Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مفت مہنگے کھانے کی خواہش یا پرانک

بل نہ دینے اور نوجوان ویٹر سے بدسلوکی پر صارفین نے سزا کا مطالبہ کیا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا
سائبر دنیا باالخصوص سوشل میڈیا اور وی لاگنگ کے صارفین کے لیے جس طرح پرانک کا لفظ اجنبی نہیں رہا، ایسے ہی نوجوانوں سے خلاف معمول کام ہو جانا بھی خلاف توقع نہیں سمجھا جاتا، لیکن کبھی کبھار عمومی روش سے ہٹ کر کیے گئے کام شرمندگی کے ساتھ جگ ہنسائی کا باعث بھی بنتے ہیں۔
اسلام آباد کے ایک نجی ریستوران میں کھانے کے لیے پہنچنے والے چند دوستوں کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا۔ ریستوران کے نمائندے کی جانب سے واقعے کی تفصیل سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تو صارفین نے غم و غصہ کا اظہار کیا، ساتھ ہی ایسے رویوں کے خلاف سزائیں بھی تجویز کیں۔
سوشل میڈیا پر واقعے کی تفصیل شیئر کرنے والوں نے موقف اپنایا تھا کہ کچھ نوجوان کھانے کے لیے جناح سپر مارکیٹ کے ایک ریستوران پر پہنچے۔ کھانے کے بعد دو پہلے اٹھ گئے، دیگر دو بل دینے کے لیے آئے اور ادائیگی کے لیے کارڈ استعمال کرنا چاہا، تو وہ نہیں چلا، جس پر انہوں نے قریبی اے ٹی ایم سے نقدی لا کر دینے کا کہا۔ ریستوران نے اپنا ایک ویٹر ان کے ہمراہ بھیج دیا تا کہ وہ ان سے کیش وصول کر کے لے آئے اور انہیں ادائیگی کے لیے واپس ریستوران نہ آنا پڑے۔
حمزہ ربانی نامی فرد کے مطابق دونوں افراد اپنی گاڑی میں بیٹھے اور نوجوان ویٹر کو دھکا دے کر سڑک پر گرا دیا، وہ اس منظر کی وڈیو بھی بناتے رہے۔ ریستوران کے مطابق نوجوان ویٹر محض 19 برس کا ہے اور اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے پارٹ ٹائم ملازمت کرتا ہے۔
واقعے کی تفصیل عام ہونے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے اس عمل پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ فرح راجا نامی صارف نے معاملے کو شرمناک قرار دیتے ہوئے لکھا ’ان پر جرمانہ ہونا چاہیے اور جیل میں ڈالا جانا چاہیے، یا انہیں نوجوان کے ایک برس تک کے تعلیمی اخراجات ادا کرنے چاہئیں۔‘

تیمور بیگ نامی صارف نے لکھا کہ ’سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کے بجائے پولیس کے پاس شکایت درج کرائیں۔‘

آر سائیں بخش نامی ہینڈل نے لکھا کہ ’پولیس میں رپورٹ کرنے سمیت انہیں ہر فورم پر شرمندہ کیا جانا چاہیے۔‘

اسلام آباد پولیس نے بھی گفتگو بڑھتی دیکھ کر معاملے کا نوٹس لیا، اور ٹویٹس کرنے والوں سے پوچھا کہ کیا معاملے کی رپورٹ درج کرائی گئی ہے؟
بہت سے صارفین نے کھانے کی ادائیگی نہ کرنے اور ویٹر سے مبینہ بدسلوکی کو اکلوتا واقعہ تسلیم نہیں کیا۔ ایسے سوشل میڈیا یوزرز نے ملتے جلتے واقعات کے حوالے بھی دیے۔
ڈاکٹر سعدیہ خالد نامی ہینڈل نے سوال اٹھایا کہ ’مالدار بچے ایسے پرانک کیوں کرتے ہیں۔‘
 

سوشل میڈیا صارفین نے مبینہ پرانک یا بدسلوکی کرنے والے نوجوانوں کی شناخت کو بھی اپنی گفتگو کا حصہ بنایا تاہم ان کی جانب سے معاملے پر کوئی بات نہیں کی گئی۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: