Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’لوگ سوتے ہیں چین سے شب کو::میں ترا انتظار کرتا ہوں‘‘

’’بزمِ کامرانی‘‘ کا اہتمام ،’’کامرانی ہائوس ‘‘ مقام، شاعر ساغر صدیقی کی یاد میں شام

***ادب ڈیسک: الخبر***

مشاعرے ہماری تہذیب کا حصہ ہیں۔ ان کے ذریعے نہ صرف زبان و ادب کی ترویج ہوتی ہے بلکہ ہم اپنے مشاہیر کی خدمات کاذکر کر کے نئی نسل کو ماضی سے روشناس کراتے ہیں۔ مشاعروں کے انعقاد میں ادبی تنظیموں کا بنیادی کردار ہے ۔ سعودی عرب کا منطقہ شرقیہ اردو ادب کے لحاظ سے ایک زرخیز خطہ ہے ۔نئے موسم کی آمد ہے۔ خزاں کا موسم اپنی تمام ترحشرسامانیاں سمیٹ کر رخصت ہو رہا ہے۔ پرانے خزاں رسیدہ پتے جھڑ رہے ہیں اور اُن کی جگہ نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں۔ گویا بہار کی آمد کامژدہ سنائی دے رہا ہے۔ موسم کی اِس تبدیلی کو تازہ ہوا کا معطر جھونکا ہی کہا جا سکتا ہے۔ ایسے دلفریب اور سحرانگیز موسم میں منطقہ شرقیہ کی ادبی تنظیم ’’بزمِ کامرانی‘‘ نے عظیم شاعر ساغر صدیقی کی یاد میں’’ کامرانی ہائوس‘‘ دمام میں ایک شاندار محفلِ مشاعرہ کا اہتمام کیا ۔ محفل کی صدارت کہنہ مشق شاعر و ادیب، مزاح نگار، منطقہ شرقیہ کے سینیئرشاعر تنویر احمد تنویر نے کی ۔ نشست 2حصوں پر مشتمل تھی۔ پہلے حصے میں ساغر صدیقی کے فن اور شخصیت پر روشنی ڈالی گئی۔ دوسرے حصے میں یادگار محفلِ مشاعرہ بپا کی گئی ۔ پہلے حصے کی نظامت شاعر و افسانہ نگار مسعود جمال نے جبکہ دوسرے حصے کی نظامت بزمِ کامرانی کی روحِ رواں ،شاعرہ و سفرنامہ نگار’’ غزالہ کامرانی‘‘ نے کی۔ محفل کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا جس کی سعادت محمد رفیق آکولوی نے حاصل کی۔ اس کے بعد غزالہ کامرانی نے نعت طیبہ پیش کی۔ بعدازاں مسعود جمال نے ساغر صدیقی کے حوالے سے بات کرئے ہوئے کہا کہ لاہور کی سڑکیں ہی ساغر کا ٹھکا نہ تھیں۔ اُن کے بدن پر ایک کالی چادر اور اس چادر کے نیچے پیوند لگا لباس ہوتا تھا۔ وقت نے ان کے لباس پر ہی نہیں ،روح پر بھی متعدد پیوند لگا دئیے۔ محمدایوب صابر نے کہا کہ اگر کوئی ساغر کو فٹ پاتھ پر لیٹے دیکھ کر بھکاری سمجھتا اور اُ ن کی مدد کرتا تو وہ اُسے کہتے’’ میں فقیرہوں ،بھکاری نہیں‘‘۔ یہ لازوال شاعر 19جولائی 1974ء کی صبح مال روڈ پر ایک دُکان کے قریب مردہ پائے گئے۔ صدرِ مجلس تنویر احمد تنویر نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ساغر صدیقی کو اُن کی زندگی میں وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ حقدار تھے ۔ ایک موقع پر جب صدرِ پاکستان محمدایوب خان نے ساغر صدیقی سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو ساغر صدیقی نے یہ کہہ کر ملاقات سے انکار کر دیا کہ’’بابا ہم فقیروں کا صدر سے کیا کام ہے۔‘‘ دوسری نشست شعری تھی جس میں شعراء کی جانب سے خوبصورت اشعار پیش کئے گئے۔ نمونۂ کلام قارئین کے ادبی ذوق کی نذر:

٭٭غزالہ کامرانی:

*اب تو پیروں تلے زمیں بھی نہیں

*سر پہ کیا آسمان ہے پیارے

٭٭مسعود جمال :

*یاد آتی رہی رات بھر چاندنی

*دل جلاتی رہی رات بھر چاندنی

*ہم تڑپتے رہے اور سسکتے رہے

*مسکراتی رہی رات بھر چاندنی

٭٭عبداللہ عامر:

*تیرہ تیرہ ان کی دنیا

*اپنی دنیا چاند ستارے

*جیت کی بازی جو کوئی کھیلے

*ہار کے جیتے، جیت کے ہارے

٭٭ محمدسلیم حسرت :

*وہی ہم نگاہِ کرم چاہتے ہیں

*صلہ جو محبت کا ہم چاہتے ہیں

*جو صحرائے بنجر کو کر دے گلستاں

*الٰہی وہ ابرِکرم چاہتے ہیں

٭٭ضیاء الرحمن صدیقی :

*آرزوئے بہار کرتا ہوں

*چشم ِترباربار کرتا ہوں

*لوگ سوتے ہیں چین سے شب کو

*میں ترا انتظار کرتا ہوں

٭٭محمدرفیق آکولوی:

*لوگ کہتے ہیں اِسے دورِ ترقی لیکن

*یاں تو انساں نے مچائی ہے تباہی کیا کیا

*پھر گلے مل کے مری پیٹھ میں خنجر گونپا

*دوستی تُونے مرے یار نباہی کیا کیا

خالد صدیقی

- - - - - - -

بیاں کیا حال کروں اپنا لفظ کی صورت

گزر رہے ہیں شب و روز ایک ہی صورت

بتائیں کیا تمہیں کیسا سکون ملتا تھا

 جو دیکھ پاتے تھے اُ س کی کبھی کبھی صورت

 افضل خان

- - - - - - -

خوشبو لئے آتا ہے تری جھونکا ہوا کا

مفہوم بدل جاتا ہے موسم کی ادا کا

شاید کبھی گزرے وہ اِسی راہ گزر سے

 ہر باب کھلا رکھا ہے اِس شہرِوفا کا

 محمدایوب صابر

- - - - - -

 دن رات کے ملال کو سانچے میں ڈھال کر

 آیا ہوں ماہ و سال کو سانچے میں ڈھال کر

 مٹی مرے بدن کی یوں مخمور ہو گئی

اک چاک پر سفال کو سانچے میں ڈھال کر

حکیم اسلم قمر

- - - - - - -

عجیب صورتِ حالات ہو گئی پیارے

 ذرا سی بات، بڑی بات ہو گئی پیارے

 نہ تیری یاد ہی بھولی، نہ تیرگی ہی چَھٹی

ہم نبھاتے ہوئے تعلق کو

 ٹوٹ جائیں تو کیا تماشہ ہو

شیئر: