Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ:'لاک ڈاؤن کھولنے سے وائرس پھیلا'

امریکہ میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد شہریوں نے تفریحی مقامات کا رخ کیا جس کی وجہ سے وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی آئی۔ فوٹو: اے ایف پی
جب وبائی امراض کے ماہرین کورونا وائرس کے کیسز کے خم ( کے (curve ہموار ہونے کی  بات کرتے ہیں تو غالباً ان کا مطلب یہ نہیں ہوتا جو کہ امریکہ میں ہو رہا ہے۔ امریکہ میں کورونا وائرس عروج تک اپریل میں پہنچ گیا تھا اور اس کے بعد سے کورونا کیسز کا گراف مستقل ہموار ہے۔
یہ دنیا کے وائرس سے بہت زیادہ متاثرہ ممالک کے مقابلے میں مختلف ہے کیونکہ وہ ممالک وبا کے عروج تک پہنچنے کے بعد وائرس کے کیسز کو کامیابی کے ساتھ نیچے لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں اس وبائی مرض کا طویل دورانیے تک رہنا اس کے خطے میں پھیلاؤ کے اثرات کی وجہ سے ہے۔ ان کے مطابق وائرس پہلے اہم شہروں اور ساحلی علاقوں میں پھیلا اور اس کے بعد یہ ملک کے اندرونی علاقوں میں پھیلنا شروع ہوا۔

 

ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ ملک کے مختلف علاقوں میں لاک ڈاؤن کو کھولنا بھی اس کی ایک وجہ ہے کیونکہ کھولے گئے علاقوں میں وائرس کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ معاشی مجبوریوں اور بعض لوگوں کے مطابق کورونا وائرس کے خطرے کو ’بڑھا چڑھا کر پیش‘ کرنے کے سبب  سوشل ڈسٹنسنگ کے قواعد پر عمل درآمد نہ کرنا بھی اس صوتحال کی ایک وجہ ہے۔
سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کے ایک سابق ڈائریکٹر ٹام فرائیڈن نے اے ایف پی کو بتایا کہ امریکہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ایک بڑا ملک ہے اور وائرس ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف مراحل میں ہے۔
اپریل کے مہینے میں امریکہ میں کئی دنوں تک کورونا کے 35 ہزار تک روزانہ کیسز سامنے آئے۔ اب اگرچہ اس تعداد میں کمی آئی ہے تاہم حالیہ دنوں میں مستقل طور پر امریکہ میں کورونا کے روزانہ 20 ہزار سے زائد کیسز سامنے آ رہے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ کو بھی آغاز میں کورونا کو سنجیدہ نہ لینے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ فوٹو: اے ایف پی

ماہرین کے مطابق امریکہ کے مقابلے میں اٹلی میں مارچ کے مہینے میں روزانہ پانچ ہزار سے زائد کیسز سامنے آ رہے تھے تاہم اب یہ گر کر چند سو روزانہ رہ گئے ہیں۔
ٹام فرائیڈن جو کہ اب ’ریزالو ٹو سیو لائیوز‘ نامی این جی او کے سربراہ ہیں کا کہنا ہے کہ ’ہم نے شروع میں وائرس پر قابو پانے کے لیے بروقت اور مؤثر اقدامات نہیں کیے اور ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ وائرس ابتدائی ’ہاٹ سپاٹ‘ سے نقل حملے کے رستوں کے ساتھ شہری اور دیہی علاقوں میں پھیل گیا۔
ایک ماہ پہلے تک مشرقی ساحل پر واقع ریاستیں نیویارک، نیو جرسی اور میسا چوسٹس میں سامنے آنے والے کورونا کے کیسز پورے امریکہ کے کیسز کا 50 فیصد تھے۔۔ لیکن اب کورنا وائرس کے اکثر کیسز مڈویسٹ اور ساؤتھ ایسٹ کے علاقوں میں سامنے آرہے ہیں-
جان ہاپکنز یونیورسٹی میں وبائی امراض کے ماہر جینیفر نوزو کا کہنا ہے امریکہ اب بھی کافی ٹیسٹس، کنٹکٹ ٹریسنگ اور آئیسولیشن نہیں کر رہا۔
اگرچہ امریکہ نے تکنیکی اور ریگولیٹری وجوہات کی بنا پر ٹیسٹنگ تاخیر سے شروع کی تاہم اب امریکہ دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ کورونا ٹیسٹ کرنے والا ملک بن گیا ہے۔

امریکہ میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

امریکہ میں ٹیسٹ شرح جو کہ ہر ہزار افراد میں سے 65 کی ہے، بھی دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ جرمنی میں ہر ہزار میں سے 52 افراد کا ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔
تاہم جینیفر نوزا کے مطابق یہ اعداد و شمار گمراہ کن ہیں کیونکہ ان کے مطابق ٹیسٹوں کی تعداد کا تعین ملک میں بیماری کے پھیلاؤ اور شدت سے کیا جاتا ہے۔
امریکہ دنیا میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہے تو ظاہر ہے ہمیں دنیا کے کسی بھی ملک سے بہت زیاد ٹیسٹس کرنے چاہئیں۔‘
جان ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ تمام کرائے گئے ٹیسٹس میں سے کتنے مثبت آئے۔  جون کی سات تاریخ تک امریکہ میں روزانہ کی بنیاد پر مثبت کیسز کی شرح 14 فیصد ہے جو کہ عالمی ادارہ صحت کے متعین کردہ پانچ فیصد سے بہت زیادہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے بینچ مارک کے مطابق لاک ڈاؤن میں نرمی سے ایک ہفتہ پہلے تک روزانہ کرائے گئے ٹیسٹس میں سے مثبت کیسز کی شرح پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔

ماہرین کے مطابق جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے خلاف احتجاجی مظاہروں سے بھی وائرس پھیلنے کا خطرہ بڑھا۔ فوٹو: اے ایف پی

اس کے مقابلے میں جرمنی میں مثبت کیسز کی شرخ پانچ فیصد ہے۔ 
اے ایف پی کے مطابق صرف ٹیسٹس کی تعداد میں اضافے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اگر ان ٹیسٹوں کی بنیاد پر ان لوگوں کو جو وائرس سے متاثر ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں، نہ ڈھونڈ نکالا جائے اور انہیں آئیسولیشن میں جانے کا نہ کہہ دیا جائے۔ اس معاملے میں امریکہ کی کئی ریاستیں بہت پیچھے ہیں۔
ٹیکساس میں لاک ڈاأن میں نرمی کے بعد کورونا کے کیسز میں ایک بار پھر اضافہ ہو رہا ہے۔ ریاست نے جون تک صرف چار ہزار ٹریسرز افراد کورونا کے مریضوں کو ڈھونڈنے کے لیے بھرتی کیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق موبائل فون ایپ کے ذریعے وائرس کا شکار افراد کو تلاش کرنے کی کوششیں بھی سست ہیں۔
اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض افراد لاک ڈاؤن کی وجہ سے تھک گئے ہیں اور کئی معاشی مجبوریوں کی وجہ سے طویل عرصے کے لیے گھر میں نہیں بیٹھ سکتے۔  اپریل کے مہینے میں حکومت نے 16 کروڑ امریکیوں کو گھر پر بیٹھے فی کس 1200 ڈالرز بھیجے تاہم اب تک یہ واضح نہیں کہ مزید امداد بھی ملے گی۔

امریکہ میں طبی اداروں کو غیر ملکی امداد بھی ملی تاکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ فوٹو: اے ایف پی

اے ایف پی کے مطابق ری پبلکن کی قیادت میں کئی امریکی ریاستوں میں لوگ کورونا سے بچاؤ کے لیے اختیار کردہ حفاظتی تدابیر کی حمایت نہیں کرتے اور اپنی ذاتی آزادیوں کے خلاف سمجھتے ہیں۔
یال سکول آف پبلک ہیلتھ کی ڈین سٹین ورمنڈ کے مطابق امریکہ ایک طرح سے شخصی آزادیوں کی انتہا پر ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حفاظتی تدابیر نہ اپنانے کی ایک وجہ ری پبلکن لیڈرز کی جانب سے مختلف قسم کے بیانات یا پیغامات بھی ہیں جن میں صدر ٹرمپ بھی شامل ہیں۔ ان کے مطابق ملک کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے بھی کہا جا چکا ہے کہ صورتحال کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور یہ کہ بعض حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ضروری نہیں۔
اے ایف پی کے مطابق گزشتہ ہفتے ملک بھر میں ہزاروں افراد سیاہ فام جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے خلاف سڑکوں پر نکلے، اس دوران بھی وائرس کے کیسز بڑھنے اور انفیکشن پھیلنے کا خطرہ بڑھا۔

شیئر: