امریکی فوج نے اسرائیل کی جنگ میں براہِ راست شامل ہوتے ہوئے اتوار کی صبح ایران میں تین مقامات کو نشانہ بنایا ہے تاکہ تہران کے جوہری پروگرام سے لاحق خطرے کے پیش نظر دشمن کو کمزور کیا جا سکے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سب سے پہلے ان حملوں کا اعلان کیا۔ ایرانی حکومت کی جانب سے فوری طور پر کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔
مزید پڑھیں
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے رپورٹ کیا ہے کہ حملوں میں ملک کے فردو، اصفہان اور نطنز میں جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔
امریکہ کو براہِ راست میں جنگ میں شامل کرنے کا فیصلہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر ایک ہفتے سے زائد جاری رہنے والے حملوں کے بعد کیا گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایران پر حملوں کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا کہ کچھ دیر پہلے امریکی فوج نے ایران کی تین اہم جوہری تنصیبات فردو، نطنز اور اصفہان پر بڑے پیمانے پر حملے کیے ۔
’ہمارا مقصد ایران کی جوہری افزودگی کی صلاحیت کو ختم کرنا اور دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی دنیا کی نمبر ون ریاست کی جانب سے جوہری خطرے کو روکنا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آج رات میں دنیا کو بتا سکتا ہوں کہ حملے ایک شاندار فوجی کامیابی تھے۔ ایران کی اہم جوہری افزودگی کی تنصیبات کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔‘
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’مشرق وسطیٰ کے بدمعاش ایران کو اب امن قائم کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو مستقبل میں حملے کہیں زیادہ ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ 40 برس سے ایران کہہ رہا ہے کہ امریکہ مردہ باد اسرائیل مردہ باد۔
’وہ سڑک کنارے نصب بموں سے ہمارے لوگوں کو مار رہے ہیں، ان کے بازو اُڑا رہے ہیں، ان کی ٹانگیں اُڑا رہے ہیں۔ ہم نے 1000 سے زیادہ لوگوں کو کھو دیا۔ اور پورے مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا میں ہزاروں افراد ان کی نفرت کے نتیجے میں ہلاک ہوچکے ہیں، خاص طور پر بہت سے لوگ ان کے جنرل قاسم سلیمانی کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔‘

امریکی صدر نے کہا کہ ’میں نے بہت پہلے فیصلہ کیا تھا کہ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ یہ جاری نہیں رہے گا۔ یا تو امن ہو گا یا ایران کے لیے اس سے کہیں بڑا المیہ ہو گا جتنا ہم نے پچھلے آٹھ دنوں میں دیکھا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یاد رکھیں، بہت سے اہداف باقی ہیں۔ آج کی رات اب تک کی سب سے مشکل اور شاید سب سے زیادہ تباہ کن تھی۔ لیکن اگر امن تیزی سے نہیں آتا تو ہم ان دیگر اہداف کا تعاقب درستگی، رفتار اور مہارت کے ساتھ کریں گے۔‘
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’دنیا میں کوئی ایسی فوج نہیں ہے جو وہ کر سکتی ہو جو ہم نے آج رات کیا۔‘
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایک ویڈیو پیغام میں صدر ٹرمپ کے حملے کے فیصلے کو سراہا۔
انہوں نے کہا کہ ’ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کا آپ کا جرأت مندانہ فیصلہ تاریخ بدل دے گا۔ امریکہ نے وہ کام کیا ہے جو دنیا کا کوئی دوسرا ملک نہیں کر سکتا تھا۔‘
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے کہا کہ ’ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے تاریخی فیصلے کے لیے صدر ٹرمپ کا شکریہ۔‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں بتایا تھا کہ ’ہم نے ایران میں تین نیوکلیئر سائٹس پر اپنا کامیاب حملہ مکمل کر لیا ہے جن میں فردو، نطنز اور اصفہان شامل ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تمام طیارے اب ایران کی فضائی حدود سے باہر ہیں۔ بموں کا ایک پےلوڈ فردو کی مرکزی سائٹ پر گرایا گیا۔ تمام طیارے بحفاظت اپنے گھر جا رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ امریکہ، اسرائیل اور دنیا کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے۔ ایران کو اب اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے آمادہ ہونا چاہیے۔ آپ کا شکریہ۔‘
وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون نے فوری طور پر اس آپریشن کی وضاحت نہیں کی تاہم فاکس نیوز کے میزبان شان ہینٹی نے رات 9 بجے کے بعد کہا کہ انہوں نے صدر ٹرمپ کے ساتھ بات کی ہے اور فردو کی تنصیبات پر چھ بنکر بسٹر بم استعمال کیے گئے ہیں۔
فاکس نیوز کے میزبان شان ہینٹی نے بتایا کہ امریکی آبدوزوں کی طرف سے 400 میل دور داغے گئے 30 ٹام ہاک میزائلوں نے ایرانی جوہری مقامات نطنزاور اصفہان کو نشانہ بنایا۔
ایک پہاڑ کے نیچے دبے اور طیارہ شکن بیٹریوں سے محفوظ اس مرکز (فردو) کو فضائی حملوں کو برداشت کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ فوجی ماہرین نے کہا ہے کہ اسے ممکنہ طور پر صرف ’بنکر بسٹر‘ بموں سے ہی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
امریکہ واحد ملک ہے جس کے پاس بنکر کو تباہ کرنے والے بم اتنے طاقتور ہیں کہ وہ اس مرکز تک پہنچ سکتے ہیں ۔
روئٹرز نے سنیچر کو رپورٹ کیا تھا کہ امریکہ B-2 بمبار طیاروں کو بحرالکاہل کے جزیرے گوام میں منتقل کر رہا ہے جس سے اس امکان کو تقویت ملی کہ امریکہ براہ راست کسی حملے میں حصہ لے سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ انہیں امریکی حملوں میں خطرناک حد تک اضافے پر شدید تشویش ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’اس بات کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے کہ یہ تنازع شہریوں، خطے اور دنیا کے لیے تباہ کن نتائج کے ساتھ تیزی سے قابو سے باہر ہو سکتا ہے۔‘