Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب ایک سیاسی قیدی سندھ کے کچے کے ڈاکوؤں کو ملا

ماضی قریب میں خطرناک ترین سمجھے جانے والے ڈاکو نذرو ناریجو: تصویر: بشکریہ ڈان
یہ 1982 کی بات ہے۔ میں مشہور جام ساقی کیس میں بطور ملزم  کراچی جیل  کے بند وارڈ میں پہنچا جو خطرناک  قیدیوں کے لیے مختص ہوتا ہے۔
اس وارڈ میں سیاسی قیدیوں کو پا کر وہاں بند  خطرناک ڈاکوؤں کو تعجب ہوا۔ جب انہیں ہمارے کیس کے پس منظر کے بارے میں پتہ چلا تو وہ ہماری بہت ہی عزت کیا کرتے تھے۔ یہ ڈاکوؤں سے ملنے کا پہلا موقع تھا۔
اس سے قبل میں نے اخبارات میں پڑھا تھا کہ  ڈاکو عباس کٹوہر دادو ضلع  کی لکی کے پہاڑوں میں سرگرم تھا، وہ آئے روز سیہون کے قریب واقع بھگو ٹھوڑہو کا ریلوے پھاٹک بند کر کے لوٹ مار کرتا تھا۔ یہ وارداتیں سورج غروب ہونے سے ڈیڑھ دو  گھنٹہ پہلے ہوتی تھیں  تاکہ رات کے اندھیرے کی وجہ سے پولیس پہاڑی علاقے میں ان کا تعاقب نہ کر سکے۔
تب لوگوں کو اغوا کرنے کا رواج نہیں تھا۔ چند گنے چنے ڈاکو ہوتے تھے تاہم  مٹیاری سے لے کر اوپر گھوٹکی تک  کچے کا علاقہ اور گھنے جنگلات تھے۔ کچے سے ملنے والے ہر ضلع میں ڈاکوؤں کا ایک ٹولہ ہوتا تھا۔  یہ وہ زمانہ تھا جب دریائے سندھ اپنی موج میں بہتا تھا۔  
سندھ کا مغربی علاقہ  پہاڑی  پٹی اور دریائے سندھ  اور گڈو سے لے کر ٹھٹھہ تک  دریائے سندھ کے دونوں کنارے  سینکڑوں کلومیٹر جنگلات اور کچے کا علاقہ  ڈاکوؤں کی پناہ گاہ رہا ہے۔ 
شاہ بیلو، راؤنتی، شریف پور، الف کچا، ناگ واہ اوراسونا بنڈی ابھی بھی ڈاکوؤں کی  پناہ گاہ ہیں۔ 

1992 میں سندھ میں کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کیا گیا۔ فائل فوٹو

1984 سے 1994 کا عشرہ "ڈکید آف ڈکیٹس" یا  ڈاکو راج  کے طور پر مشہور ہے۔ دن دہاڑے  لوٹ مار اور اغوا برائے تاوان  کی وارداتیں ہونے لگیں، اس دور میں ڈاکو بطور پیشہ متعارف ہوا۔
بالآخر 1992 میں ان ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرنا پڑا۔ افغان جنگ کے سبب  جدید اسلحہ بڑی حد تک دستیاب تھا۔ کلاشنکوف پہلے ڈاکوؤں نے استعمال کی پولیس کے پاس بعد میں آئی۔
پروفیسر امداد حسین سہتو کی تحقیق  کے مطابق اس عشرے میں  11 ہزار 436 افراد کو اغوا کر کے قریباً پونے تین ارب روپے کا تاوان وصول کیا گیا۔
مارچ 1986 میں ڈاکوؤں نے سکھر جیل توڑ کر اپنے  35 ساتھی چھڑا لیے۔ فرار ہونے والے ڈاکو پرو چانڈیو، محب شیدی، صادق گڈانی، وزیرو خشک، کارو کرکلی کی  ٹولی سے جا ملے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نواز شریف کے دور حکومت میں 1992 کے آپریشن میں 192 ڈاکو مارے گئے، لیکن 1999 سے 2008 تک کا عرصہ کسی طور پر بھی اس عشرے سے کم نہیں بلکہ اس نے نئی تاریخ رقم کی۔ اس دور میں نئے سٹیک ہولڈرز پیدا ہوئے۔ ٹیکنالوجی اور ٹرانسپورٹ کی سہولت نے اغوا کے جرائم کو صنعت بنا دیا جو کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہے۔

کچے کے علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ڈاکو عموماً پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

90  کے عشرے میں ڈاکو باقاعدہ راگ رنگ کی محفلیں سجاتے تھے جس میں پولیس افسران بھی شریک ہوتے تھے۔ ایک ایسی ویڈیو اس زمانے میں لیک بھی ہوئی تھی۔
2001 میں ایس ایس پی ثناء اللہ عباسی نے  حکام بالا کو رپورٹ دی کہ  قبائلی سردار متوازی عدالتی نظام جرگہ سسٹم کے ذریعے شکارپور ضلع میں ’کارو کاری‘ اور ڈکیتیوں  کے واقعات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
جانو آرائیں  نے مبینہ طور پر ایک قوم پرست گروپ کے ساتھ مل کر حیدرآباد سانحہ میں حصہ لیا تھا، جہاں اندھا دھند فائرنگ سے 100 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ نادر جسکانی اور محب شیدی سفاک اور بے رحم کے طور پر مشہور تھے۔ ڈاکو شیخ  شادیوں کے لئے مشہور ہے۔ وہ اپنی پانچ بیویوں کو قتل کر کے دریا میں بہا چکا ہے۔ منیر شیخ اور دوسو مصرانی کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ پولیس کی پشت پناہی میں کارروائیاں کرتے ہیں۔
ڈاکو اپنے نام بھی ایسے رکھتے تھے جن سے دہشت اوررعب و دبدبہ ظاہر ہوتا تھا۔ رمضان شر عرف ملک الموت، خمینی جتوئی، ناگ مارفانی، یوسف راجڑ عرف راکٹ لانچر، مارشل لاء یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے رینکس سے متاثر ہو کربھی نام رکھے جاتے تھے مثلاً میجر ناریجو، میجر  کھوسو، کرنل  کھوسو۔  

ڈاکو  کیسے مارے گئے؟

کچے کے علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ڈاکو عموماً پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں، لیکن جب حملہ ہو جائے تو لڑتے ہیں۔ ڈاکوؤں کی دنیا پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جتنے بھی ڈاکو مارے گئے، وہ سب مخبری کی وجہ سے مارے گئے۔

 ڈاکو کمال شیخ نے صحافیوں کو بھیجے گئے ایک خط میں لکھا تھا کہ  ڈیل وڈیرے اور افسران کراتے ہیں۔

ڈاکو اپنی رقوم علاقے کے کسی با اثر زمیندار کے پاس بطورامانت رکھتے ہیں۔ جب یہ رقم بہت زیادہ ہو جاتی ہے تو وہ وڈیرہ مخبر بن کر اس ڈاکو کو پولیس مقابلے میں مروا دیتا ہے۔  محب شیدی  اور ڈاکو بھٹی کو وڈیروں نے پیسوں کی وجہ سےمخبری کر کے مروایا۔
سندھ میں گذشتہ تین عشروں کے دوران  پرو چانڈیو، صدورو شیدی، محب جسکانی، کشمیر خان شیخ، صدورو شیخ، محب شیدی،  صادو ناریجو، نظرو ناریجو، مبین ناریجو،لائق چانڈیو، کرو تھیبو، عباس کٹوہڑ قادو سرگانی، نادر جسکانی، میجر کھوسو، کرنل کھوسو، لائق چانڈیو،  بقادار شاہ بڑے نام رہے ہیں۔
2000 میں سندھ پنجاب سرحد پر کشمور کے قریب 60 ڈاکوؤں نے 200 گاڑیوں کے قافلے  پر دھاوا بول دیا۔ پنجاب پولیس کی موبائل گاڑی پر نصب ایل ایم جی تھری، فون اور تین کلاشنکوفیں چھین لیں۔
 ڈاکو کمال شیخ نے صحافیوں کو بھیجے گئے ایک خط میں لکھا تھا کہ  ڈیل وڈیرے اور افسران کراتے ہیں۔ جام صادق دور میں مغوی جاپانی انجینیئروں کے تاوان کی رقم ایک کروڑ روپے حکومت سندھ نے ادا کی تھی، جس میں ایک وڈیرہ جو بعد میں صوبائی اسمبلی کا رکن بھی بنا، اپنے حصے  سے زائد رقم یعنی 75 لاکھ روپے لے گیا جبکہ متعلقہ ڈاکو کو صرف 25 لاکھ روپے ملے تھے۔ اسی طرح سے چینی انجینیئروں کے اغوا کی رقم بھی سرکاری خزانے سے ادا کی گئی۔
یہ پولیس، وڈیروں اور ڈاکوؤں کے باہمی گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے کہ آج تک کوئی سردار، وڈیرہ یا پولیس افسر اغوا نہیں ہوا۔

ڈاکو اپنی رقوم علاقے کے کسی با اثر زمیندار کے پاس رکھتے ہیں۔ جب یہ رقم زیادہ ہو جاتی ہے تو وہ وڈیرہ اس ڈاکو کو پولیس مقابلے میں مروا دیتا ہے۔

تبدیل شدہ حالات میں وڈیروں کی کچے کے دیگر پیداواری ذرائع پر بھی نظر ہے۔ شکارپورضلع میں بعض وڈیروں نے ڈاکوؤں کواپنی کارروائیاں کرنے کی کھلی چھوٹ دی۔ ان کے ڈر کی وجہ سے بعد میں ان وڈیروں نے  مچھلی اور لکڑی  کے نصف درجن ٹھیکے سستے داموں خود حاصل کیے۔

ڈاکو کیسے بنتے ہیں؟

سماجی ناانصافی کا شکار لوگ  مفرور ہو کر  جنگل کا رخ کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ غلط راہ پر  نکل آئے تو پھر خون اور بارود ان کی زندگی کا حصہ بن گئی۔ یہ لوگ سماجی ناانصافیوں کا شکار ہو کر ڈاکو بنے یا پھر جاگیرداروں اور وڈیروں کے پالے ہوئے تھے، لیکن یہ فارمولا سب پر یکساں لاگو نہیں ہوتا۔ کئی ڈاکو ایسے بھی ہیں جنہوں نے شروع میں چھوٹی موٹی چوریاں کیں، بعد میں روپوش ہو گئے اور مفرور ہونے کے بعد ڈاکو بن گئے۔
ماضی قریب میں  خطرناک ترین سمجھے جانے والے ڈاکو نذرو ناریجو نے اپنے والد رب رکھیو عرف ربو ناریجو سے باگ دوڑ لی جو پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔ رب رکھیو نے کچے کی 900 ایکڑ زمین  کے تنازع پر سندھی زبان کے افسانہ نویس  نسیم کھرل کو قتل کیا اور خود مفرور ہو کر ڈاکو بن گیا۔ نذرو کو پولیس تب مار سکی جب وہ گردوں کی تکلیف اور ہیپٹائٹس  کے امراض میں مبتلا تھا اور نیم ریٹائر زندگی گزار رہا تھا۔
سکھر کے صحافی ممتاز بخاری نے 2001 میں کچے کا تفصیلی دورہ کیا اور ڈاکوؤں کی زندگی اور جرائم پر تحقیقی رپورٹس شائع کیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کمانڈو شیخ اور کشمیر خان شیخ سے متاثر تھا، ورنہ اس کو ڈاکو بنانے کے حالات نہیں تھے۔ انہیں موقع تب ملا جب ایک مقامی جھگڑے میں ایک شخص نے ان کے والد کا بازو توڑ دیا، کمال شیخ نے اس شخص کو قتل کر کے جنگل کا رخ کیا۔ جہانپور کے باسی حسن شیخ  علن کچہ  کی دیہ میانی میں رہتا تھا،  جرائم کی دنیا میں چوریوں سے قدم رکھا اور پھر کل وقتی ڈاکو بن گیا۔  احمدو جاگیرانی نے ایک لڑکی کا رشتہ مانگا، نہ ملنے پر اسے اغوا کر لیا اور ڈاکو بن گیا۔ ایک کھیپ ایسی  ہے جو صرف رعب و دبدبہ جمانے کے لئے ڈاکو بنی۔
صادو ناریجو اور نذرو ناریجو ذاتی جھگڑوں کی وجہ سے ڈاکو بنے۔  دوسو مصرانی اور منیر مصرانی اس لیے ڈاکو بنے کہ وہ ذاتی جھگڑوں سے  بے زار تھے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے انہوں نے اپنا قد کاٹھ بڑھایا۔  ان کے گروہ میں 40 کے لگ بھگ لوگ ہیں جن پر کوئی مقدمہ نہیں تھا، چونکہ فارغ بیٹھے تھے تو ڈاکو بن گئے۔ شوقیہ ڈاکو بچلو تیغانی ہے، جس نے 40 سال کی عمر کے بعد ڈاکو بننے کا فیصلہ کیا، اس سے قبل وہ  روایتی سگھڑ تھے۔ انہیں ڈاکو کی زندگی پر کشش لگی۔ اسی طرح سے ڈاکو کمال فقیر بھی اپنے بھائی  اور چچا کشمیر شیخ سے متاثر تھا۔
90  کے عشرے تک کے ڈاکو  سیدوں اورخواتین کی عزت کرتے تھے اور انہیں اغوا بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ 50 اور 60 کے عشروں  کے ڈاکو ماچھی  نے اپنے ساتھی کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جب اس نے ایک خاتون پر بری نظر ڈالی۔  لیکن 90 کے عشرے اور اس کے بعد نئی صدی میں ڈاکوؤں کی وہ کھیپ آئی جو ان تینوں "اصولوں" کو نہیں مانتی تھی۔

ڈاکوؤں نے 2001 میں گلوکار منظور سکھیرانی کو تاوان کے لیے اغوا کیا، فائل فوٹو

بعض ڈاکو غریبوں کی مدد بھی کرتے تھے۔ پرو چانڈیو لوٹ کی رقم  غریبوں میں تقسیم کردیا کرتا تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مقابلے میں  مارے جانے کے بعد اس کی میت پر 10 ہزار سے زائد اجرکیں ڈالی گئیں۔ انہیں ضیا دور میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قتل کردیا۔
کچے کے ڈاکو کلاسیکل کردار بھی رہے ہیں۔  ماضی میں شاید اس طرح کے کرداروں پر لوک گیت بنتے تھے۔ اب فلمیں بنائی گئیں۔ پھل ماچھی ، پرو چانڈیو اور علی گوہر چانڈیو رابن ہڈ  جیسے کردار مانے جاتے ہیں۔ ان پر 80 کے عشرے میں فلمیں بھی بنیں جبکہ محب شیدی اور جانو دھاڑیل دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے، ایسے ڈاکو جو معاف کرنے یا رعایت کرنے والے نہیں تھے، ان پر بھی فلمیں بنیں اور مقبول ہوئیں۔   
10سے 15 سال تک جرائم کی دنیا میں رہنے کے بعد انہوں نے پیسے کما لیے ہیں اور اس زندگی سے بے زار بھی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ عام معافی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بمشکل دو تین ایسے ڈاکو ہوں گے جنہیں بعد میں سکون کی زندگی نصیب ہوئی۔ اس میں اہم نام کمال فقیر کا ہے۔ اس نے اپنی ذات کے ایک پولیس افسر کے کہنے پر ہتھیار ڈالے، اور قریباً سات سال قید کاٹنے کے بعد اب بطور زمیندار شریفانہ زندگی گزار رہا ہے۔
اکثر ڈاکوؤں کے لواحقین  کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ ڈاکو شیرو ناریجو کے  لواحقین کو دو وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں جبکہ وہ اپنے زمانے میں ایک یرغمالی  کا تاوان 20 لاکھ روپے لیتا تھا۔ عبداللہ شیخ کے مرنے کے بعد اس کی ماں بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئی۔
کئی کلومیٹر پر مشتمل بیلو دریائی جزیرہ کی مانند وہاں آج کل  ڈاکو ابراہیم سندیلو شاہ کے گینگ کا راج  ہے۔  یہاں پر کئی یرغمالی اور مفرور مجرم موجود ہوتے ہیں۔ یہ سندھ بھر کے ڈاکوؤں کے لیے بڑی پناہ گاہ ہے۔

شیئر: