Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وبائی امراض کی ماہر سعودی خاتون ڈاکٹر

میڈیکل ریسرچ کی شروعات 1997 میں اوہائیو میں کی تھی (فوٹو: العربیہ نیٹ)
بچوں کے وبائی امراض کی ماہر سعودی خاتون ڈاکٹر حنان حسن بلخی کی کامیابی کی کہانی دنیا بھر میں پھیل گئی- حنان بلخی 20 برس سے زیادہ عرصے سے سعودی عرب میں وبائی امراض کے انسداد کا مشن کامیابی سے چلا رہی ہیں۔
انہوں نے متعدی امراض کے انسداد پر کام کرنے والے گلف سینٹر، متعدی امراض کے انسداد کے لیے کوآپریٹو سینٹر کی دس برس تک سربراہی کی۔ انہوں نے عالمی ادارہ صحت کے ماتحت اینٹی بائیوٹک کے پروگرام میں بھی حصہ لیا۔
العربیہ نیٹ کے مطابق حنان نے سارس، برڈ فلو اور کورونا جیسی وباؤں سے نمٹنے میں قابل قدر کارنامے انجام دیے۔ ان کے طبی کارنامے دنیا بھر کے میڈیکل اداروں کی نظر میں آگئے۔
عالمی ادارہ صحت نے ڈاکٹر حنان بلخی کو عالمی ادارہ  صحت کا معاون ڈائریکٹر تعینات کیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے ڈاکٹر حنان کو ادارے کا معاون ڈائریکٹر تعینات کیا (فوٹو: العربیہ نیٹ)

ڈاکٹر حنان بلخی نے اپنی پہلی میڈیکل ریسرچ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ 1997 میں میڈیکل ریسرچ کی شروعات اوہائیو میں کی تھی جہاں امریکہ کا ترقی یافتہ ترین ریسرچ سینٹر موجود ہے جو گرم علاقوں پر ریسرچ میں قائدانہ کردارادا کررہا ہے‘-
ڈاکٹر حنان بلخی بتاتی ہیں کہ 'انہوں نے سالمونیلا کی سوزش اور مدافعتی نظام پر اس کے اثرات سے متعلق ریسرچ کرنے والی لیباریٹری میں کام کیا‘-
ڈاکٹر حنان بلخی کے مطابق انہوں نے 1999 میں سعودی عرب واپسی پر نیشنل گارڈز کی وزارت میں ریسرچ سینٹر کے قیام میں کلیدی کردارادا کیا-  اس دوران وہ اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی بھی کرتی رہیں- ان کی خواہش تھی کہ وزارت نیشنل گارڈز کا ریسرچ سینٹر متعدی امراض کے شعبے میں سعودی عرب ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں قائدانہ پوزیشن حاصل کرلے-
حنان بلخی ہسپتالوں میں متعدی امراض پھیلنے سے متعلق کئی تحقیقی مقالے شائع کرچکی ہیں-
حنان بلخی کا کہنا ہے کہ 'انہوں نے 2015 میں میرس نامی وبا اور ہسپتالوں میں اس کے پھیلنے کے ماحول پر ریسرچ کی- وزارت زراعت کے ماہرین کے تعاون سے متعدی وبائی امراض میرس کورونا، سالمونیلا اور مالٹا فلو پر کام کیا‘-
سعودی لیڈی ڈاکٹر نے مزید کہا کہ ’اپنی سب سے اہم ریسرچ میرس کورونا شادوکس کی ویکسین کو سمجھتی ہوں یہ کام کنگ عبداللہ انٹرنیشنل ریسرچ سینٹر، وزارت ماحولیات و پانی و زراعت اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعاون سے انجام دیا-  اس سے قبل آکسفورڈ کی لیبارٹریوں میں اس پر کام کیا گیا تھا جس میں نایف الحربی پیش پیش تھے-
خود کو اپ ڈیٹ رکھیں، واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

شیئر: