Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بھوک مٹانے کی کوششیں: ’اقدامات ناکافی‘

سات سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں 5.5 کروڑ افراد کو شدید بھوک کا سامنا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان گندم اور چاول جیسی فصلوں کی پیداوار میں آگے ہے تاہم ملک میں آبادی کا کافی حصہ آج بھی قحط کا شکار ہے۔
اور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں دنیا کے کئی حصوں میں خوراک کا عدم تحفظ موجود ہے جس کے حل کے لیے آکسفیم نامی این جی او کا کہنا ہے کہ ’عالمی سطح پر زیادہ کچھ نہیں کیا جا رہا۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آکسفیم کا کہنا ہے کہ ’کووڈ کی وجہ سے ہونے والے قحط کے خطرے اور بڑے پیمانے پر شدید بھوک عالمی کمیونیٹی میں خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں۔‘
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آکسفیم کی مذکورہ رپورٹ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کو نوبل انعام ملنے کے کچھ دنوں بعد شائع ہوئی ہے۔
کسفیم کے مطابق بھوک کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے عالمی سطح پر وافر فنڈنگ نہیں ہورہی جس کی وجہ سے انسانی خدمت کے اداروں کو ضرورت مند افراد کی فوری مدد میں مشکلات کا سامنا ہے۔
آکسفیم کی رپورٹ 'لیٹر ول بی ٹو لیٹ' میں لکھا گیا ہے کہ ’عالمی کمیونیٹی کا خوارک کے عدم تحفظ پر اقدامات خطرناک حد تک ناکافی ہے۔‘
اس کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سات سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں 5.5 کروڑ افراد کو شدید بھوک کا سامنا ہے۔ ان ممالک جن میں صومالیہ، برکینا فاسو، کانگو، نائجیریا، جنوبی سوڈان اور یمن شامل ہیں، میں فنڈنگ بے حد کم ہے۔

آکسفیم کا کہنا تھا کہ ڈونرز نے اقوام متحدہ کی کووڈ اپیل کے تحت صرف 28 فیصد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

رپورٹ کے مطابق ان سات میں سے پانچ ممالک میں ڈونرز نے کورونا وائرس کی غذائیت سے متعلق امداد کی مد میں 'بلکل پیسے نہیں دیے ہیں'، جو کہ اقوام متحدہ کی 10.3 ارب ڈالر کی اپیل کے جواب میں دی جانی تھی۔
آکسفیم کا کہنا تھا کہ ڈونرز نے اقوام متحدہ کی کووڈ اپیل کے تحت صرف 28 فیصد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ اپیل رواں برس مارچ میں کی گئی تھی۔

شیئر: