Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’روکنے والا تو درکنار ٹوکنے والا بھی نہیں‘

کچھ لوگوں کے مسائل کا حل ہے تو کچھ کے لیے یہ خود ہی مسئلہ ہے۔ فائل فوٹو: ان سپلیش
سوشل میڈیا جب وجود میں آیا تو اس وقت شاید یہ صرف ایک تفریح کی چیز تھی لیکن آہستہ آہستہ یہ حقیقی معنوں میں پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کا نعم البدل بن گیا۔ آج سوشل میڈیا نے ہر اس شخص کو صحافی بنا دیا ہے جس کے ہاتھ میں سمارٹ فون ہے۔ ہر وہ شخص (اپنے تئیں) تجزیہ کار ہے جو کچھ آڑھی ترچھی سطریں لکھنے کے قابل ہے۔ بعض مواقع پر سوشل میڈیا نے عوام کی آواز کو اتنا طاقتور بنایا کہ مین سٹریم میڈیا بھی ایسے مسائل پر اپنی خاموشی ترک کرنے یا اپنی نام نہاد پالیسی بدلنے پر مجبور ہوا۔
قصور کا واقعہ ہو یا زینب قتل کیس۔۔۔ طیبہ تشدد کیس ہو یا اسما تشدد کیس، سانحہ ساہیوال ہو  یا پولیس تشدد سے قتل ہونے والے صلاح الدین کے لیے انصاف کا مطالبہ، یہ کریڈٹ سوشل میڈیا کو ہی جاتا ہے جس کی وجہ سے تمام واقعات منظر عام پر آئے اور حکومت کو ان پر نوٹس لیتے ہی بنی۔۔۔۔ اس لحاظ سے سوشل میڈیا کے فوائد تو بہت ہیں لیکن کبھی کبھار یہ ایسا شتر بے مہار بن جاتا ہے جسے روکنے والا تو درکنار ٹوکنے والا بھی کوئی نہیں۔۔

چراغ سب کے بجھییں گے، ہوا کسی کی نہیں۔ فائل فوٹو: ان سپلیش

ہمارا روزمرہ مشاہدہ ہے کہ اب سوشل میڈیا کو مثبت و منفی ہر طرح کی رائے سازی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ یہ جدید ابلاغی ذریعہ ایک جانب کچھ لوگوں کے مسائل کا حل ہے تو کچھ کے لیے یہ خود ہی مسئلہ ہے۔
حال ہی میں ‏ ہم نے دیکھا کہ پاکستان میں ٹوئٹر پر غیر اخلاقی ٹرینڈز بنانے کا رواج چل نکلا، اس طرزعمل سے سوشل میڈیا بہتر مقاصد کے لیے استعمال ہونے کے بجائے سر عام اخلاقیات کا جنازہ نکالنے کے لیے استعمال ہوا۔ سوشل میڈیا کی اس بلا سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔۔۔ یوں لگتا ہے کہ آج ایک کی باری ہے تو کل کسی اور کا نمبر لگنے والا ہے۔
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھییں گے، ہوا کسی کی نہیں
سوشل میڈیا کے بیشتر اکاؤنٹ بندر کے ہاتھ میں استرے جیسے ہیں۔۔ جب دل چاہے، جس کی چاہے پگڑی اچھال دیں لیکن ایسا کرتے ہوئے خود بھی محفوظ نہیں رہ پاتے۔۔۔ بعض معاملات پر زیرو ٹالرنس پالیسی ہونی چاہیے، کسی کو دوسرے کی تضحیک نہیں کرنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے سوشل میڈیا کارکنان کی تربیت کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی نامور شخصیات سوشل میڈیا  سے کس طرح متاثر ہیں اور اس کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ اس موضوع پر کچھ نمایاں افراد سے بات ہوئی جس سے معاملہ کو بہتر انداز میں سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
سینیئر صحافی اور اینکرپرسن عاصمہ شیرازی سے جب سوشل میڈیا کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا "میں ٹوئٹر کا استعمال زیادہ کرتی ہوں۔ یہاں پر آپ کو زیادہ انفارمیشن مل رہی ہوتی ہے۔ لوگ اپنی رائے کا اظہار بھی کر رہے ہوتے ہیں جس سے آپ کا لوگوں کے ساتھ ایک تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ منفی پہلو کی بات کریں تو مختلف کمپینز کے ذریعے کردار کشی کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں اور انہیں کوئی سنجیدہ نہیں لیتا "۔

سوشل میڈیا کے بیشتر اکاؤنٹ بندر کے ہاتھ میں استرے جیسے ہیں۔ فائل فوٹو: ان سپلیش

سینیئر اینکر یشفین جمال نے سوشل میڈیا پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کا خبر کی دنیا میں ایک اہم کردار ہے۔ بہت سی معلومات اور واقعات ایسے ہیں جن تک صرف سوشل میڈیا کے ذریعے  ہی رسائی ممکن ہوتی ہے۔ اور ان واقعات پر حکومت اور ادارے بروقت ایکشن میں بھی آجاتے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ پر ہی نظر ڈالیں تو  کئی اہم ترین واقعات کا علم سوشل میڈیا کے ذریعے ہی ہوا۔ پی ٹی آئی حکومت نے تو سوشل میڈیا پر آنے والے ردعمل کے نتیجے میں کئی فیصلے واپس لیے۔
سینیئر اینکر اور صحافی غریدہ فاروقی کے مطابق ٹیکنالوجی کی ہر جدّت کی طرح سوشل میڈیا کے بھی مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ صارف اس کا استعمال تعمیری مقصد کیلیے کرتا ہے یا تخریبی نتائج چاہتا ہے۔ "مجھ سے پوچھیں تو میں سوشل میڈیا کی بہت بڑی حامی ہوں اور میں ہمیشہ اِس کے مثبت فوائد اور اثرات کو سامنے رکھتی ہوں۔ خواتین کے لیے سوشل میڈیا میں منفی رحجانات بہت زیادہ ہیں جو لوگوں کی زندگیوں پر بہت زیادہ پریشان کُن اثرات مرتب کرتے ہیں۔ میں خود ان منفی سرگرمیوں کا بے حد شکار رہتی ہوں لیکن میں نے اپنے اندر ایک مضبوط اور موثر فلٹر لگا رکھا ہے جس سے سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے محفوظ رہتی ہوں"۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: