Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شام کے دروز برادری کے رہنما کی کمیونٹی کے خلاف 'نسل کشی کی مہم‘ کی مذمت

بدھ کے روز جرمانا اور صحنايا میں دروز نمائندوں اور حکومتی حکام کے درمیان ملاقاتوں کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا۔ (فوٹو: اے پی)
شامی دروز برادری کے روحانی پیشوا شیخ حکمۃ الحِجری نے جمعرات دروز برادری کے خلاف ہونے والی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے اسے’نسل کشی کی مہم‘ قرار دیا ہے۔
شیخ حکمۃ الحِجری کا بیان جو دو دن کے مہلک فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد سامنے آئی ہے۔
ایک بیان میں، شیخ حجری نے دمشق کے قریب جرمانا اور صحنايا میں ہونے والے تشدد کو ’ایک ناقابلِ جواز نسل کشی کی مہم‘ قرار دیا اور ’بین الاقوامی طاقتوں سے امن قائم رکھنے اور ان جرائم کے تسلسل کو روکنے کے لیے فوری مداخلت‘ کی اپیل کی۔
ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب شامی سکیورٹی فورسز، ان کے حامی جنگجوؤں، اور مقامی دروز جنگجوؤں کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپوں میں پیر کی رات جرمانا میں 17 افراد اور منگل کی رات صحنايا میں 22 افراد ہلاک ہو گئے۔
شامی مبصر گروپ ’سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کے مطابق بدھ کو، دمشق کے قریب گھات لگا کر کیے جانے والے حملے میں 15 دروز جنگجو مارے گئے۔
مبصر گروپ کے مطابق ان جنگجوؤں کو ’وزارتِ داخلہ اور دفاع سے منسلک فورسز اور ان کے اتحادی مسلح افراد‘ نے گھات لگا کر حملے میں نشانہ بنایا۔
سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس برطانیہ میں قائم ہے اور شام میں موجود اپنے ذرائع کے ذریعے معلومات حاصل کرتی ہے۔
یہ تشدد ایک مبینہ آڈیو ریکارڈنگ کے وائرل ہونے کے بعد شروع ہوا، جو ایک دروز شہری سے منسوب کی گئی اور اسے توہین آمیز قرار دیا گیا۔
بدھ کے روز جرمانا اور صحنايا میں دروز نمائندوں اور حکومتی حکام کے درمیان ملاقاتوں کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا۔
شامی حکام نے صحنايا میں سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے اپنی فورسز کی تعیناتی کا اعلان کیا اور ان جھڑپوں کا الزام ’قانون شکن گروپوں‘ پر لگایا۔
تاہم، شیخ حجری نے کہا کہ وہ اب ’ایسی حکومت پر اعتماد نہیں کرتے جو محض دکھاوا کرتی ہے... کیونکہ حکومت اپنے ہی عوام کو اپنی انتہا پسند ملیشیاؤں کے ذریعے قتل نہیں کرتی... اور پھر ان قتل عام کے بعد یہ دعویٰ کرتی ہے کہ یہ شرپسند عناصر تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’حکومت کو اپنے عوام کی حفاظت کرنی چاہیے۔‘
یہ تازہ ترین پرتشدد واقعہ مارچ میں شام کے ساحلی علاقوں میں ہونے والے قتل عام کے بعد پیش آیا، جہاں آبزرویٹری کے مطابق، سکیورٹی فورسز اور ان کے حامی گروپوں نے 1,700 سے زائد عام شہریوں کو قتل کیا، جن میں زیادہ تر علوی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔
یہ دسمبر میں طویل عرصے سے حکمرانی کرنے والے بشار الاسد (جو خود اقلیتی علوی برادری سے ہیں) کی معزولی کے بعد بدترین خونریزی تھی۔
بدھ کو جاری کردہ ایک بیان میں، شامی وزارتِ خارجہ نے سماج کے تمام طبقات بشمول دروز کی حفاظت کا عزم ظاہر کیا اور ’غیر ملکی مداخلت‘ کو مسترد کیا۔

 

شیئر: