Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بھٹو پر قتل کا دوسرا مقدمہ

ذوالفقار بھٹو کے خلاف قتل کے دوسرے مقدمے میں وعدہ معاف گواہ نہ ملا۔ فوٹو: اے ایف پی
ایک اور بھی قتل کیس تھا جس میں ذوالفقارعلی بھٹو کو جنرل ضیاء الحق ملوث کرنا چاہتے تھے، لیکن وعدہ معاف گواہ اور ٹھوس شواہد نہ ملنے کی وجہ سے بھٹو پر قتل کا یہ مقدمہ نہ بن سکا۔  یہ تھا پیر پگارا کے چھ حر مریدوں کا قتل کیس۔
یہ قتل سنہ 1973 میں ہوئے جب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم اور ممتاز بھٹو سندھ کے وزیراعلیٰ تھے۔
ہوا یوں کہ پانچ اکتوبر 1973 کو سانگھڑ میں پیپلز پارٹی کے کارکن  اور جام صادق علی کے  قریبی دوست علی بخش جونیجو کو قتل کردیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ قتل ذاتی جھگڑے اور خاندانی معاملات کی وجہ سے ہوا۔ دوسرے روز اس سے بھی بھیانک واقعہ رونما ہوا۔

حروں کا قتل کیس فیصلہ کن موڑ بنا، جس سے جام صادق علی وفاداری تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے۔

 سندھ میں ذوالفقارعلی بھٹو اور پیر پگارا کے سیاسی نظریات ایک دوسرے  سے متصادم رہے ہیں۔  بھٹو دور میں جام صادق علی بااختیار صوبائی وزیر بلدیات تھے۔ وہ پگارا کیمپ سے پیپلزپارٹی میں آئے تھے۔ ان کوعلم تھا کہ بھٹو اور پگارا میں ٹھنی ہوئی ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے سانگھڑ کی سیاست میں حساب چکانا چاہا۔ انہوں نے ضلع سانگھڑ میں پیر پگارا کے چھ مریدوں کو گرفتار کرکے ان کو ٹھکانے لگانے کا حکم دیا۔
 چھ حر ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ یعنی ڈپٹی کمشنرسانگھڑ امداد اللہ انڑ کی عدالت میں پیش ہوئے جن پرغنڈہ ایکٹ کے تحت مقدمہ چل رہا تھا۔ ضیاء الحق کے دور میں بھٹو کے خلاف شائع کردہ وائٹ پیپر کے مطابق ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ امداداللہ انڑ نے ملزمان کو عدالتی ریکارڈ میں غیر حاضر دکھایا  اور ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی بنیاد پر  پولیس کی تحویل میں دے دیا۔ پولیس نے انہیں سانگھڑ تھانے کی حوالات میں  بند کر دیا۔
رات کو ان چھ افراد محراب سنجرانی، امید علی سنجرانی، جان محمد سنجرانی، بنرو بھتیجو، سید علی شیر اور اللہ داد عرف دادن کو ایک گاڑی میں لے جا یا گیا اور کانہڑ موری کے قریب ایک فرضی پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔ اس کارروائی کی نگرانی مبینہ طور پر جام صادق علی، ڈپٹی کمشنر امداداللہ انڑ، ایس پی غلام شبیر کلیار نے کی۔  
بھٹو کے مخالفین نے یہ بات بھی پھیلائی کہ بھٹو کے چیف سیکیورٹی افسر سعید احمد خان  نے ایک منصوبہ بنایا کہ پیر پگارا کے مریدوں کو ڈرا دھمکا کر پیر کے اثر و رسوخ کو کم کیا جائے۔ اس ضمن میں سعید احمد خان کے ایک خط کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو لکھا کہ پیر صاحب کے  بااثر پیروکار اور خلیفے  کسی نہ کسی انداز سے زرعی اصلاحات کی خلاف ورزی کے مرتکب  پائے گئے ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی  کی جانی چاہیے۔
جنرل ضیاء نے پوری کوشش کی کہ بھٹو کو چھ حر افراد کے قتل کیس میں ملوث کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے دو اعلیٰ افسران ڈپٹی کمشنر امداداللہ انڑ اور ایس پی غلام شبیر کلیار میں سے کسی ایک کا وعدہ معاف گواہ بننا ضروری تھا۔

جام صادق علی کچھ عرصہ بنظیر بھٹو کے خصوصی معاون بنے لیکن بعد میں مستعفی ہو کر پیپلزپارٹی مخالف کیمپ میں چلے گئے۔

جام صادق علی چھپ کر دبئی کے راستے لندن چلے گئے اور غلام شبیر کلیار روپوش ہو گئے جبکہ امداداللہ انڑ گرفتار کر لیے گئے۔ انہیں مخلتف طریقوں سے زیر بار کیا گیا کہ وہ بھٹو کے خلاف گواہی دیں۔ امداد اللہ انڑ کسی طرح عدالت سے ضمانت حاصل کرنے کے بعد روپوش ہوگئے اور سالہا سال تک روپوش رہے۔
اٹھارہ نومبر1981 کو سیشن کورٹ سکھر نے چھ حروں کے مقدمہ قتل میں 9 افراد کو سزائے موت سنائی۔ ان میں سابق ڈپٹی کمشنر امداداللہ انڑ، سابق ایس پی غلام شبیر کلیار، سابق ایس ایچ او سانگھڑ چوہدری محمد یعقوب، ہیڈ کنسٹیبل عبدالغفور، اور پانچ سپاہی شامل تھے لیکن سزائے موت پر عمل نہ ہوسکا۔ 
غلام شبیر کلیار قبائلی علاقہ جات میں روپوش رہے، جہاں وہ نہایت کسمپرسی کی حالت میں انتقال کر گئے۔ امداد اللہ انڑ نے جام صادق کے ذریعے صدرغلام اسحاق  سے سزائے موت معاف کرا دی۔ بعض مجرمان دوران قید بیمار ہو کر فوت ہو گئے۔

امداد اللہ انڑ کسی طرح عدالت سے ضمانت حاصل کرنے کے بعد روپوش ہوگئے اور سالہا سال تک روپوش رہے۔

1988ء کے عام انتخابات کے بعد بنظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں تو جام صادق علی بھی واپس وطن آگئے۔ اس اثناء میں جام صادق علی نے پیر پگارا سے معافی تلافی کرکے اپنی جان بخشوا دی تھی۔ وطن واپسی کے بعد صدر غلام اسحاق خان کے معرفت انہوں نے  مقدمے سے بھی نجات حاصل کر لی۔
جام صادق علی کچھ عرصہ بنظیر بھٹو کے خصوصی معاون بنے لیکن بعد میں مستعفی ہو کر پیپلزپارٹی مخالف کیمپ میں چلے گئے جہاں غلام اسحاق خان اور پیر پگارا نے ان پر دست شفقت رکھا۔ اور نئے انتخابات کے بعد وزیراعلیٰ سندھ  بن گئے۔
حروں کا قتل کیس فیصلہ کن موڑ بنا، جس سے جام صادق علی وفاداری تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے، اور پگارا کو سندھ میں کنگ میکر بننے کا موقعہ ملا۔
سندھ میں حکومت بنانے کے بعد جام صادق علی نے پیر پگارا کوسندھ کے وسیع سرکاری رقبے، اور دیگر بے شمار مراعات، مقتولین کے ورثا کو بھاری بھر کم خون بہا اور نوکریاں دیں۔
 سانگھڑ کے ایک صحافی بتاتے ہیں کہ پیر پگارا کی طرف سے معافی ملنے کے بعد جب جام صادق علی مقتولین کے گھروں پر پہنچے تو ان کے ہاتھ میں ورثاء کے لیے اے ایس آئی پولیس کے تقرر نامے تھے اور وہ دھاڑیں مار کر رو رہے تھے کہ میرا کوئی قصور نہیں مجھے معاف کر دیا جائے۔
چھ افراد کے قتل میں بھٹو پر مقدمہ نہ بن سکا۔ کسی مجرم کو پھانسی کی سزا نہ ہوئی۔ واقعہ کے اہم محرک جام صادق سندھ  کے وزیراعلیٰ بنے، دوسرے اہم کردار امداداللہ انڑ بینظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں مشیر کے برابر عہدے پر رہے۔ جس پولیس سٹیشن میں پہلے روز قتل کیے گئے حروں کو بند کیا گیا تھا، ایک وقت آیا کی ایک مقتول کا بیٹا اسی تھانے کا ایس ایچ او بنا۔ یہ سب تاریخ ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں