پاکستان کے بیشتر علاقوں میں مون سون کی طوفانی بارشیں جاری ہیں، خصوصاً بالائی خیبر پختونخوا، خطہ پوٹھوہار یعنی راولپنڈی، اسلام آباد، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں یہ بارشیں شدید تباہی کا سبب بنی ہیں، جن کے نتیجے میں اب تک 300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
یہ مون سون کی بارشیں ہیں جو عموماً جولائی اور اگست کے مہینے میں ہوتی ہیں اور کبھی کبھار یہ سلسلہ ستمبر کے مہینے میں بھی جاری رہتا ہے۔
مزید پڑھیں
اردو نیوز نے رواں مون سون کی بارشوں کے حوالے سے جاننے کے لیے محکمہ موسمیات سے یہ دریافت کیا کہ مون سون کی بارشوں کا یہ سپیل کب تک جاری رہے گا، اس کے بعد مزید کتنے سپیل رہ جائیں گے، اور بارشوں کا یہ سلسلہ کب ختم ہوگا یا ستمبر تک جائے گا؟
محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر فارکاسٹنگ عرفان ورک نے مون سون کے اس وقت جاری سپیل کے بارے میں بتایا کہ ’یہ سپیل پنجاب کے بالائی علاقوں، بالائی خیبر پختونخوا، راولپنڈی، اسلام آباد، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں 20 سے 21 اگست تک جاری رہ سکتا ہے۔‘
لیکن انہوں نے یہ واضح کیا کہ اس دوران لگاتار بارشیں نہیں ہوں گی بلکہ وقفے وقفے سے موسلادھار بارشیں ہوں گی۔ جیسا کہ آج رات بارشیں ہوں گی جبکہ کل دن میں بارش کا امکان نہیں، لیکن کل رات اور اگلی صبح دوبارہ موسلادھار بارشیں متوقع ہیں۔
اسی پیٹرن کے تحت 18، 19 اور 20 یا پھر 21 اگست تک وقفے وقفے سے ان علاقوں میں مون سون بارشوں کا یہ سپیل جاری رہے گا۔
عرفان ورک نے مزید بتایا کہ ’موجودہ سپیل 21 اگست تک جاری رہ سکتا ہے، اس کے بعد دو دن تک موسم صاف رہے گا، جبکہ اگست کے آخری ہفتے میں مون سون کی بارشوں کا ایک اور سپیل آنے کا امکان ہے۔‘
اس سوال پر کہ مون سون بارشوں کا سلسلہ شروع کب ہوتا ہے اور یہ کب تک رہتا ہے؟ محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر فارکاسٹنگ کا کہنا تھا کہ ’مون سون کی بارشیں عموماً جولائی، اگست اور پھر ستمبر کے وسط تک جاری رہتی ہیں، جبکہ بعض اوقات یہ ستمبر کے آخری ہفتے تک بھی جاری رہ سکتی ہیں۔‘
عرفان ورک کے مطابق رواں برس کی مون سون بارشیں بھی ممکنہ طور پر 15 ستمبر تک جاری رہیں گی، تاہم بعض اوقات یہ ستمبر کے پورے مہینے میں بھی جاری رہ سکتی ہیں، لیکن اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں۔ البتہ موجودہ اندازے کے مطابق اگست کا آخری ہفتہ اور پھر ستمبر کے وسط تک بارشوں کے امکانات موجود ہیں۔
انہوں سے ان بارشوں کی پیش گوئی کے حوالے سے کہا کہ محکمہ موسمیات پیشگی ایسی طوفانی بارشوں کی پیش گوئی کرتا ہے اور احتیاطی تدابیر کے لیے گائیڈ لائنز بھی جاری کرتا ہے۔
اس حوالے سے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے بھی ایک الرٹ جاری کیا ہے، جس کے مطابق ملک بھر میں بارشوں کا سلسلہ 21 اگست تک جاری رہ سکتا ہے۔ اس لیے تمام متعلقہ اداروں، جن میں پی ڈی ایم ایز اور مقامی حکومتیں شامل ہیں، کو پیشگی انتظامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے فوری طور پر نمٹا جا سکے۔
این ڈی ایم اے نے سیاحوں سے درخواست کی ہے کہ وہ ملک کے بالائی علاقوں، شمالی علاقہ جات، پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان جانے سے فی الحال اجتناب کریں۔
اردو نیوز نے اس کے بعد پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کا وسیع تجربہ رکھنے والی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھی ماحولیاتی امور پر کام کرنے والی نورین حیدر سے رابطہ کیا، تاکہ خیبر پختونخوا اور ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والی بارشوں کی وجوہات اور اثرات کو سمجھا جا سکے۔
انہوں نے سب سے پہلے یہ واضح کیا کہ ’خیبر پختونخوا میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہونے والی تباہ کن بارشوں کے حوالے سے یہ عام تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ تمام کلاؤڈ برسٹ ہیں، لیکن کلاؤڈ برسٹ کی تعریف یہ ہے کہ ایک محدود علاقے میں بہت زیادہ بارش ہو اور اس دوران اردگرد کے علاقوں میں بارش نہ ہو۔ چونکہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں بارشیں ملک کے بیشتر علاقوں میں ہوئی ہیں، اس لیے انہیں مکمل طور پر کلاؤڈ برسٹ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ انہوں نے بالائی علاقوں میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کی وجہ ’فلیش فلڈنگ‘ کو قرار دیا، یعنی پہاڑوں سے اچانک پانی کا بہاؤ آنا۔‘
’الرٹ کے باوجود اکثر معلومات متعلقہ اداروں تک نہیں پہنچتیں‘
نورین حیدر نے 24 سے زائد گھنٹوں میں 300 سے زیادہ ہلاکتوں کے حوالے سے کہا کہ پاکستان میں مون سون بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی سب سے بڑی وجہ ارلی وارننگ سسٹم کا نہ ہونا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ’اگر کسی علاقے میں فلیش فلڈنگ یا کلاؤڈ برسٹ کا خطرہ ہو تو اس کی پیش گوئی ممکن ہے، لیکن محکمہ موسمیات یا این ڈی ایم اے کی جانب سے الرٹ جاری ہونے کے باوجود اکثر یہ معلومات متعلقہ اداروں یا مقامی آبادی تک بروقت نہیں پہنچتیں اور صرف ویب سائٹ تک محدود رہتی ہیں۔‘
نورین حیدر کا کہنا تھا کہ ’خطرے والے علاقوں میں الارم سسٹم، مساجد کے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اعلانات، یا مقامی انتظامیہ کے افسروں کی موجودگی ضروری ہے، تاکہ لوگوں کو بروقت خبردار کیا جا سکے۔‘
ان کے مطابق اگر ارلی وارننگ سسٹم پاکستان میں فعال ہو تو سینکڑوں جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
انہوں نے ایک اور اہم نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’زیادہ تر ہلاکتیں دریاؤں یا ندی نالوں کے کنارے ہوتی ہیں۔ پاکستان میں اکثر سیاحتی مقامات پر دریاؤں کے کنارے غیرقانونی اور کچے مکانات اور کاروبار قائم ہوتے ہیں، جنہیں سیلاب اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے اور اس میں کئی معصوم جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔‘