Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میری بیٹی میرا فخر۔۔۔ ہے‘

دیکھنے والوں کی امید بھری نظریں بے ساختہ ان کی طرف اٹھ جاتی ہیں
رُل تے گئے آں پر چس بڑی آئی اے"۔۔۔ گلوکار ملکو نے یقیناً اپنے اس گانے کا مکھڑا کسی ٹرک کے پیچھے سے ہی لیا تھا۔ کیونکہ یہ جملہ ٹرکوں اور رکشوں پر محفوظ ادب کا ہی ایک شاہکار ہے۔
دوران سفر ہمیں سڑکوں پر چلتے  ہوئے ٹرکوں اور رکشوں کے پیچھے ایسے ہی دلچسپ اشعار اور جملے پڑھنے کو ملتے ہیں ۔۔۔

اپنے ذوق کو اس شاہراہی ادب کے مطابق ڈھالنے کا فن آنا چاہیے۔ فوٹو: ثمر من اللہ

توں لنگ جا ساڈی خیر اے۔۔
ماں کی دعا جنت کی ہوا۔۔
دل برائے فروخت، قیمت صرف ایک مسکراہٹ۔۔
فاصلہ رکھیں۔۔۔ورنہ پیار ہوجائے گا
گل ویلے دی۔۔۔ پھل موسم دا
ماں کی دعا۔۔۔جا پُتر رکشہ چلا
سپیڈ میری جوانی۔۔۔اوورٹیک میرا نخرہ
سجن کوئی کوئی۔۔۔دشمن ہر کوئی۔۔
اسی طرح کے مزید  دلچسپ، مشہور اور معنی خیز  الفاظ اور اشعار جن پر نظر پڑتے ہی ہم بے ساختہ مسکرا دیتے ہیں۔ ویسے تو یہ شاعری ٹرک یا رکشے کے اندر بیٹھے ہوئے ڈرائیور یا پینٹرز یا پھر ان گاڑیوں کے مالکان کے جذبات و احساسات کی عکاسی کرتی ہے لیکن دوران سفر یہ شگفتہ ٹرک ادب آپ کو کبھی بور نہیں ہونے دیتا۔۔۔۔ ہاں البتہ اپنے ذوق کوعارضی طور پر ہی سہی لیکن اس شاہراہی ادب کے مطابق ڈھالنے کا فن آنا چاہیے۔۔۔ میں تو دوران سفر جب بھی کوئی ایسی منفرد تحریر پڑھوں تو اسے کیمرے کی آنکھ میں قید کیے بنا گزارہ ہوتا ہے نا ہی آگے گزرنا ہوتا ہے۔
ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چلنے والے ٹرک جہاں سے بھی گزریں دیکھنے والوں کی امید بھری نظریں بے ساختہ ان کی طرف اٹھ جاتی ہیں تاکہ وہاں کسی ایسی ہی ہلکی پھلکی تحریر سے حظ اٹھا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی مثبت پیغام کی تشہیر کے لیے ٹرک آرٹ یا ٹرک ایک نہایت ہی موثر ذریعہ ہیں۔۔

ٹرکوں پر لکھے جملوں کو نیا انداز دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ فوٹو: ثمر من اللہ

اس سلسلے میں پہلا قدم بھی اٹھایا جا چکا ہے جس میں ٹرک آرٹ اور شاعری کے ذریعے لوگوں میں بچیوں کے تحفظ، انہیں مساوی حقوق دینے اور باالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کے  لیے یکساں مواقعوں کے حوالے سے شعور اجاگر کیا گیا ہے۔
اس اقدام کے تحت ٹرکوں پر مختلف پیغامات لکھوا کر لوگوں کی سوچ تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔۔۔۔۔ مجھے پڑھنے دو آگے بڑھنے دو۔۔۔۔۔کم عمری کی شادی ظلم ہے۔۔۔ علم روشنی ہے۔۔۔۔اور اس طرح کے بہت سے پیغامات جنہیں خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔
انسانی حقوق کی  کارکن ثمرمن اللہ  کو یہ خیال کب اور کیسے آیا۔۔؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ۔۔۔۔مجھے ہمیشہ سے ٹرک آرٹ پسند تھا۔ لیکن تین سال پہلے مجھے محسوس ہوا کے ٹرکوں پر ہمیں بالی وڈ ایکٹرز کی تصاویر کے بجائے اپنے بچے بچیوں کی تصاویر اور ان کے حقوق سے متعلق پیغامات لکھنے چاہئیں۔ تاکہ جب ٹرک پاکستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے پر جائے تو اپنے ساتھ ایک ایسا پیغام لے کر جائے جس سے لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئے۔ ان پیغامات میں مردوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا جائے جیسا کہ جو والد کہتے ہیں "میری بیٹی میرا فخر"۔۔۔"میری بیٹی میری آنکھوں کی روشنی ہے" ۔۔۔۔جب سے یہ مہم شروع کی تب سے یہ ٹرک خوشی اور فخر سے پیغامات لے کر چل رہے ہیں۔

تب سے یہ ٹرک خوشی اور فخر سے پیغامات لے کر چل رہے ہیں۔ فوٹو: ثمر من اللہ

ٹرک آرٹ اب ہماری ثقافت کا حصہ ہے اور پوری دنیا میں یہ پاکستان کی پہچان ہے۔ اس آرٹ کو اگر ہم مزید بہتر انداز میں استعمال کریں تو یہ پرنٹ،  الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی طرح پیغام رسانی کا ایک اہم اور کارگر ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: