Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رضیہ سلطانہ، مشرق کی پہلی فیمینسٹ

1211 میں التتمش نے قطب الدین کے بیٹے آرام شاہ کو تخت سے اتار اور خود بادشاہ بن گئے.۔ فوٹو کلچرل انڈیا
’عورت جب گھر میں فارغ بیٹھتی ہے تو اسے محبت سُوجھتی ہے‘ دربار میں پیش ہونے والے ’پریم کہانی‘ سے متعلق کیس پر جب ہندوستان کی واحد خاتون حکمران نے یہ الفاظ کہے اس وقت اسے معلوم نہیں تھا کہ نہ صرف جلد ہی یہ تعلق خود اس کا دامن تھامنے والا ہے بلکہ تخت و تاج کے لیے خطرہ بھی بننے والا ہے۔
اصطبل میں کام کرنے والا غلام اور وہ بھی حبشی، جب نظر میں آیا تو اس کے دل کے تار بجتے چلے گئے جسے اس نے چھپانے کی بھی زیادہ کوشش نہیں کی، اسے امیرالامرا بنا دیا گیا، بے تکلفی اتنی بڑھی کہ جب گھوڑے پر سوار ہوتی تو وہی غلام بغل میں ہاتھ ڈال کر سوار کرواتا، جس پر ترک النسل امرا جل بُھن جاتے۔
اسے احساس ہوتا بھی، لیکن یہ سب غیرارادی طور پر ہو جاتا، غلام سے دلچسپی کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ وہ خود بھی خاندان غلاماں سے تھیں۔
خاندان غلاماں حکمران کیسے بنا؟
شمس الدین التتمش، سلطان قطب الدین ایبک کے ترک غلام تھے ان کی ہونہاری اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے قطب الدین نے انہیں پہلے اپنا داماد اور پھر بہار کا صوبیدار بنایا، 1211 میں التتمش نے قطب الدین کے بیٹے آرام شاہ کو تخت سے اتار اور خود بادشاہ بن گئے.

التتمش نے رضیہ کو جب اپنا جانشیں مقرر کیا تو چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ ’عورت حکمران کیسے ہو سکتی ہے‘ فوٹو کلچرل انڈیا

انہوں نے تقریباً 35 سال حکومت کی اور رضیہ سلطانہ انہی کی بیٹی تھیں۔
پیدائش، ابتدائی زندگی
رضیہ سلطانہ 1205 میں پیدا ہوئیں، ان کے آٹھ بھائی تھے لیکن والد کے سب سے زیادہ قریب وہی تھیں کیونکہ ان کے زیادہ تر بھائی ریاست چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے جسے التتمش نے بہت پہلے محسوس کر لیا تھا۔ رضیہ رنگ و روپ کےعلاوہ بھی ہر اس ہنر سے آشنا تھیں جو حکمران بننے کے لیے ضروری ہو، یہی وجہ ہے کہ التتمش نے ان کی پرورش انہی خطوط پر کی۔ تلوار بازی، گھڑ سواری کے ساتھ ساتھ اچھی تعلیم بھی دلوائی گئی نوعمری میں پردہ بھی شروع کروا دیا گیا۔
التتمش نے انہیں اپنا جانشیں مقرر کیا تو خاندان ہی نہیں پورے ملک میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ ’عورت حکمران کیسے ہو سکتی ہے؟‘ التتمش کے انتقال کے بعد وصیت پر عمل نہیں کیا گیا اور رضیہ کے بھائی رکن الدین نے تخت پر قبضہ کر لیا۔ سب کا خیال تھا کہ رضیہ عام خاتون کی طرح رو دھو کر چپ کر جائیں گی مگر وہ ’عام‘ نہیں تھیں۔
تخت کی جانب قدم
ان کا بھائی رکن الدین حکمرانی کے لیے انتہائی نااہل ثابت ہوا، جلد ہی نامناسب سرگرمیوں میں گھر گیا۔ اس کی والدہ (رضیہ کی سوتیلی ماں) نے التتمش کی دیگر بیویوں کو قتل کروا دیا جو اعلیٰ خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں جس پر ان کے رشتہ دار حکومت کے خلاف ہو گئے، اس صورت حال کا فائدہ رضیہ کو ہوا اور وہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچانے میں کامیاب رہیں کہ اصل جانشیں وہی ہیں، ناقص طرز حکمرانی کا یہ سلسلہ صرف سات ماہ چلا اور بغاوت ہو گئی، رکن الدین کو تخت چھوڑنا پڑا۔
مزید پڑھیں
سلطانہ نہیں سلطان
چاروں طرف مچے اس شور ’عورت حکمران کیسے ہو سکتی ہے‘ کے باوجود رضیہ نے تخت سنبھال لیا۔ پہلے ہی روز وہ بغیر پردہ کے (کھلے چہرے کے ساتھ) مردوں کا لباس پہنے شان بے نیازی سے دربار میں آئیں تو سب حیران رہ گئے، کچھ کُھسر پُھسر ہونا شروع ہوئی ہی تھی  کہ ان کی بارعب آواز نے سب کو خاموش کر دیا۔
وہ خود کو سلطانہ کے بجائے سلطان کہلوانا پسند کرتیں، کہتیں ’سلطانہ کا مطلب ہے سلطان کی بیوی یعنی وہی دوسرا درجہ، جبکہ میں تو خود سلطان ہوں‘ چند روز بعد ہی کچھ سرکش گروہوں نے اس خیال کے ساتھ بغاوت کر دی کہ ایک عورت آخر کتنی مزاحمت کر لے گی لیکن رضیہ نے نہ صرف بغاوت کو کچلا بلکہ سازشوں کا سیاسی سوجھ بوجھ سے مقابلہ کیا، جس پر سب کے دلوں میں اس کا رعب تو پیدا ہو گیا تاہم ’عورت‘ والی پُرخاش دور ہو سکی نہ حبشی غلام کی قربت ہضم ہوئی۔ وہ ایک باقاعدہ سلطان کے طور پر سامنے آئیں۔ جنگ کے موقع پر جنگی لباس پہن اور تلوار بھالے لیے خود جنگ میں شریک ہوتیں، انہیں مردوں کے ساتھ بہت بہادری کے ساتھ لڑتے دیکھا گیا۔ انہوں نے تقریباً ساڑھے تین سال حکومت کی۔
محبت اور جنگ
وہ اس وقت جوان، جاذب نظر اور غیرشادی شدہ تھیں، ہندوستان ہی نہیں کئی دلوں پر بھی راج کر رہی تھیں جن میں بٹھنڈہ کا حاکم ملک التونیہ بھی شامل تھا اور نکاح کا پیغام بھی بھجوا چکا تھا تاہم رضیہ کی نظر التفات حبشی غلام جمال الدین عرف یاقوت پر تھی جب یہ قصے التونیہ تک پہنچے تو اس نے رقابت میں لاہور کے حاکم ملک اعزاز الدین کو ساتھ ملا کر رضیہ کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا دہلی کے امرا بھی ان کے ساتھ تھے۔

رضیہ خود کو سلطانہ کے بجائے سلطان کہلوانا پسند کرتیں وہ کہتی تھیں کہ ’سلطانہ کا مطلب ہے سلطان کی بیوی جبکہ میں تو خود سلطان ہوں‘ فوٹو:ٹوئٹر

رضیہ کو اطلاع ملی تو وہ جمال الدین یاقوت اور لشکر سمیت روکنے کے لیے نکل پڑیں لیکن دہلی میں انہی باغیوں نے انہیں گھیر لیا جو عورت کی حکمرانی اور غلام سے تعلق کے خلاف تھے۔ ابھی معرکہ جاری ہی تھا کہ ملک التونیہ کا لشکر بھی پہنچ گیا۔ شدید لڑائی ہوئی۔ رضیہ کے لیے وہ بڑا جاں کُن لمحہ تھا جب آنکھوں کے سامنے جمال الدین یاقوت کو مرتے دیکھا، رضیہ کو قید کر لیا گیا۔ باغیوں نے ان کے بھائی معزالدین کو بادشاہ بنا دیا۔ امکان یہی تھا کہ رضیہ کو قتل کر دیا جائے گا تاہم التونیہ نے پیشکش کی اگر وہ اس سے شادی کر لیں تو وہ جان بخشی کروا سکتا ہے۔ رضیہ نے کچھ لمحے سوچنے کے بعد ہاں کر دی۔
شادی اور جنگجویانہ فطرت
کہا جاتا ہے کہ رضیہ نے التونیہ سے شادی صرف اس لیے کی تھی کہ زندہ رہیں اور پھر سے اپنا تخت حاصل کر سکیں کچھ ہی عرصہ میں انہوں نے التونیہ کو اس بات پر قائل کر لیا کہ دہلی کے تخت کی اصل حقدار وہی ہیں، اس لیے ایک بھرپور حملہ کرنا چاہیے التونیہ چونکہ انہیں بہت پسند کرتا تھا اس لیے مان گیا، حملے کے لیے تیاری شروع کر دی گئی، جو کافی عرصہ چلی، کھکڑوں، جاٹوں اور ارد گرد کے زمینداروں کی حمایت حاصل کی گئی، لشکر تیار کیے گئے اور پھر ایک روز حملے کے لیے روانگی ہوئی، جس کی قیادت التونیہ اور رضیہ کر رہے تھے۔
معزالدین کے بہنوئی اعزازالدین بلبن لشکر سمیت مقابلے کے لیے آیا، شدید لڑائی ہوئی لیکن رضیہ اور التونیہ کو شکست ہوئی اور فرار ہو کر واپس بٹھنڈہ جانا پڑا۔
کچھ عرصہ بعد پھر منتشر فوج کو جمع کر کے ایک بار پھر دہلی پر حملہ کیا نتیجہ اب کے بھی مختلف نہ تھا، رضیہ اور التونیہ کو ایک بار پھر فرار ہونا پڑا۔
موت، مدفن
کافی گھنٹوں تک گھوڑے سرپٹ دوڑتے رہے، وہ کتھل کا علاقہ تھا، انتہائی تھک ہار چکے تھے، کچھ معمولی زخمی بھی تھے، ایک درخت کے نیچے گھوڑے روکے، وہیں سستانے کے لیے بیٹھے، بھوک سے برا حال ہو رہا تھا، وہاں سے گزرنے والے ایک شخص نے انہیں کھانے کا کچھ سامان دیا، چند گھنٹے بعد 14 اکتوبر 1240 کو اسی درخت کے نیچے سے لاشیں ملیں۔
مزید پڑھیں
موت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پیچھا کرتے ہوئے فوجیں وہاں پہنچ گئی تھیں اور دوسرا خیال یہ ہے کہ جس شخص نے کھانے کا سامان دیا تھا اسی نے بعد میں ساتھیوں سمیت آ کر قتل کر دیا تھا کیونکہ رضیہ نے بیش قیمت زیورات بھی پہن رکھے تھے۔
بعدازاں رضیہ کے بھائی نعش کو دہلی لے گئے اور ترکمانی دروازے کے پاس بلبل خانے میں دفن کر کے مقبرہ بنوایا جو آج بھی رجی سجی کی درگاہ کے نام سے موجود ہے۔
یہ تھی مشرق کی وہ پہلی فیمینسٹ، جس نے پدرشاہی معاشرے میں ہوا کے مخالف اڑنے کی کوشش کی، اڑی بھی مگر شکار ہوئی۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: