Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جودھا اکبر کی پریم کہانی میں کتنا سچ؟

جودھا بائی جو شادی کے بعد مریم الزمانی بنی (فوٹو:گوگل امیجز)
اُس کی آخری امید زہر کی وہ شیشی تھی جو ماں نے اس کی جانب بڑھاتے ہوئے سسکیوں کی زبان میں پیغام دیا تھا کہ ’اب کچھ نہیں ہو سکتا سوائے اس کے، کہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لو‘۔
وہ سخت پریشان تھی، اس کی شادی کی باتیں ہو رہی تھیں اور وہ بھی ایک مسلمان بادشاہ سے حالانکہ وہ خود ہندو تھی، اس نے جب اپنی فریاد بھرا احتجاج ماں کے سامنے رکھا تو اس کا جواب یہی ’شیشی‘ تھی۔
پھر اچانک اس نے ایک شرط رکھ دی کہ پہلے وہ بادشاہ سے خود بات کرے گی تبھی شادی کرے گی۔
بادشاہ کو پیغام ملا تو اسے سخت ناگوار گزرا، تاہم تجسس میں ملاقات کی ہامی بھر لی۔
ایک خیمے میں پردے کے پیچھے سے وہ گویا ہوئی ’مجھے ضمانت چاہیے کہ شادی کے بعد میرا مذہب تبدیل نہیں کرایا جائے گا‘۔
بادشاہ اس کی ہمت پر حیران ہوا، کچھ سوچا اور بلند آواز میں کہا ’ہمیں منظور ہے۔
بالی وڈ فلم ’جودھا اکبر‘ میں جس طرح اس منظر کو عکسبند کیا گیا، ہو سکتا ہے 100 فیصد ایسے نہ ہوا ہو لیکن تاریخی شواہد کے مطابق بادشاہ نے ہندو بیگم کے مذہب پر کبھی اعتراض نہیں کیا بلکہ فرمائش پر محل کے اندر مندر بھی بنوا کر دیا۔

بالی وڈ فلم ’جودھا اکبر‘ بادشاہ اکبر اور ان کی بیوی جودھا بائی پر بنائی گئی۔ (فوٹو:گوگل امیجز)

یہ تھیں جودھا بائی، تاریخ کی کتب میں انہیں رکماوتی، راجکماری ہیرا کنوری، ہرکھا بائی وغیرہ بھی لکھا گیا ہے جبکہ شادی کے بعد بادشاہ کی جانب سے انہیں مریم الزمانی کا نام بھی دیا گیا۔
وہ جے پور کی راجپوت ریاست آمیر کے راجہ بھارمل کی بیٹی تھیں جو یکم اکتوبر 1542 کو پیدا ہوئیں۔

جودھا کا بچپن

جودھا بائی کا بچپن کسی بھی عام راجپوت لڑکی کی طرح گزرا وہ بچپن سے ذہین تھی اور انتہائی خوبصورت بھی، بچپن میں اس کا رشتہ بھی طے کیا جا چکا تھا جو بعدازاں راجہ بھارمل کی جانب سے جلال الدین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر برادری کی جانب سے ختم کر دیا گیا، وہ تلوار بازی بھی جانتی تھی اور پڑھی لکھی بھی تھی۔

جلال الدین اکبر

جلال الدین اکبر سلطنت مغلیہ کے تیسرے بادشاہ اور ہمایوں کے بیٹے تھے، جو 1542 میں اس وقت پیدا ہوئے جب ہمایوں شیرشاہ سوری کی جانب سے سلطنت پر قبضے کے بعد عمر کوٹ ( یہ صوبہ سندھ کا ایک علاقہ ہے اُس وقت اس کا نام ’امر کوٹ‘ جو بعدازاں تبدیل کر کے عمر کوٹ کیا گیا) میں مقیم تھے تاہم شیر شاہ سوری سے سلطنت واپس لینے کے بعد جب ان کا انتقال ہوا تو جلال الدین کی عمر 14 سال تھی اور وہ بادشاہ بن گئے۔ 

جلال الدین اکبر سلطنت مغلیہ کے تیسرے بادشاہ تھے۔ (فوٹو:وکی میڈیا کامنز)

نوجوانی کے زیادہ سال جنگ و جدل میں گزرے تاہم مذہبی لحاظ سے وہ سیکولر ذہن رکھتے تھے وہ دیگر مذاہب کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے دوسرا چونکہ حکمران ہونے کے باوجود مسلمان اقلیت میں تھے اس لیے اکثریت کی جانب سے کسی محاذ آرائی کا خدشہ موجود رہتا تھا۔ انہوں نے ہندو علاقوں کو ٹیکسز میں بھی بہت چھوٹ دی تھی۔ مندر بنوانے میں ان کی مدد بھی کرتے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جودھا سے شادی ایک سیاسی ضرورت کے تحت کی تھی تاکہ ہندو ان کی حکمرانی کے لیے مسائل کھڑے نہ کریں۔
اکبر نے اپنے دربار میں ان کو بڑے بڑے عہدے بھی دیے۔ وہ ہندوؤں کی مکمل حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے لیکن ان تمام خیالات کے باوجود شادی کے بعد کے حالات یہی بتاتے ہیں کہ بھلے انہوں نے جودھا سے شادی سیاسی مصلحت یا ضرورت کے تحت ہی کی ہو لیکن بہرحال انہیں جودھا سے محبت بھی ہوئی جو مرتے دم تک قائم رہی۔

شادی کیسے ہوئی؟

ایک بار جلال الدین خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر حاضری کے لیے اجمیر گئے تو ارد گرد کے راجاؤں کو شک ہوا کہ کہیں وہ علاقے کا جائزہ ’حملے‘ کی نظر سے تو نہیں لینے آئے؟ اسی لیے آمیر کے راجہ بھارامل ان سے ملنے چلے آئے۔ جلال الدین نے کھلے دل سے استقبال کیا اور راجہ بھارمل کی سفارش پر اس کے بیٹے جگن ناتھ اور دو بھتیجوں جو جلال الدین کے بہنوئی شرف الدین کے پاس قید تھے، کو آزاد کرانے کے احکامات جاری کیے اور اس طرح دونوں کے درمیان دوستی ہو گئی، ملاقاتوں اور پیغامات کا سلسلہ چلتا رہا۔
 جلال الدین راجہ بھارمل سے بہت متاثر تھا جب کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو قریب لانے کا جو خیال اس کے ذہن میں تھا اس کے بارے میں انہیں ایک ترکیب سوجھ گئی، انہیں معلوم ہوا کہ راجہ کی بیٹی کنواری ہے اس لیے کچھ روز بعد رشتے کی خواہش ظاہر کی، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راجہ نے خود رشتہ دینے کی پیشکش کی تھی، بہرحال دونوں کا رشتہ طے ہوا اور چھ فروری 1562 کو دھوم دھام سے شادی ہوئی، اس وقت جودھا کی عمر 20 سال تھی۔
شاہی محل میں ولیمے کی بہت بڑی تقریب منعقد کی گئی جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی، جلال الدین کی والدہ حمیدہ بیگم کو بھی جودھا بہت پسند آئیں۔

انڈیا میں جودھا بائی کے محل کو دیکھنے کے لیے سیاح محل کا رخ کرتے ہیں۔ (فوٹو:وکی میڈیا کامنز)

ہندو مسلم فسادت کا خدشہ

سلطنت میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو اس رشتے سے خوش نہیں تھے ان میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی، اور دونوں کے پاس دلائل موجود تھے کہ الگ الگ مذاہب میں شادی کیسے ہو سکتی ہے، جب یہ چہ میگوئیاں بادشاہ تک پہنچیں تو انہوں نے دیوان عام میں اس پر بات کرنے اجازت دی جس پر دربار میں کئی سوال اٹھائے گئے تاہم جلال الدین نے بڑے تحمل سے ان کے جواب دیے جس سے صورت حال بہتری کی جانب آئی۔

جودھا سفید فام تھیں؟

سنہ2017 میں سامنے آنے والی ایک کتاب ’پرتگیز انڈیا اینڈ مغل ریلیشنز‘ میں دعویٰ کیا گیا کہ جودھا ہندو نہیں بلکہ مسیحی تھیں، تعلق پرتگال سے تھا یعنی سفید فام تھیں۔ مصنف لوئس ڈی آسس نے لکھا کہ جودھا کا اصل نام ڈونا ماریہ ماسکرناس تھا، انہیں ان کی بہن جولیانا کے ہمراہ بحیرہ عرب میں پکڑے جانے والے ایک جہاز سے گرفتار کیا گیا تھا جو بعدازاں گجرات کے حکمران بہادر شاہ نے جلال الدین کو تحفے میں دے دی تھیں جنہیں ڈونا اس قدر پسند آئی کہ شادی کر لی۔
اس کتاب میں مزید لکھا ہے کہ برطانوی اور مغل مورخین نے مل کر جودھا کی کہانی گھڑی کیونکہ کیتھولک فرقے والے نہیں چاہتے تھے کہ ان کی ہم مذہب مسلمانوں کے پاس رہیں جبکہ مسلمان حکمران بھی ایک فرنگی ملکہ کے متحمل نہیں تھے۔ انہوں نے لکھا کہ اکبر اور جہانگیر کی تحریروں میں بھی کہیں جودھا کا ذکر نہیں ملتا۔ ڈونا ممکنہ طور پر جہانگیر کی والدہ تھیں جن کا حوالہ مریم الزمانی، جودھا بائی یا پھر ہرکا بائی کے نام سے دیا جاتا ہے۔ مغل ریکارڈ کے مطابق جہانگیر کی والدہ کا نام کہیں بھی مریم الزمانی نہیں ملتا۔

اس پینٹنگ میں سلطنت مغلیہ کے چوتھے بادشاہ کی والدہ جودھا اکبر تھیں (فوٹو:وکی میڈیا کامنز)

ازدواجی زندگی اور وفات

دونوں کی ازدواجی زندگی خوشگوار گزری، جودھا کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنے خاندانی لباس پہننے، تلک لگانے کی مکمل آزادی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک ہی خواب گاہ میں جب بادشاہ نماز پڑھ رہے ہوتے تو عین اسی وقت جودھا ایک کونے میں بنے چھوٹے سے مندر میں بیٹھ کر بھجن گا رہی ہوتیں۔
یہ رومانوی سلسلہ تب ٹوٹا جب 1605 میں جلال الدین وفات پا گئے اور جودھا نے 1622 تک اپنی آخری سانس تک انہی کے نام کے ساتھ زندگی گزاری۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: