہے، جن میں مرغابی، تیتر اور بٹیر شامل ہیں۔ پہلے مرغابی اور تیتر کے شکار کے لیے سالانہ لائسنس بنتا تھا، جس کی بنیاد پر مخصوص سیزن میں چار پانچ بار شکار کیا جا سکتا تھا۔
لیکن اب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے سالانہ لائسنس ختم کر دیا ہے اور اس کی فیس بھی بڑھا دی ہے۔ اب مرغابی کے پانچ اور تیتر کے تین پرمٹ دیے جاتے ہیں، اور ایک شکاری کو یہ پرمٹ لینے کے بعد ہی شکار کی اجازت ہوتی ہے۔
اسی طرح تیسرا شکار یعنی بٹیر جو مرغابی کے ساتھ سائبیریا سے آتا ہے اور پنجاب کے دریائی علاقوں سے گزرتا ہے، اس کے شکار کے لیے بھی پہلے اسی قسم کے اصول تھے، لیکن اب اس پر مزید سختی کرتے ہوئے جال کے ذریعے شکار پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے اور صرف گن کے ذریعے شکار کی اجازت دی گئی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ بٹیر اور تیتر کے شکار کے لیے شکاری ایک پوائنٹر ڈاگ بھی استعمال کرتے ہیں، جو شکار کی نشاندہی کرتا ہے۔ پنجاب کے مختلف علاقوں میں غریب لوگ جال لگا کر اور مخصوص الیکٹرانک آوازوں کے ذریعے پرندوں کو اپنی طرف متوجہ کر کے شکار کرتے تھے۔ اب جال لگانے اور اس قسم کے آلات کے استعمال پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے، جس سے شکار کے امکانات کم ہو گئے ہیں اور اس شعبے سے جڑے عام لوگوں کی روزی روٹی متاثر ہوئی ہے۔

سخت قواعد کے باعث شکار سے وابستہ دیہاڑی دار لوگوں کا کام متاثر ہوا ہے۔ فائل فوٹو: وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ

ڈاکٹر فیصل درانی نے مطالبہ کیا کہ حکومت کم از کم لائسنس اور پرمٹ رکھنے والے شکاریوں کو مخصوص وقت کے لیے جال لگانے کی اجازت دے تاکہ شکار کا شوق بھی پورا ہو اور اس کاروبار سے جڑے لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں۔
اس حوالے سے اردو نیوز نے پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے ریٹائرڈ اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد اکرم سے بھی بات کی، جو مختلف اضلاع میں ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں۔
محمد اکرم نے تصدیق کی کہ ماضی میں جال کے ذریعے پرندوں کا شکار ہوتا تھا، لیکن حکومت نے پرندوں کی معدومیت اور غلط استعمال کو دیکھتے ہوئے صرف گن کے ذریعے شکار کی اجازت دی اور قوانین کو سخت کیا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ایک دو سال قبل پنجاب وائلڈ لائف کے پاس گاڑیوں اور دیگر آلات کی کمی تھی، لیکن حالیہ عرصے میں وائلڈ لائف رینجرز کے نام سے نئی فورس بنا کر انہیں جدید گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں دی گئی ہیں، ملازمین کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے اور ہر تحصیل میں تعیناتی بڑھائی گئی ہے تاکہ ہر جگہ غیرقانونی شکار روکا جا سکے اور جال کے ذریعے شکار کرنے والوں کو پکڑا جا سکے۔
محمد اکرم نے تصدیق کی کہ جال کے ذریعے شکار کی پابندی سے پنجاب کے مختلف اضلاع میں رہنے والے دیہاڑی دار لوگوں کی روزی روٹی متاثر ہوئی ہے، جو بٹیر کو جال کے ذریعے پکڑ کر بیچتے تھے یا پوائنٹر ڈاگ اور خاص آلات کے ذریعے شکار کرتے تھے۔

شیئر: