Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غلط کون ہے آپ یا وہ؟ عامر خاکوانی کا کالم

شعبہ کوئی بھی ہو آگے بڑھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے (فوٹو: فری پک)
یہ بات ہم میں سے بہت سوں کو ستاتی ہے کہ آپ درست سمت میں، درست انداز سے محنت کر رہے ہیں مگر اس کے رزلٹ سامنے نہیں آ رہے جبکہ ہمارے سامنے کوئی دوسرا جو ہم سے جونیئر اور صلاحیتوں وغیرہ کے حساب سے خاصا کمتر اور پیچھے تھا وہ چالاکیوں، جوڑ توڑ اور کسی نہ کسی طرح تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ تب کئی بار تاسف سا ہوتا ہے اور ایک چمک کی طرح خیال کی لہر آتی ہے کہ کہیں ہم ہی تو غلط نہیں۔
مجھے اس حساب سے ایک واقعہ یاد آ گیا، کئی برس پرانی بات ہے۔ لاہور کے ایک اخبار میں کام کر تا تھا۔ ایک دن ریسپشن سے فون آیا کہ ایک صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں، انہیں ویٹنگ روم میں بٹھا دیا ہے۔ میں نیچے پہنچا تو ایک 45، 50 سالہ سمارٹ سا شخص بیٹھا تھا، خوش رنگ ٹائی لگائے۔
چہرے سے متانت جھلک رہی تھی۔ دفتر کے ویٹنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا،’یہ صاحب معلوم نہیں کیا ایسی ضروری بات کہنے آئے ہیں، لباس اور وضع قطع سے تو یہ لینے والے نہیں بلکہ دینے والے محسوس ہو رہے ہیں۔خیر جو بھی بات ہے، چند لمحوں میں سامنے آ ہی جائے گی۔‘
عام طور پر اخبار نویسوں خصوصاً کالم نگاروں کو اصرار کر کے ملنے والے لوگ دو تین اقسام کے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو ان کی تحریروں یا رپورٹنگ وغیرہ کے مداح ہوتے ہیں۔ وہ مل کر اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔
دوسری قسم ان ضرورت مندوں کی ہے جو اپنی خراب معاشی حالت کے باعث مالی مدد کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے مل کر یا ان کے مسائل کے بارے میں جان کر بہت دکھ ہوتا ہے، مگر ہم بے بس ہوتے ہیں۔

زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ کالم نگار جو بھی لکھ دے فوراً نوٹس لے لیا جاتا ہے (فوٹو: دی سنڈے نیوز)

تیسری قسم میں وہ لوگ آتے ہیں جو اپنا احتجاج اور غصہ ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔ ملاقات، ای میل، ٹیکسٹ میسج اور فون وغیرہ کے ذریعے وہ حکومتی نااہلی، کسی خاص ایشو میں کمزور قومی پالیسی یا اپنے ساتھ ہونے والے کسی زیادتی کا شکوہ کرتے ہیں۔ انہیں غالباً یہ خوش گمانی رہتی ہے کہ کالم نگاروں کے لکھے ہر لفظ کا کہیں نہ کہیں نوٹس لیا جاتا ہے اور ایک بار کسی نے کچھ لکھ دیا تو فوراً کارروائی ہو جائے گی۔ ان کی یہ خوش فہمی بھی جلد ہی ہوا ہو جاتی ہے۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، بات ان صاحب کی ہو رہی تھی۔ وہ میرے کالم پڑھا کرتے اور انہیں میرے بعض موٹیویشنل کالم پسند آئے تھے۔ وہ مجھے اپنی کہانی سنانے آئے تھے۔
نام بتانے کے بجائے انہیں صرف ڈاکٹر صاحب کہنا مناسب رہے گا کہ وہ سپیشلسٹ ڈاکٹر تھے۔
وہ بتانے لگے، ’میرا تعلق جنوبی پنجاب کے ایک چھوٹے شہر سے ہے۔ لوئر مڈل کلاس بلکہ لوئر کلاس کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں اندازہ ہو گیا کہ اپنی تقدیر بدلنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ نامساعد حالات کے باوجود تعلیم پر بھرپور توجہ دی۔ ٹیوشن پڑھنے کے لیے پیسے نہیں تھے، اس کی کمی دوستوں سے نوٹس مانگ کر اور لیکچرز دھیان سے سن کر پوری کی۔ ایم بی بی ایس کے دوران مالی مسائل خاصے درپیش رہے۔‘
’فیس تو خیر نیک دل پرنسپل کی مہربانی سے معاف ہو گئی، مگر ظاہر ہے رہنے اور کھانے پینے کے اخراجات بھی تھے۔ مجبوراً میڈیکل کی اتنی سخت تعلیم کے باوجود مجھے ٹیوشنز پڑھانی پڑیں۔ اس دوران بار بار یہ احساس ہوتا رہا کہ زندگی میں پیسہ کس قدر ضروری ہے۔ ایم بی بی ایس کے بعد ہاؤس جاب کا بھی تلخ تجربہ رہا۔ سینیئر ڈاکٹرز کے چہیتے ہاؤس آفیسرز کو ریلیکسڈ ڈیوٹیاں ملتیں اور ہم جیسے بے وسیلہ نوجوان چوبیس چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹیاں دیتے۔‘

آگے بڑھنے کے مواقع نہ ملنے پر اکثر لوگ ناپسندیدہ راستوں پر بھی چل نکلتے ہیں (فوٹو: آتھنٹک پوسٹ)

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’دوران تعلیم ہم سمجھتے تھے کہ ایک شاندار مستقبل ہمارا منتظر ہے۔ باہر آتے ہی اندازہ ہوا کہ وہ سب ہماری خوش گمانی تھی۔ہسپتال تو دور کی بات ہے، کلینک کھولنے کے لیے بھی لاکھوں درکار تھے۔ نجی شعبے میں استحصال جاری تھا۔ ریگولر ملازمت پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کے ذریعے ملتی تھی، جو کئی برسوں سے التوا کا شکار تھے۔ کنٹریکٹ ملازمتیں ہی بچی تھیں، وہ بھی دوردراز کے دیہات میں۔ کنسلٹنٹ بننے کے لیے کئی سال کسی ٹیچنگ ہسپتال میں گزارنے لازمی تھے، جہاں بغیر سفارش کے صرف اعزازی ملازمت ہی مل سکتی تھی۔‘
’میرے جیسا بندہ اتنا عرصہ کس طرح گزار پاتا۔ مجبوراً میں نے اپنے آبائی شہر کے ایک بیسک ہیلتھ یونٹ میں جاب حاصل کر لی۔ اپنے محلے میں ایک دکان کرائے پر لے کر جز وقتی کلینک بھی شروع کیا۔ کچھ ہی عرصے میں اندازہ ہو گیا کہ یوں کام نہیں چلے گا۔تلخی اس قدر بڑھی کہ میرا ایمان داری، نیکی، اصول پسندی وغیرہ سے ایمان ہی اٹھ گیا۔ یوں لگتا کہ یہ سب ڈھونگ اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کا ایک بہانہ ہی ہے۔‘

’قدرت کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتی، محنت کا صلہ ضرور ملتا ہے۔‘ (فوٹو: ڈیوائن گفٹس)

ان کے مطابق ’پھر ایک روز ایک عزیز کے توسط سے ایک سینیئر ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بڑی صاف گوئی سے کہا کہ میاں اس طرح تو بھوکوں مرو گے۔ کمانا ہے تو پھر پیشہ ورانہ اخلاقیات کو بھولنا ہوگا۔ انہوں نے مجھے ایک غیر معروف دوائیوں کی کمپنی کا بتایا اور کہا کہ ان سے بات کر لو۔ ان کے مختلف پیکیجز ہیں۔ اے سی سے لے کر گاڑی تک، ان کی دوائیاں فروخت کرا دو، پیکیج فوری مل جائے گا۔ پھر انہوں نے دھیرے سے بتایا کہ دوائیوں کی مینوفیکچرنگ خود بھی کرائی جا سکتی ہے، فیک ملٹی وٹامنز بنائے جائیں، جو نقصان دہ بھی نہیں ہوں گے اور ان کی فروخت سے 100 فیصد آمدنی ڈاکٹر کو ملے گی۔ وہ صاحب تو یہ انکشافات کر کے چلتے بنے۔‘
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ‘میں اگلے چند دنوں تک سوچتا رہا۔ ایک روز اس فیصلے پر پہنچا کہ جیسا دیس ویسا بھیس۔ ہمارے ملک میں جیسا چلن ہے ویسا ہی کرنا پڑے گا۔ عین اس وقت جب میں جعلی دوائیوں کے اس نیٹ ورک میں انوالو ہونے لگا تھا،اچانک ہی معجزانہ طور پر میرے نام ایک خط آیا، جس نے سب کچھ بدل دیا۔ کچھ عرصہ قبل بیرون ملک ڈاکٹروں کا اشتہار پڑھ کر اپلائی کیا تھا۔ اس لیٹر میں مجھے بتایا گیا کہ سلیکشن ہو گئی ہے اور فوری طور پر روانہ ہونا ہے۔‘
ان کے مطابق اگلے چند برس میری زندگی میں نئے مسرت انگیز رنگ لے کر آئے۔ بیرون ملک کام کر کے محنت تو کرنا پڑی مگر جتنی تنخواہ مل گئی، اتنے کا میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ تین چار برس رہنے کے بعد امریکہ جانے کا موقع مل گیا۔ امریکہ میں ڈاکٹری کرنے کے لیے لازمی USMLEامتحان پہلے ہی پاس کر چکا تھا۔ امریکہ میں بھی بہت اچھی ریزیڈنسی مل گئی۔ وہاں اپنا کلینک بھی بنا لیا۔ ایک پاکستانی فیملی کی ڈاکٹر لڑکی سے شادی ہوگئی۔ زندگی اس قدر سہل، خوبصورت اور شاندار ہو گئی، جس کا چند سال پہلے تصور بھی نہیں کیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دوران ملازمت سب کا خیال ہوتا ہے کہ ایک شاندار مستقبل ہمارا منتظر ہے (فوٹو: الرجل)

انہوں نے کہا کہ میرا سال دو سال بعد پاکستان چکر لگتا ہے۔ اس بار میں آبائی گھر گیا تو وہی ڈاکٹر صاحب ملے، جنہوں نے مجھے جعلی ملٹی وٹامنز بنانے کا مشورہ دیا تھا۔ انہیں دیکھ کر حیرت ہوئی۔ یوں لگا کہ چند ہی برسوں میں ان پر نصف صدی بیت گئی۔ پتہ چلا کہ پے درپے ایسے سانحات سے گزرنا پڑا کہ وہ یک لخت ہی بوڑھے ہو گئے۔ اس روز مجھے بڑی شدت سے احساس ہوا کہ مجھ پر قدرت نے کتنی بڑی مہربانی کی اور عین اس وقت جب میں برائی کی دلدل میں دھنسنے والا تھا، مجھے کسی غیبی قوت نے ہاتھ پکڑ کر باہر نکال لیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ میڈیکل کالج کے دنوں میں چند دوستوں کے ساتھ ایک سینیئر اور نیک نام ڈاکٹر سے ملنے گیا تھا۔ ان سے میں نے بڑی تلخی سے سوال کیا تھا کہ آخر قدرت میرے جیسے لوگوں کے ساتھ ناانصافی کیوں کرتی ہے؟ مجھے آج بھی اس مہربان صورت پروفیسر کا جواب یاد ہے۔
بڑی نرمی سے انہوں نے کہا’ بیٹا یاد رکھو، صلہ دو طرح سے ملتا ہے، نقد یا پھر تھوڑا دیر سے مگر فراواں۔ قدرت کسی سے ناانصافی نہیں کرتی، اگر آدمی دیانت داری اور محنت کا شعار بنائے رکھتا ہے تو اسے اپنا حق ضرور ملتا ہے۔ دیر اگر ہو بھی جائے تو صلہ ایسا ملتا ہے کہ تاخیر کی سب کسریں نکل جاتی ہیں۔‘

 

شیئر: