Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہراساں کرنے کی بیماری کے علاج کی تلاش

قاہرہ میں خواتین کے ساتھ یہ ناروا سلوک روزانہ کا معمول ہے۔(فوٹو العربیہ)
مصر میں خواتین کو ہراساں کرنا ایک بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کا علاج تلاش کیا جا رہا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ایک حالیہ خبر سے یہ معاملہ انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے جس میں ایک 22 سالہ شخص نے 100 سے زیادہ  طالبات کو ہراساں کیا اور ان میں سے کچھ کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بھی بنایا۔

حالیہ قانون میں قید اور دس ہزار مصری پاؤنڈ تک جرمانہ رکھا گیا ہے۔(فوٹو عرب نیوز)

مصر میں ایسے مسائل سے نمٹنے کے لیے طویل جدوجہد کی گئی ہے جس میں متعدد ہائی پروفائل کیسز منظر عام پر آئے۔
تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کی جانب سے2017 میں دنیا بھر میں خواتین پر تشدد اور ہراسانی سے متعلق تحقیق کے مطابق نئی دہلی، کراچی اور کنشاسا کے بعد قاہرہ خواتین کی حفاظت کے حوالے سے  بدترین مقام ثابت ہوا۔
فاونڈیشن کی جانب سے اس فہرست  میں دنیا کے 19 بڑے شہر شامل ہیں جن میں ایک کروڑ نفوس سے زیادہ  آبادی موجود ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق نئی دہلی، کراچی اور کنشاسا کے بعد قاہرہ خواتین کی حفاظت کے حوالے سے بدترین مقام ثابت ہوا (فوٹو: سوشل میڈیا)

مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں خواتین کے ساتھ یہ ناروا سلوک روزانہ کا معمول ہے۔ مختلف علاقوں میں عوامی نظم وضبط کا فقدان دیکھنے میں آیا ہے جس میں خواتین کے ساتھ  چھیڑ خانی اور زبانی بدسلوکی کے جملے کسنا شامل ہے۔
ایسا رویہ اکثراوقات مختلف تعطیلات کے دوران اور عوامی اجتماعات کے مقامات پر زیادہ تر دیکھا گیا ہے۔
تاہم خواتین کو ہراساں کرنے والوں کو روکنے کے لیے 2014 کو بنائے گئے مخصوص قانون کے بعد گذشتہ تین سال کے دوران ایسے واقعات کی تعداد میں  قدرے کمی واقع ہوئی ہے۔

مصر میں خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق قانون بھی موجود ہے (فوٹو: العربیہ)

واضح رہے کہ  رواں سال کے آغاز میں ایک ویڈیو نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ مچا دیا تھا جس میں خواتین کو ہراساں کرنے کو واضح طور پر دکھایا گیا تھا۔
اس ویڈیو میں دکھایا گیا کہ کچھ اوباش ایک 22 سالہ خاتون سے چھیڑخانی کر رہے ہیں اور اس کے چیخنے پر لوگوں کے اکٹھے ہونے پر وہ موقع سے فرار ہو جاتے ہیں۔
اس واقعے نے سوشل میڈیا  کےصارفین کو حیران کردیا تھا۔ بعد ازاں وزارت داخلہ نے اعلان کیا کہ چھیڑخانی کرنے والے سات افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

دارالفتاح نے خواتین کو ہراساں کرنے کے جرم کو  بڑا گناہ قرار دیا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

واقعہ کا نشانہ بننے والی خاتون کا کہنا تھا "میں سڑک پر اپنی دوست کے ساتھ جا رہی تھی کہ ایک شخص نے موبائل سے ہماری تصویر لینا چاہی جب کہ ہم جلدی سے قریبی دکان میں داخل ہو گئیں۔
جب کچھ لوگ دکان کے سامنے جمع ہو گئے تو دکاندار نے ہمیں باہر جانے کا کہا، باہر موجود لوگوں نے ہمیں گھیر لیا ، تنگ کیا اور کپڑے پھاڑ دیے، اسی اثنا میں ایک نوجوان نے اپنی گاڑی میں بٹھا کر وہاں سے نکالا اور ہماری جان بچائی۔
مصر میں ایک وکیل عبد الحمید رحیم کے مطابق سڑکوں پر خواتین کو  ہراساں کرنے کی حوصلہ شکنی کے حالیہ قانون میں ایک سال قید اور 5 ہزار  سے دس ہزار مصری پاؤنڈ تک جرمانہ رکھا گیا ہے۔
اگر ہراساں کرنے والے نے اسلحہ کا استعمال کیا ہے یا ایذا رسانی کی گئی ہے تو سزا کی میعاد پانچ سال قید اور پچاس ہزار مصری پاونڈ تک جرمانے کا اطلاق ہو سکتا ہے۔
مصر کے اسلامی مشاورتی ادارہ  دارالفتاح نے خواتین کو ہراساں کرنے کے جرم کو  بڑا گناہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی یہ بے راہ روی  مذہب سے دوری ہے۔
عین شمس یونیورسٹی  میں شعبہ سماجیات کی پروفیسر سمیعہ قادری نےاس ضمن میں کہا ہے کہ معاشرہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیےغلط سمت میں جارہا ہے۔ بہت سارے لوگ خواتین کے لباس کو اس کی وجہ بتاتے ہیں۔
’ہمارے پاس اس برائی کو روکنے کے لیے قوانین موجود ہیں لیکن ہم ان پر سختی سےعمل نہیں کرتے۔ قوانین کو زیادہ متحرک اور وسیع پیمانے پر لاگو کرنے کی ضرورت ہے تا کہ کوئی اس سزا سے بچ نہ سکے۔ اس کے بعد ایسے واقعات کی تعداد میں بتدریج کمی دیکھی جا سکتی ہے۔‘
 

شیئر: