Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اکبر کے جلال کو زوال

اکبر کی نوجوانی کے زیادہ سال اتالیق بیرم خان کے زیر سایہ جنگ و جدل میں گزرے۔ فوٹو: منٹاج ورلڈ
اگر آپ کا بھی یہ خیال ہے کہ جودھا اور انار کلی کے دور کے ’اکبر‘ دو مختلف کردار تھے تو اسے برقرار ہی رکھیے کیونکہ دوسری صورت میں میری طرح یہ سوال آپ کا بھی دامن تھام سکتا ہے کہ ’اپنی دفعہ مذہب تک کو بیچ میں نہ لانے والا بادشاہ بیٹے کی پریم کہانی میں کیدو کیسے بن گیا؟‘
یہ تب ہوا جب پتہ چلا کہ ایک کہانی کا ہیرو اور دوسری کا ولن ایک ہی شخص تھا۔
کم و بیش دو ایک جیسے معاملات پر ایک سو اسی درجے کا فرق، شاید اسی کو شاہانہ مزاج کہتے ہیں۔
بہرحال جلال الدین کو مغلیہ دور کا کامیاب ترین بادشاہ سمجھا جاتا ہے، وہ تقریباً 50 سال تک تخت نشیں رہے، انہوں نے بھرپور زندگی گزاری لیکن پریشانیاں بھی مسلسل ان کے تعاقب میں رہیں، جن میں سے زیادہ تر کو انہوں نے اپنی فہم و فراست سے قابو کیا تاہم کچھ ایسی تھیں جو روگ کی طرح انہیں چمٹیں۔
جلال الدین کی پیدائش کے وقت ان کے والد نصیر الدین محمد ہمایوں بادشاہ ہوتے ہوئے بھی بادشاہ نہ تھے نہ شہزادے ہوتے ہوئے شہزادے، کیونکہ چند سال قبل ہی شیر شاہ سوری نے ہمایوں کی حکومت پر قبضہ کرلیا تھا اور ان کو روپوش ہونا پڑا تھا۔
روپوشی کے دوران ہمایوں نے سندھ کے علاقے عمر کوٹ (جس کا پرانا نام امر کوٹ تھا) میں حمیدہ بانو نامی خاتون سے شادی کی اور 1542 میں جلال الدین اکبر پیدا ہوئے۔ 

جلال الدین کی پیدائش کے وقت ان کے والد نصیر الدین محمد ہمایوں بادشاہ ہوتے ہوئے بھی بادشاہ نہ تھے۔ فوٹو: دی فیمس پیپل

جب 1545 میں شیر شاہ سوری سے سلطنت واپس لینے کے بعد 1556 میں ہمایوں کا انتقال ہوا تو جلال الدین کی عمر 14 سال تھی۔ باپ کی وفات کے بعد وہ 14 سال کی عمر میں بادشاہ بن گئے۔ 
اکبر کی نوجوانی کے زیادہ سال اتالیق بیرم خان کے زیر سایہ جنگ و جدل میں گزرے۔
چونکہ مغل ہندوستان سے تعلق نہیں رکھتے تھے اور مسلمان بھی تھے جبکہ وہاں ہندوؤں کی اکثریت تھی اس لیے ہمایوں کے دور میں مذہبی بنیادوں پر فسادات شروع ہو گئے۔
اکبر نے اقتدار سنبھالا تو انہیں ابتدا ہی سے اس نزاکت کا احساس تھا۔
بہت سے مورخین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ہندو راجپوت جودھا سے شادی کے پیچھے بھی یہ نزاکت ہی کارفرما تھی کیونکہ اس کے بعد اکبر کے دربار میں ہندوؤں کو بڑے بڑے عہدے دیے گیے۔ انہیں کئی مراعات اور ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی، جس کے بعد وہ ہندوؤں کی حمایت بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

استاد کی شاگرد کے خلاف بغاوت

ہندوؤں کو اپنے حلقہ اثر میں لانے کے بعد اکبر نے اپنے فن حرب کے استاد بیرم خان کو ذمہ داریوں کا بوجھ اتارکر مکہ کا سفر کرنے کا کہا تو یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب انہوں نے حکمت عملی تبدیل کر لی ہے اور اب وہ تلوار کے زور پر علاقے فتح کرنے کے بجائے لوگوں کے دل جیتنا چاہتے ہیں۔

جلال الدین اکبر نے ہندو خاتون جودھا سے شادی کی۔ فوٹو: ویب نیلز ڈاٹ کام

بیرم خان ہمایوں کے مصاحب تھے، انہوں نے ہی انہیں اکبر کا اتالیق مقررکیا تھا۔ بیرم خان نے اس وقت تو اکبر کے احکامات مان لیے اوروہ چپ چاپ چلے گئے لیکن چند روز بعد بغاوت کر دی جس پر اکبر کی فوجوں نے انہیں گرفتار کر لیا۔ تاہم جب انہیں بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا، تو اکبر نے پرانے تعلق کی خاطر انہیں معاف کردیا۔

پڑھا لکھا ’ان پڑھ

اکبر تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ شروع کے چند سال سندھ میں والد کے سائے کے بغیر گزارے، اسی طرح ہمایوں نے جب دوبارہ تخت حاصل کیا تو دشمنوں کی بہتات تھی اس لیے وہ کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہ تھے اور بیٹے کو لوگوں سے دور رکھا، والد کی وفات نے اکبر کو  بچپن سے سیدھا ادھیڑ عمری میں دھکیل دیا اور انہیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔
 اس کا احساس اکبر کواچھی طرح تھا اور نہ پڑھ سکنے کی کمی پروہ اکثر کڑھتے رہتے تھے۔
اپنی اس کمی کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ کتابیں سننے کا سلسلہ شروع کردیا، وہ ادب و ثقافت کے دلدادہ تھے، دربار میں سکالرز، شعرا اور فلسفی بلند آواز میں مذاہب، تاریخ اورسیاست کی کتابیں پڑھ کر سنایا کرتے، انہی کے دور میں سنسکرت کے مضامین کا فارسی میں ترجمہ ہوا اور ابوالفضل نامی رتن نے ’اکبرنامہ‘ لکھا۔ 
انہوں نے جیروم زیویر نامی مشنری سے عہدنامہ جدید اور انجیل کے بھی تراجم کروائے۔ وہ بلا کے ذہین تھے، صرف ایک بار سننے پر دفتر کے دفتر یاد کر لیتے۔ 
انہوں نے جزیہ کے نظام کو انتہائی آسان اور ایسا متاثرکن بنایا کہ ہر کسی نے قبول کیا، انہی کے دور میں زمین کا درست سروے کروایا گیا تاکہ لوگوں پرٹیکس کا بوجھ کم سے کم پڑھے، یہی وجہ ہے کہ وہ بہت مقبول ہوئے۔ 
اکبر کو خطرات سے کھیلنے کا شوق تھا، شیروں کا شکار اور سرکش ہاتھیوں پر سواری ان کا خصوصی مشغلہ تھا۔
دشمنوں کے بارے میں ان کا مزاج سیمابی تھا، کبھی سخت سزا دیتے اور کبھی معاف کر دیتے۔

اکبر کا دین الہٰی

جلال الدین اکبر نے 1581 میں دین الہٰی کے نام سے ایک نیا دین متعارف کروایا جو ایک لحاظ سے ہندو، مسلم، مسیحی، سکھ اور دیگر کا مجموعہ سا ہی تھا۔ اس کے لیے عبادت خانے کے نام سے ایک خصوصی عبادت گاہ بھی بنائی گئی، جہاں مختلف مذاہب کے لوگ مل کر آزادانہ عبادت کرتے۔ وہاں ہندو، مسلم، مسیحی۔ سکھ تو آتے ہی، ملحدوں اور دہریوں کے لیے بھی آزادی تھی، وہ وہاں آ کر بحث کرتے، سوالات اٹھاتے جن کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی۔

شہزادہ سلیم کی سرکشی اور کشیدہ تعلقات نے اکبر کو پریشان کیے رکھا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

اس مذہب میں شامل ہونے کے لیے بیعت لی جاتی، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اکبر نے اس کے ذریعے مذہب کی بنیاد پر پیدا ہونے والے مسائل سے بچنے کی کوشش کی تھی۔

اکبر کا تھنک ٹینک

اکبر خود تو پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن اہل علم و دانش کے بہت قدر دان تھے انہوں نے ایسے ہی افراد پر مشتمل تھنک ٹینک بنایا تھا جسے ’نو رتن‘ یعنی نو موتی کہا جاتا تھا۔
یہ لوگ اکبر کے خصوصی مشیر تھے۔ یہ تمام جہاندیدہ لوگ تھے، ان میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی، انہی کے مشوروں کی بدولت اکبر طویل ترین حکمرانی کر پائے اور سطنت کو بے بہا وسعت ملی۔
ان میں راجہ بیربل، ابوالفیض فیضی، ابوالفضل، تان سین، عبدالرحیم، راجہ مان سنگھ، ملا دوپیازہ، راجہ ٹوڈرمل اور مرزا عزیز کوکلتاش شامل تھے۔
جلال الدین اپنا زیادہ وقت انہی کے درمیان گزارتے، علمی گفتگو کے علاوہ شعروشاعری، ہنسی مذاق، لطیفہ بازی بھی ہوتی، یہاں تک کہ بادشاہ کو جُگتیں بھی ماری جاتیں خصوصاً راجہ بیربل اورملا دوپیازہ کچھ زیادہ ہی بے تکلف تھے لیکن بادشاہ نے کبھی برا نہیں منایا اور مسکراتے رہتے۔

شہزادوں کے غم اور وفات

ایک اچھی زندگی اور طویل ترین بادشاہت گزارنے والے بادشاہ کے آخری ایام کوئی زیادہ خوش کُن نہیں تھے۔ 
جہاں نورتنوں کی پے درپے اموات نے غمزدہ کیا، وہیں دو جوان بیٹوں کا غم بھی کلیجہ چاٹتا رہا کیونکہ شہزادہ مراد اور شہزادہ دانیال بری صحبت کا شکار ہوئے اور ان کی آنکھوں کے سامنے کثرت شراب نوشی کی وجہ سے نوجوانی ہی میں جان سے گئے جس نے انہیں نڈھال کر دیا۔
انہوں نے شہزادہ سلیم (جو مستقبل میں جہانگیر بادشاہ کہلوائے) پر خاص نظر رکھی اور انہیں بری سرگرمیوں سے روکنے کی بہت کوششیں کیں جو اس حد تک تو کامیاب رہیں کہ وہ زندہ رہے تاہم ان کی سرکشی اور کشیدہ تعلقات نے انہیں پریشان کیے رکھا۔
 مورخین کا کہنا ہے کہ بات باقاعدہ بغاوت تک بھی گئی اور اکبر بادشاہ نے انہیں عاق کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔
 ان تمام حالات نے اپنے وقت کے ایک کامیاب اور مقبول بادشاہ کوبستر سے لگا دیا۔
27  اکتوبر 1605 کو 63 سال کی عمر میں جلال الدین اکبر کے جلال کو زوال آ گیا اور وہ وفات پا گئے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں