Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماسک بھی نقاب ہے؟ خواتین کیا کہتی ہیں

’اس ملک میں بے باک مناظر دکھائی دینے کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے جس نے مسلمان عورتوں کے برقعے اور نقاب پہننے پر پابندی لگائی تھی۔‘
یہ ٹویٹ امریکی فوٹوگرافر ولیم ورسیٹی نے چہرے کے ماسکس کی ان تصاویر کے ردعمل میں کیا جو فروری میں پیرس فیشن ویک میں جگہ جگہ نظر آتے رہے۔
کچھ ہفتوں کے بعد عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کووڈ 19 یعنی کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دیا گیا اور ماسکس ایک انوکھی شناخت رکھنے کے بجائے ہر کسی کی ضرورت بن گئے، حتیٰ کہ ان ممالک میں بھی جہاں مذہبی طور پر چہرہ ڈھانپنے پر پابندی تھی۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے مضمون میں حفصہ لودی نے اسی تناظر میں بحث کی ہے۔ 
وہ لکھتی ہیں کہ یہ دوہرا معیار خیرہ کن ہے۔ جب میڈیکل ماسکس دوسرے نقابوں سے ہٹ کر کچھ کام دیتے ہیں تو ضروری قرار پاتے ہیں حالانکہ چہرے کا کچھ خاص ہی ڈھانپا جاتا ہے اسی قسم کے کپڑے یا پھر کسی اور چیز سے۔

مسلمان خواتین کی اکثریت چہروں کو نہیں ڈھانپتی لیکن دنیا بھر میں شائستہ یا باحیا فیشن کے مشہور ہونے کے بعد ایسی تحریک بھی چلی کہ نہ صرف حجاب بلکہ نقاب کو بھی ان منفی تصورات سے پاک کیا جائے جو اس بارے میں موجود رہے ہیں۔
انسٹاگرام پر نقاب پہننے والی مشہور شخصیات لندن، کینیڈا، امریکہ، پاکستان، امارات اور دوسرے مقامات پرموجود ہیں۔
دس لاکھ سے زیادہ فالوورز رکھنے والی سعودی عرب کی ایمی روکو ان میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں چلنے والی تحریک بینیفٹ مڈل ایسٹ میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ شخصیات مشرق وسطیٰ میں ثقافتی تانے بانے کا حصہ بن سکتی ہیں تاہم بیلجیئم، آسٹریا، ڈنمارک اور نیدرلینڈز ایسے ممالک ہیں جنہوں نے چہرہ ڈھانپنے کو غیرقانونی قرار دے رکھا ہے جبکہ مراکش اور کینیڈا کا صوبہ مونٹریال بھی ان میں شامل ہیں۔
ان پر سکیورٹی اور شناخت کے حوالے سے تحفظات کے باعث کچھ مقامات  اور مخصوص عمارات میں جانے پر پابندی ہے جبکہ دوسرے ممالک میں یہ پابندی ہرعوامی مقام تک ہے۔
چاہے مسلمان خواتین ان ممالک نہ رہتی ہوں جہاں نقاب پر پابندی ہے پھر بھی چہرہ ڈھانپنے پر انہیں تعصب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مدینہ سے تعلق رکھنے والی طالبہ مرجان علی کو ٹیکسس میں ’واپس جاؤ جہاں سے آئی ہو‘ جیسی آوازیں سننا پڑیں جب وہ ایک میلے میں گئیں۔
فرانس میں جہاز سے اترتے ہی انہیں نہ صرف نقاب بلکہ حجاب اتارنے کا بھی کہا گیا کیونکہ وہاں یہ قانونی طور پر ممنوع ہیں۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا: ’جب میں نے ان کو بڑے تحمل سے کہا کہ میں نے قانون پڑھا ہے جس میں صرف چہرہ ڈھانپنے پر پابندی ہے سر نہیں، اس کا چہرہ سرخ ہو گیا اور اس نے مجھے جانے دیا، جتنا وقت میں وہاں تھی، گلیوں میں چلنے سے لے کر اس گاؤں تک جہاں میں نے ٹھہرنا تھا، میں کھلے چہرے کے ساتھ رہی۔ جبکہ اردگرد سے گزرنے والے لوگوں نے سردی سے بچنے کے لیے چہرے کے گرد چادریں لپیٹ رکھی تھیں، حالات کی ستم ظریقی کہ میں آنکھ بچا کے نہ نکل پائی۔‘

دبئی کی رہائشی نادیہ شفیق جو 12 سال سے نقاب پہن رہی ہیں، بیرون ملک کا سفر کرنے سے خوفزدہ ہیں حتیٰ کہ خاندان والوں کی طرف جانے سے بھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے کبھی مغربی ممالک کا سفر نہیں کیا، اگرچہ میرا بھائی یو کے میں ہوتا ہے۔ میں ابھی تک اتنا حوصلہ جمع نہیں کر پائی کہ اس کی طرف جا سکوں۔ میرے پاس بچے ہیں اور یہ میری ذمہ داری ہے کہ ان کو کسی بھی تشدد یا منفی بات سے بچاؤں۔‘
مگر اب جب چہرے کو ڈھانپنا معمول بن گیا ہے کچھ نقاب پہننے والی خواتین پرامید ہیں  کہ اب برقعے کے خلاف مزاحمت کم ہو سکتی ہے۔
نادیہ شفیق نے کہا کہ مخالفین کو اپنے نقطہ نظر اور خیالات پر نظرثانی کرنی چاہیے، مجھے امید ہے کہ لوگ نقاب والی خواتین سے برتاؤ کے بارے میں ضرور سوچیں گے۔

پاکستان سے تعلق رکھنے اور نقاب پہننے والی سارہ وزیر نے عرب نیوز کو بتایا: ’میرے خیال میں یہ ہر ایک کو موقع دیتا ہے کہ وہ ایک بار ہماری طرح اس کا تجربہ ایک ’معمول‘ کے طور پر کرے اور ایک ضرورت کے طور پر بھی جب کبھی بھی آپ باہر نکلیں۔‘
مرجان علی کہتی ہیں کہ ایسے تمام دلائل جھوٹے ہیں جو نقاب کو باہمی میل جول یا بات چیت میں رکاوٹ اور منفی ماحول کے طور دیے جاتے رہے ہیں۔
’جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں نقاب ہونے کے باوجود ہر کوئی مکمل طور پر دوسروں سے بات چیت کر سکتا ہے۔‘
نسیمہ بیگم اسی لندن میں مقیم ہیں جہاں وزیر اعظم بورس جانسن نے برقع پہننے والی مسلمان خواتین کے لیے نامناسب ’لیٹر بکسز‘ کا لفظ استعمال کیا اور چھپے چہرے کے ساتھ روزمرہ کاموں کی انجام دہی کی طرف اشارہ کیا۔
نسیمہ بیگم نے عرب نیوز کو بتایا:’اگر اس وقت میں لوگ ماسک پہن یا چہرہ چھپا کر عام امور انجام دے رہے ہیں جیسے شاپنگ، بینکوں کا کام اور پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال، ہم مسلمان کیوں اپنے مذہب کے مطابق حجاب یا پردہ کیوں استعمال نہیں کر سکتیں۔‘
نقاب کے خلاف سکیورٹی خدشات کے بارے میں احکامات پر علی کا کہنا ہے کہ نقاب استعمال کرنے والی خواتین معاشرے کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں۔
’ہم بینکوں، ایئرپورٹس یا پھر کسی بھی دوسرے مقام پر شناخت کے لیے خوشی سے نقاب اتار سکتے ہیں۔‘
کسی اور کے حقوق پر ضرب کے بجائے نقاب کے خلاف تعصب سے لگتا ہے کہ اس سے ان خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

کویت سے تعلق رکھنے والی صغریٰ اقبال نے امریکی اداروں کی جانب سے ممانعت کے بعد نقاب استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا: ’مجھ سے کئی بار پوچھا گیا کہ کیا میں اسے ہٹانا چاہتی ہوں، یونیورسٹی اور انٹرنشپ کے لیے جانا مشکل ہو گیا۔‘
’مجھے امید ہے کہ لوگ ہم کو آزاد عورت کے طور پر دیکھیں گے ایسی مظلوم عورت کے طور پر نہیں جسے نجات دہندہ کی ضرورت ہو۔ شاید آنے والے وقت میں ایسا ہو کہ ہمارے پہناوے ہماری تعلیم، ملازمت اور دوسرے مواقع کی راہ رکاوٹ نہ بنیں۔‘
نسیمہ بیگم نے کہا کہ وہ دوستوں کے ساتھ دوپہرکے وقت چائے کے لیے رٹز نہیں جا سکتیں کیونکہ نقاب والی خواتین کو ہوٹل اور ریستوران میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔
’بھئی دی رٹز وسطی لندن کے دل میں واقع ہے جہاں عربوں کی اکثریت ہے، وہاں پردہ کرنے والیوں کو نہیں جانے دیا جاتا۔‘

حالات ٹھیک ہونے پر ایک بار پھر کھل جائے تو عین ممکن ہے کہ دی رٹز جیسے مقامات پر ماسک کو لازمی قرار دیا جائے اور صرف انہی کو اندر جانے کی اجازت دی جائے جنہوں نے میڈیکل ماسک پہن رکھے ہوں۔
اس طرح یہ بات منطقی معلوم ہوتی ہے کہ جن خواتین نے نقاب سے ناک اور منہ ڈھانپ رکھے ہوں ان کو بھی اندر جانے کی اجازت ہو گی۔
ایک معاشرے کے طور پر ہم چھپے ہوئے چہرے کو دیکھ کر غیرحساس ہو سکتے ہیں لیکن کیا میڈیکل ماسک کے معمول میں شامل ہونے سے مذہبی تعصب کم ہونے میں مدد ملے گی؟
’جب میں اس کے جواب میں ہاں کہتا ہوں تو مجھے نہیں لگتا کہ یہی معاملہ ہو گا‘
مذہبی سکالر، پروفیسر اور ’پایوس فیشن، ہاؤ مسلم وومن ڈریس‘ کے مصنف لز بکار نے عرب نیوز کو بتایا: ’مغرب میں چہرے کے پردے پر پابندی صنفی اسلاموفوبیا رہا ہے۔ یہ صرف چہرہ ڈھانپنے سے متعلق نہیں ہے میرے خیال میں زیادہ تر غیر مسلم اس ربط کو شاید نہ جان سکیں کہ مذہبی یا صحت عامہ کے لیے چہرہ ڈھانپنے کا انحصار افکار پر ہے، یہ اجتماعی بہتری سے متعلق ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اور یہ دونوں چیزیں اخلاقیات سے ہی عبارت ہیں چاہے ایک دوسرے سے مختلف ہی ہوں۔ کم از کم یہی وہ کنکشن ہے جسے وہ مذہبی شائستگی کے بارے میں مزید جانے بغیر نہیں پا سکیں گے۔‘

شیئر: