امریکی فوج نے اسرائیل کی جنگ میں براہِ راست شامل ہوتے ہوئے اتوار کی صبح ایران میں تین مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔
مزید پڑھیں
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’ہم نے ایران میں تین نیوکلیئر سائٹس پر اپنا کامیاب حملہ مکمل کر لیا ہے جن میں فردو، نطنز اور اصفہان شامل ہیں۔‘
امریکی حملوں کا نشانہ بننے والی یہ تین جوہری تنصیبات کہاں واقع ہیں اور ایران کے جوہری پروگرام کے لیے ان کی اہمیت کیا ہے، آئیے جانتے ہیں۔
نطنز:
تہران سے تقریباً 220 کلو میٹر (135 میل) جنوب مشرق میں واقع نطنز کی جوہری تنصیب یورینیئم افزودگی کا اہم مرکز ہے جسے پہلے ہی اسرائیلی فضائی حملوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
اقوام متحدہ کے جوہری ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس سائٹ پر یورینیم کی افزودگی کی سطح 60 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور ایران جوہری ہتھیار بنانے کی سطح کی طرف گامزن ہے۔
اس سائٹ کا ایک حصّہ زیرِ زمین ہے جہاں یورینیئم کو زیادہ تیزی سے افزودہ کرنے کے لیے سینٹری فویجز کا استعمال کیا جاتا ہے۔
آئی اے ای اے نے کہا ہے کہ اس کا خیال ہے کہ سارے نہیں تو زیادہ تر سینٹری فیوجز اسرائیلی حملے سے تباہ ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے اس سائٹ کی بجلی منقطع ہو گئی ہے۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے مزید کہا کہ ان حملوں سے صرف سائٹ پر ہی آلودگی پھیلی، آس پاس کے علاقے متاثر نہیں ہوئے۔
نطنز سائبر حملوں اور تخریب کاری کا بھی نشانہ بن چکا ہے، جس میں سٹکسنیٹ کمپیوٹر وائرس بھی شامل ہے، جو سنہ 2010 میں دریافت ہوا تھا اور اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ کارروائی تھی۔
فردو:
فردو میں ایران کی جوہری تنصیب تہران سے تقریباً 100 کلومیٹر (60 میل) جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ بھی سینٹری فیوجز کی تیاری کا مرکز ہے تاہم یہ اتنا بڑا نہیں جتنا نطنز۔
سینٹری فیوج ایسی مشینیں ہوتی ہیں جو یورینیم کو افزودہ کرتی ہیں۔ افزودہ یورینیم کو بجلی گھر چلانے کے لیے ایندھن بنانے کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیار بنانے میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
آئی اے ای اے کے مطابق اس کی تعمیر 2007 میں شروع ہوئی تھی اور ایران نے 2009 میں اس مرکز کے بارے میں اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کو اُس وقت مطلع کیا تھا جب امریکہ اور اتحادی مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اس کا علم ہو گیا تھا۔
ایک پہاڑ کے نیچے دبے اور طیارہ شکن بیٹریوں سے محفوظ اس مرکز (فردو) کو فضائی حملوں کو برداشت کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ فوجی ماہرین کے مطابق اسے ممکنہ طور پر صرف ’بنکر بسٹر‘ بموں سے ہی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
امریکہ واحد ملک ہے جس کے پاس بنکر کو تباہ کرنے والے بم اتنے طاقتور ہیں کہ وہ اس مرکز تک پہنچ سکتے ہیں۔
روئٹرز نے سنیچر کو رپورٹ کیا تھا کہ امریکہ B-2 بمبار طیاروں کو بحرالکاہل کے جزیرے گوام میں منتقل کر رہا ہے جس سے اس امکان کو تقویت ملی کہ امریکہ براہ راست کسی حملے میں حصہ لے سکتا ہے۔

اصفہان نیوکلیئر ٹیکنالوجی سینٹر:
تہران سے تقریباً 350 کلومیٹر (215 میل) جنوب مشرق میں اصفہان میں واقع اس مرکز میں ہزاروں جوہری سائنس دان کام کرتے ہیں۔ یہ ملک کے ایٹمی پروگرام سے وابستہ تین چینی ریسرچ ری ایکٹر اور لیبارٹریز کا گھر بھی ہے۔
اسرائیل نے اصفہان کے جوہری مقام پر عمارتوں پر حملہ کیا ہے، ان میں یورینیم کی تبدیلی کی سہولت بھی شامل ہے۔ آئی اے ای اے نے کہا کہ اس مقام پر تابکاری میں اضافے کا کوئی نشان نہیں ملا۔
دیگر جوہری مراکز:
ایران کے پاس کئی دوسری سائٹس بھی ہیں جن کا اعلان امریکی حملوں میں ہدف کے طور پر نہیں کیا گیا۔
ایران کا واحد تجارتی ایٹمی پاور پلانٹ تہران سے تقریباً 750 کلومیٹر (465 میل) جنوب میں خلیج عرب میں بوشہر میں واقع ہے۔ ایران اس جگہ ایسے ہی دو اور ری ایکٹر بنا رہا ہے۔
بوشہر کو ایران میں نہیں بلکہ روس میں تیار کردہ یورینیم سے ایندھن دیا جاتا ہے اور اس کی نگرانی آئی اے ای اے کرتی ہے۔
اراک ہیوی واٹر ری ایکٹر تہران کے جنوب مغرب میں 250 کلومیٹر (155 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔
ہیوی واٹر دراصل جوہری ری ایکٹرز کو ٹھنڈا رکھنے میں کام آتا ہے تاہم اس میں موجود پلوٹونیئم کو جوہری ہتھیار بنانے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سال 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت ایران نے افزودگی کے خدشات کو دور کرنے کے لیے اپنی تنصیبات کو دوبارہ تیار کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔
سال 2019 میں ایران نے ہیوی واٹر ری ایکٹر کے دوسرے سرکٹ پر کام شروع کیا تھا۔ برطانیہ نے اس وقت اراک ری ایکڑ کو دوبارہ ڈیزائن کرنے میں ایران کی مدد کی تھی تاکہ پلوٹونیئم کی محدود مقدار میں پیدا کو یقینی بنایا جائے۔