Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ قتل جو معمہ بن کر رہ گیا

پاکستان کی تاریخ میں لیاقت علی خان کا قتل ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا
پاکستان کی تاریخ میں تقریبا نصف درجن ہائی پروفائل قتل معمہ بنے ہوئے ہیں۔ ان میں دو وزرائے اعظم لیاقت علی خان اور بینظیر بھٹو کے علاوہ مرتضیٰ بھٹو کے نام زیادہ نمایاں ہیں۔ ویسے تو جنرل ضیاء الحق کی موت کا واقعہ بھی معمہ ہی ہے، ان کے جہاز کے حادثے کی تحقیقات شائع نہیں ہوسکیں۔  
16 اکتوبر1951 کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو کمپنی باغ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے قتل کردیا گیا۔ بعد میں یہ باغ ان کے نام سے موسوم ہوا، جہاں بینظیر بھٹو کو بھی قتل کیا گیا۔
لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر کو ڈیوٹی پرموجود ایک پولیس سب انسپکٹر محمد شاہ نے موقع پر ہی گولیاں برسا کر ہلاک کردیا۔ یوں اہم شواہد مٹا دیئے گئے۔ بینظیر بھٹو قتل میں بھی یہی طریقہ کار اپنایا گیا کہ زمینی شواہد دھو دیئے گئے۔
اہم گواہ سب انسپکٹرپولیس محمد شاہ  نے اعتراف کیا کہ اس نے ریوالور نکالا اور لیاقت علی کے قاتل سید اکبر پر پانچ گولیاں چلا کراس کی ہلاکت کو یقنینی بنایا۔ یعنی یہ بھی انتظامات کیے گئے کہ واردات کے بعد قاتل کو بھی قتل کردیا جائے، تاکہ سازش بے نقاب نہ ہو۔

لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر کو ڈیوٹی پرموجود ایک پولیس سب انسپکٹر نے موقع پر ہی گولیاں برسا کر ہلاک کردیا تھا۔ فوٹو: وائٹ سٹار

اہم سرکاری عہدیدارن مشتاق احمد گورمانی اور ملک غلام محمد واقعہ والے روز غیر حاضر تھے۔ نہ ہوائی اڈے پر آئے اور نہ ہی جلسہ گاہ میں۔
سید اکبر پاکستانی شہری نہیں بلکہ افغان بھگوڑا تھا۔ اور برطانوی حکومت کا پینشن بردار تھا۔
سید اکبر نے لیاقت علی خان کو کیوں قتل کیا؟ کیا مقاصد تھے؟ بعض ماہرین واقعہ کو سیاسی اور بیوروکریسی کی اقتدار کے لیے لڑائی قرار دیتے ہیں۔
جنرل ایوب خان اپنی سوانح عمری' فرینڈز ناٹ ماسٹرز' میں اندرونی سیاسی چپقلش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں 'جب میں واپس وطن لوٹا اورنئی کابینہ کے وزرا خاص طور پر وزیراعظم  خواجہ ناظم الدین، چوہدری محمد علی، مشتاق گورمانی خواہ سے ملاقات کی، ان میں سے کسی نے بھی لیاقت علی کا نام تک نہیں لیا۔ انہیں وزیراعظم کے قتل کا کوئی دکھ نہیں تھا۔'
قتل کی گتھی دو کمیشن، پولیس کی تفیتیشی ٹیم نہ سلجھا سکی، تو 13 اکتوبر 1954 کو اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سراغ رساں سی ڈبلیو یورین کی خدمات حاصل کی گئیں۔
تحقیقات کا عمل اور مراحل نہایت حیران کن رہے۔
جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن کی کل 38 نشستیں ہوئیں۔ کل 89 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں۔ تاہم کمیشن وجہ قتل کا تعین نہیں کر سکا۔
بیانات اور شواہد کے معائنے کے بعد تحقیقاتی کمیشن نے تین امکانی سازشوں کی نشاندہی کی۔ ان میں سے دو سازشیں قومی مفاد کے برعکس قرار دے کر شایع نہیں کی گئیں۔
صرف سید اکبر کی ذات کے حوالے تیسری وجہ کوعام کیا گیا۔ کمیشن نے تین سوالات اٹھائے: اس کا دماغی توازن درست نہیں تھا؟ وزیراعظم کی کشمیر پالیسی کے خلاف تھا، یا مذہبی تعصب کی وجہ سےانتہا پسند تھا۔
حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ یہ اس کا انفرادی عمل نہیں تھا۔ بلکہ ایک سازش تھی جس کا مقصد حکومتی تبدیلی تھا۔

 کمیشن کی رپورٹ شائع کرتے وقت یہ بتایا گیا کہ 89 صفحات کی رپورٹ کے 37 پیراگراف شائع نہیں کیے جارہے ہیں۔

  کمیشن کی رپورٹ شائع کرتے وقت یہ بتایا گیا کہ 89 صفحات کی رپورٹ کے 37 پیراگراف شائع نہیں کیے جارہے ہیں۔
تقریباً 15 سال پہلے امریکی حکومت نے بعض ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ کیے ہیں۔ جس کے پیش نظر کہا جانے لگا کہ لیاقت علی کا قتل تیل، ایران اور فضائی اڈوں کی وجہ سے ہوا۔
دہلی میں امریکی سفارتخانہ سے 30 اکتوبر1951 کو ایک ٹیلیگرام بھیجا گیا ’کیا لیاقت علی خان کا قتل گہری امریکی سازش تھی؟‘
بھوپال کےایک اردو اخبار 'روزنامہ ندیم ' نے 24 اکتوبر1951 کو ایک مضمون شائع کیا جس میں لیاقت علی کے قتل کی ذمہ داری امریکہ پر ڈالی گئی ہے۔ اس مضمون کے مطابق یہ نہ کوئی مقامی واقعہ تھا اور نہ ہی اس کا پختونستان  تحریک سے تعلق تھا۔ اس کے پیچھے گہری سازش تھی اور ایسے ہاتھ جن کو پہچانا جاسکتا ہے۔
 اخبارکے مطابق قتل کا منصوبہ نہ کراچی میں اور نہ ہی کابل میں تیار کیا گیا تھا۔
ڈی کلاسیفائیڈ کاغذات کے حوالے سے کہا گیا کہ امریکی سفیر نے قتل کے واقعہ کے تین یا ساڑھے تین منٹ بعد بیگم رعنا لیاقت علی خان کو فون کر کے تعزیت کی۔ یہ تعزیت انہوں نے گورنر جنرل ناظم الدین سے بھی پہلے کی۔ جب کہ گورنر جنرل پہلا شخص ہونا چاہیے جس کو واقعہ کی اطلاع ہوتی۔ اخبار نے سوال کیا کہ کس طرح سے امریکی سفیر کو پہلے پتہ چلا؟  
آرٹیکل کے مطابق امریکہ اور برطانیہ کی پاکستان حکومت کے ساتھ ناچاقی چل رہی تھی۔ لیاقت علی خان امریکی لائن پر چلنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس لیے امریکی انہیں ہٹانا چاہتے تھے۔ جبکہ برطانیہ ایران کے معاملے پر حمایت کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈال رہا تھا۔ امریکہ مطالبہ کر رہا تھا کہ پاکستان ایران پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرے  کہ ایران تیل کے کنویں اس کے حوالے کرے۔ امریکہ کے لیے تیل کئی برسوں سے اہم معاملہ رہا ہے۔ خاص طور پر جب ڈاکٹر محمد مصدق ایران میں اقتدار میں تھے۔

افغانستان حکومت کے مطابق قتل کا منصوبہ نہ کراچی میں اور نہ ہی کابل میں تیار کیا گیا تھا۔

آرٹیکل کے مطابق لیاقت علی خان نے یہ فرمائش ماننے سے انکار کردیا۔ امریکہ نے اسے امریکہ اور پاکستان کے درمیان خفیہ کشمیر معاہدے کو ختم کرنے کی دھمکی دی۔ لیاقت علی نے کہا کہ پاکستان نے امریکی حمایت کے بغیرآدھا کشمیر پاکستان میں شامل کر لیا ہے، اور باقی آدھا بھی حاصل کر لے گا۔  صرف اتنا ہی نہیں وزیراعظم لیاقت علی نے پاکستان میں قائم امریکی اڈے خالی کرنے کو کہا۔ لیاقت علی خان کا یہ مطالبہ واشنگٹن پر بم کی طرح گرا۔ پاکستان میں موجود اپنے اڈوں کے ذریعے سوویت یونین کو فتح کرنے کے امریکہ کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ لہٰذا لیاقت علی خان کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا۔   
اخبار میں سنگین الزامات کے باوجود اس کی واضح الفاظ میں تردید نہیں کی گئی۔
یکم نومبر1951 کو سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اپنے دہلی کے سفارتخانہ کو ٹیلیگرام بھیجا: چونکہ آرٹیکل بڑے پیمانے پر شایع نہیں ہوا ہے لہذا اس کی باضابطہ تردید کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ خفیہ طور پر اخبار کی انتظامیہ سے پوچھ گچھ کی جاسکتی ہے۔ سفارتخانہ چاہے توغیرر سمی طور پر معاملہ بھارتی وزارت خارجہ کے پاس اٹھائے۔   
2006 میں جب امریکہ نے اپنا ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ کیا تو ایک بار پھرمیڈیا میں اس واقعہ کی بازگشت سنائی دی۔ بعض عالمی اخبارات کے علاوہ پاکستان میں بھی یہ رپورٹ شائع ہوئی۔
تب یہ وضاحت کی گئی کہ سفارتخانے متعلقہ ممالک کے اخبارات کی خبریں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو بھیجتے رہتے ہیں۔ روزنامہ ندیم کی خبر بھی اس طرح  سفارتخانے کے ڈسپیچ کا حصہ بنی ہوگی۔
قتل کی تحقیقاتی کمیشن کی مکمل رپورٹ یہ کہہ کر شائع نہیں کی گئی تھی کہ اس میں بعض ممالک اور لوگوں کے نام ہیں۔ مکمل رپورٹ کی اشاعت نہ کرنے کی وجہ سے کئی سازشی تھیوریز پیش ہوتی رہیں۔ لہٰذا امریکہ کے ملوث ہونے کے الزام میں لوگ وزن محسوس کرتے رہے۔
سازشی تھیوری اپنی جگہ پر لیکن واقعات بتاتے ہیں کہ تحقیقات شفاف طریقے سے نہیں ہو پائیں۔ کبھی پنجاب حکومت کا معاملہ قرار دیا جاتا رہا تو کبھی مرکزی حکومت کی ذمہ داری۔

کیا دیگر ہائی پروفائل قتل کے واقعات کی طرح لیاقت علی خان کا قتل بھی ایک معمہ رہے گا؟ فوٹو: وائٹ سٹار

پاکستان پولیس کے انسپیکٹر جنرل نوابزادہ اعتزازالدین قتل کیس کی تحقیقات کی اہم دستاویزات کے ساتھ وزیراعظم ناظم الدین سے ملنے جارہے تھے۔ ان کے طیارے کو کھیوڑہ کے مقام پر حادثہ پیش آیا، حادثے میں وہ ہلاک ہو گئے اور تحقیقات کی اہم دستاویزات بھی ضائع ہو گئیں۔
لیاقت علی خان کے قتل کے بعد کشمیر امور کے وزیر مشتاق گورمانی تنقید کی زد میں رہے۔ بعد میں جو کابینہ بنی اس میں وزیرداخلہ تھے۔ انہوں نے سکاٹ لینڈ یارڈ کی مدد طلب کی، لیکن یہ کوشش دراصل معاملے پر مٹی ڈالنے کے طرح تھی۔
ایک حیران کن واقعہ اس وقت سامنے آیا جب گورمانی کے خلاف توہین عدالت کے کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے لیاقت علی خان قتل کیس کی تحقیقات کی فائل طلب کی۔ عدالت نے مختلف اعلیٰ سرکاری افسران کو طلب کیا لیکن یہ فائل نہیں مل سکی ایک ماہ بعد عدالت کو بتایا گیا کہ یہ فائل گم ہو گئی ہے۔
اب کوئی فائل بھی نہیں رہی۔ لوگ بھی مر کھپ گئے۔ دیگرہائی پروفائل قتل کے واقعات کی طرح لیاقت علی خان کا قتل بھی ایک معمہ رہے گا۔ اور اس کے بارے میں سازشیں تلاش کی جاتی رہیں گی۔

شیئر: