Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پولٹری فارم سے روزویلٹ ہوٹل تک

شدید مالی بحران کا شکار پی آئی اے نے اپنے ملازمین کو رضا کارانہ ریٹائرمنٹ سکیم کا آپشن دیا ہے (فوٹو: فیس بُک)
یہ بات شاید اب نئی نسل کو عجیب لگے کہ حالیہ دنوں میں مسلسل منفی خبروں کا شکار پاکستان کی قومی ایئرلائن  پی آئی اے کبھی دنیا بھر میں رہنے والے پاکستانیوں کے لیے ایک ایسا باعث فخر اثاثہ تھی جس نے نہ صرف دنیا کی کئی مشہور ایئرلائنز کی بنیادیں رکھیں بلکہ خود پاکستان میں کئی نئی روایات شروع کیں۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں پولٹری انڈسٹری کی بنیاد پی آئی اے نے رکھی۔ جی ہاں ساٹھ کی دہائی میں قومی ایئرلائن نے کینیڈا کی کمپنی شیور کے ساتھ مل کر پی آئی اے شیور پولٹری فارمز کی بنیاد رکھی۔ یہ پاکستان کا پہلا پولٹری فارم تھا جسے پی آئی اے نے اس لیے بنایا تاکہ اس کے جہازوں میں سفر کرنے والے مسافروں کو کھانے میں ایک سائز کے چکن پیس اور معیاری انڈے مل سکیں جو مارکیٹ میں دستیاب نہیں تھے۔ اس وقت پولٹری کو صحت بخش اور پکانے میں آسان سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان میں آج بھی دیسی مرغی کے علاوہ مرغی کو شیور کی مرغی کہا جاتا ہے۔

 

آج شدید مالی بحران  کا شکار پی آئی اے نے اپنے ملازمین کو رضا کارانہ ریٹائرمنٹ سکیم (وی ایس ایس) کے ذریعے قبل از وقت ملازمت چھوڑنے کا آپشن دیا ہے۔ پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ کے مطابق منگل 22 دسمبر کو اس سکیم کی آخری تاریخ ہے جس کے تحت منصوبہ ہے کہ پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد میں خاطر خواہ کمی لائی جائے۔
مگر پی آئی اے ایک قابل فخر اثاثے سے ایک سفید ہاتھی میں کیسے تبدیل ہوئی یہ ایک افسوسناک داستان ہے۔
پاکستان کی پرچم بردار ایئرلائن پی آئی اے یوں تو باضابطہ طور پر 1955 میں بطور کمرشل ایئرلائن وجود میں آئی مگر اس کی بنیاد بانی پاکستان محمد علی جناح نے 1946 میں ہی رکھ دی تھی جب انہوں نے ایک صنعت کار ایم اے اصفہانی کو ہدایت کی کہ وہ مستقبل کے پاکستان کے لیے ایک ایئرلائن بنائیں۔  
چنانچہ کلکتہ میں اورینٹ ایئرویز قائم کی گئی تاکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کو فضائی راستے سے جوڑا جا سکے۔ گو کہ اس ایئرلائن نے بھی ابتدائی چند برسوں میں خاصی ترقی کی اور چند نئے جہاز بھی اپنے بیڑے میں شامل کیے مگر پی آئی اے کی ویب سائٹ کے مطابق یہ پرائیویٹ ایئرلائن ایک نئے ملک کی ضروریات کے لیے کافی نہ تھی۔ اس لیے جنوری 1955 میں حکومت پاکستان نے پی آئی اے کے نام سے اپنی قومی ایئرلائن کی تشکیل کا فیصلہ کیا جس کے بعد اورینٹ ایئرلائن اپنے اثاثوں اور ملازمین سمیت اس میں ضم ہو گئی۔ اور ایم اے اصفہانی پی آئی اے کے پہلے چیئرمین بن گئے۔
اسی سال پی آئی اے نے برطانوی دارالحکومت لندن کے لیے براستہ روم اور قاہرہ پراوزوں کا سلسلہ شروع کیا اور چند برسوں میں ہی پی آئی اے بین الاقوامی روٹس سے منافع کمانا شروع ہو گئی۔ لیکن پی آئی اے نے بطور کمپنی صحیح اُڑان اس وقت بھرنا شروع کی جب 1959 میں ایئر کموڈور نور خان کو اس کا مینجنگ ڈائریکٹر لگایا گیا۔

پاکستان میں پولٹری انڈسٹری کی بنیاد بھی قومی ایئرلائن پی آئی اے نے رکھی تھی (فوٹو: پی آئی اے)

نور خان کی قیادت میں یہ ایئرلائن دنیا کی صف اول کی ہوائی جہاز کمپنوں میں شمار ہونا شروع ہو گئی۔ ان کا دور پی آئی اے کی تاریخ میں ’سنہرے دور‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی دوران پی آئی اے نے جہازوں کی مرمت کے لیے کراچی میں ہی انجینئرنگ سروس شروع کی جس سے خطے کی دوسری ایئرلائنز بھی مستفید ہوتی تھیں۔

پی آئی اے کے منفرد اعزازات

پی آئی اے کے ساتھ 35 سال تک منسلک رہنے والے ارشاد غنی چند سال قبل بطور کارپوریٹ پلاننگ اور مارکیٹنگ ڈائریکٹر ریٹائر ہوئے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ارشاد غنی کا کہنا تھا کہ پی آئی اے نے کئی ایسے منفرد اعزازات اپنے نام کیے جو پاکستان جیسے نئے ملک کے لیے بڑے فخر کا باعث بنے۔
 1960 میں پی آئی اے جیٹ طیارہ بوئنگ 707 آپریٹ کرنے والی براعظم ایشیا کی پہلی ایئرلائن بن گئی۔ پہلی جیٹ پرواز لندن، کراچی، ڈھاکہ کے درمیان تھی۔ اگلے سال پی آئی اے کی سروس نیویارک پہنچ گئی۔ چند برسوں میں پی آئی اے نے مشرقی پاکستان میں ہیلی کاپٹر سروس بھی شروع کر دی جو صوبے کے مختلف حصوں کو ایک دوسرے سے ملاتی تھی۔ اس سروس سے پہلے سال میں ہی 70 ہزار مسافر مستفید ہوئے۔
1962   میں پی آئی اے کے پائلٹ کیپٹن عبداللہ بیگ نے لندن سے کراچی جیٹ طیارہ چھ گھنٹے، 43 منٹ اور 51 سیکنڈ میں لا کر تیز رفتار پرواز کا ریکارڈ قائم کیا جو پاکستان کے لیے اپنی نوعیت کا ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ اسی طرح اپریل 1964 میں پی آئی اے نان کمیونسٹ دنیا کی پہلی ایئرلائن بن گئی جس کے طیارے نے چین میں لینڈ کیا۔
پی آئی اے نے فرانس کے مشہور ڈیزائنر پیئر کارداں سے اپنی ایئر ہوسٹسز کا یونیفارم ڈیزائن کروایا تو ایوی ایشن انڈسٹری میں دھوم مچ گئی اور پی آئی اے کے اس اقدام کو  دنیا بھر میں سٹائل اور فیشن  کے اہم قدم کے طور پر سراہا گیا۔

ارشاد غنی کے مطابق پی آئی اے کی کامیابی کے دنوں میں اس کا خطے میں مقابلہ ہی نہ تھا (فوٹو: پی آئی اے)

ارشاد غنی کے مطابق پی آئی اے نے اسی عرصے میں پاکستان کا پہلا پولٹری فارم قائم کیا جس میں کینیڈا کی پولٹری کمپنی شیور اس کی پارٹنر تھی۔ پی آئی اے اور شیور کے فارمز سے مرغیاں اور انڈے نہ صرف پی آئی اے کے جہازوں میں سپلائی ہوتے تھے بلکہ دوسری ایئرلائنز اور پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی فروخت ہوتے۔ یہ فارمز نوے کی دہائی میں بند ہوگئے۔
60   کی دہائی میں ہی پی آئی اے  کے جہازوں کے نئے فلیٹ اور ماڈرن عملے نے  دنیا بھر کی نئی ایئرلائنز کو اس جانب متوجہ کیا۔ سعودی عرب، سنگاپور، جاپان سمیت دنیا کے کئی ممالک کی جانب سے پی آئی اے کو  تربیت یافتہ عملے یا جہازوں کی فراہمی کی درخواست کی گئی جس سے پاکستان کا امیج مزید بہتر ہوا۔
ستر کی دہائی میں پی آئی اے کے جہاز اور انجینئرنگ کی سہولیات یوگوسلاویہ، مالٹا، شمالی کوریا اور چین تک کو مہیا کی گئیں۔ 1976 میں پی آئی اے کی آمدنی 13 کروڑ ڈالر سے زائد تھی۔ اس زمانے میں پی آئی اے سو سے زیادہ روٹس پر پروازیں چلاتی تھی۔
عروج کے دور میں پی آئی اے نے پاکستان اور بیرون ملک اثاثے بنائے جن میں نیویارک کے مشہور علاقے مین ہیٹن میں واقع روزویلٹ ہوٹل اور پیرس کا ہوٹل سکرائب بھی شامل ہیں۔

کیا پی آئی اے کے عروج کو بڑھا کر پیش کیا جاتا ہے؟

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پی آئی اے کے سابق سربراہوں سمیت اہم عہدوں پر تعینات رہنے والے متعدد افسران کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کی ماضی کی کامیابیوں میں شک نہیں تاہم بعض اوقات انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ارشاد غنی جنہوں نے 1978 میں پی آئی اے کو جوائن کیا تھا کا کہنا ہے کہ بلاشبہ اس وقت پی آئی اے پاکستان کا بین الاقوامی سطح کا واحد ادارہ ہوتا تھا اور ملک کا ٹرینڈ سیٹر سمجھا جاتا تھا مگر یہ کہنا کہ کہ یہ دنیا کی بڑی ایئرلائن تھی درست نہ ہوگا۔

ایئرلائن کی موجودہ اعلیٰ مینجمنٹ میں سولہ میں سے نو کا تعلق ایئر فورس سے رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

’میں بھی اس وقت تک یہی سمجھتا تھا مگر جب میں انہی دنوں امریکہ گیا تو دیکھا کہ یونائیٹڈ ایئرلائن کے فلیٹ میں 400 سے زائد جہاز ہیں جبکہ عروج کے دنوں میں بھی پی آئی اے کے پاس چالیس، پینتالیس جہاز ہوتے تھے۔‘
ارشاد غنی کے مطابق پی آئی اے کی کامیابی کے دنوں میں اس کا خطے میں مقابلہ ہی نہ تھا۔ خلیجی ممالک میں کوئی بڑی ایئرلائن نہ تھی۔ اس لیے خلیجی ممالک، جنوب مشرقی ایشیا اور افریقی روٹس پر اس کا ہی راج تھا جس کی وجہ سے اس کا بزنس بہت منافع بخش تھا۔
پی آئی اے کے سابق چیف ایگزیکٹیو آفیسر مشرف رسول بھی کہتے ہیں کہ ایئرلائن کے ماضی کو زیادہ ہی ’عظیم‘ دکھایا گیا ہے جس کے بوجھ کے باعث ایئرلائن اب بھی دباؤ سے باہر نہیں نکل سکتی اور نہ اس ’بلندی‘ کو واپس چُھو سکتی ہے۔
مشرف رسول امریکہ سے تعلیم یافتہ ہیں اور ایشیئن ڈیویلپمنٹ بینک اور دنیا کے دیگر اعلیٰ ساکھ کے حامل اداروں میں کام کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں جب پی آئی اے منافع بخش ادارہ تھی تو مارکیٹ کھلی تھی اور صرف امیر کبیر لوگ ہی فضائی سفر کرتے تھے تو ایئرلائن اس وقت اور اس کلاس کی مناسبت سے کامیاب تھی مگر اب دور بدل چکا ہے ۔ اب ایئر لائن کو کمرشل بنیادوں پر انتہائی مقابلے کی فضا میں چلانا ہوگا۔

پی آئی اے کا زوال اور وجوہات

ماہرین کے مطابق پی آئی اے ستر کی دہائی کے آخر تک بہتر کارکردگی دکھاتی رہی۔ مگر اسی کی دہائی میں جب مقابلہ بڑھ گیا اور خطے کی دیگر ایئر لائنز نے بہتر سروس کے ساتھ مارکیٹ کا شیئر حاصل کرنا شروع کیا تو پی آئی اے بدلتے حالات کا ادراک نہ کر سکی اور پیچھے رہ گئی۔ حتیٰ کہ 1985 میں جس ایمرٹس ایئر لائن کو لانچ کرنے کے لیے پی آئی اے نے جہاز اور عملہ فراہم کیا تھا آج وہ دنیا کی بہترین ایئر لائنوں میں شمار ہوتی ہے جبکہ پی آئی اے اس وقت 480 ارب روپے کے قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہر سال خسارے میں اضافہ کر رہی ہے۔

ساٹھ کی دہائی میں ہی پی آئی اے  کے جہازوں کے نئے فلیٹ اور ماڈرن عملے نے  دنیا بھر کی ایئرلائنز کو اس جانب متوجہ کیا (فوٹو: اے ایف پی)

اس سال مارچ میں موجودہ سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک کی برطرفی کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ گزشتہ نو سالوں میں پی آئی اے کے بارہ سی ای اوز کو تبدیل کیا گیا۔ موجودہ انتظامیہ نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ایئر لائن کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے اس میں ضرورت سے زیادہ سٹاف رکھا گیا ہے اور دنیا میں کہیں بھی جہازوں کے مقابلے میں ملازمین کا تناسب اتنا زیادہ نہیں ہے۔
موجودہ سی ای او ایئر فورس کے حاضر سروس آفیسر تھے مگر اس سال جولائی میں ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد حکومت نے انہیں پی آئی اے میں برقرار رکھا ہے تاکہ وہ اپنی پالیسی جاری رکھ سکیں۔ ایئر لائن کی موجودہ اعلیٰ مینیجمنٹ میں سولہ میں سے نو کا تعلق ایئر فورس سے رہا ہے۔
پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ایئر لائن میں شاہد خاقان جیسے سیاسی لوگ بھی آئے، اور ناصر جعفر اور چوہدری احمد سعید جیسے بزنس مین بھی آئے اور اس وقت انتظامیہ میں ایئر فورس کے بیک گروانڈ کے افراد ہیں جن کا مقصد سی ای او کے ویژن کے مطابق ایئر لائن کو آگے بڑھانا ہے۔
اس سال کراچی پی آئی اے حادثہ، پائلٹوں کے جعلی لائسنسوں اور سیفٹی سسٹم کی شکایات پر  یورپی ممالک کی جانب سے لگنے والی پابندی کے بعد تو ایئر لائن صرف چند ممالک اور اندرون ملک پروازوں تک محدود رہ گئی ہے۔  
پی آئی اے کے زوال کے حوالے سے عام تاثر یہ ہے کہ اسی کی دہائی اور اس کے بعد حکومتوں نے سیاسی بھرتیاں کرکے ایئر لائن پر معاشی بوجھ بڑھا دیا اور اسے منافع کے قابل نہ رہنے دیا۔ تاہم زیادہ تر ماہرین اس تجزیے سے پوری طرح اتفاق نہیں کرتے۔  

پی آئی اے کے سابق سی ای او مشرف رسول کے مطابق کامیاب ایئرلائنز میں جدید سوچ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ایئرلائن کے سابق مارکیٹنگ ڈائریکٹر ارشاد غنی کے مطابق پی آئی اے میں زیادہ ملازمین عروج کے دور میں بھی رہے ہیں کیونکہ یہ وہ ایئرلائن ہے جس کا اپنا گراؤنڈ سٹاف ہے اپنا انجینئرنگ سٹاف ہے اور بہت سارے آپریشنز جو دوسری ایئرلائن ٹھیکے پر دیتی ہیں پی آئی اے خود کرتی رہی ہے۔ دوسرا ملازمین کی تنخواہوں کا بجٹ کبھی بھی پی آئی اے کے اخراجات کا 20 فیصد سے زائد نہیں رہا جبکہ دنیا کی بڑی ایئرلائنز ملازمین پر بجٹ کا 30 فیصد یا اس سے زائد خرچ کرتی ہیں۔
ان کے مطابق پی آئی اے کے زوال کا اصل سبب اس کا مقابلے کے لیے تیار نہ ہونا تھا۔ جب علاقائی سطح پر ہوا بازی کی صنعت میں مقابلہ سخت ہونا شروع ہوا تو پی آئی اے اس کے مطابق خود کو نہ ڈھال سکی۔  
پی آئی اے کے افسران مارکیٹ پر اجارہ داری کے ایسے عادی تھے کہ ان کا رویہ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کی طرح کا ہوتا تھا۔ وہ اپنے دفتر سے باہر کسی سے ملنا توہین سمجھتے تھے۔ لوگ انہیں آکر ملتے تھے۔ مگر ایسا کب تک چلتا؟ دوسری ایئرلائنز نے کرایہ کم کیا، سروس بہتر کی اور دوران فلائٹ بہترین تفریحی سروس مہیا کر کے پی آئی اے کو پیچھے چھوڑ دیا۔
اچھی سروس میں فلائٹس کی فریکوئنسی اور ٹائمنگ بھی شامل ہے۔ جہاں ایمرٹس ھفتے میں سات دن تک سروس مہیا کرتی ہے وہاں پی آئی اے ھفتے کی ایک فلائٹ سے مقابلہ کیسے کر سکتی ہے؟‘

ترجمان کے مطابق اس وقت پی آئی اے کی مالی حالت بہت خراب ہے (فوٹو: اے ایف پی)

پی آئی اے کے سابق سی ای او مشرف رسول کے مطابق کامیاب ایئرلائنز میں جدید سوچ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ کمرشل ایئرلائنز کو صرف ڈسپلن سے کامیاب نہیں کیا جا سکتا بلکہ ملازمین کو نئے خیالات شیئر کرنے کے قابل کرنا ہوتا ہے۔ ان کو اپنی صوابدید استعمال کرنے کی اجازت دینا ہوتی ہے کمرشل رسک لینا پڑتے ہیں۔
دوسری طرف ایئرلائن میں بیرونی مداخلت چاہے سیاسی ہو یا عدالتی اسے ختم کرنا ہوتا ہے۔ یہاں نیب، عدلیہ حکومت سب چھوٹی چھوٹی اناؤں کی وجہ سے ایئرلائن کے کاموں میں مداخلت کرتے ہیں جس سے وہ ایک کمرشل ادارے کے طور پر آگے نہیں بڑھ پاتی۔
ہم ایمرٹس کی مثالیں تو بہت دیتے ہیں مگر وہاں جب کسی ملازم کی ضرورت نہ رہے وہ اس کو نکال سکتے ہیں۔ وہ اپنی ایئرلائن کی ضرورت کے مطابق کسی بھی نئے خیالات اور مہارتوں والے افراد کو بھرتی کر سکتے ہیں۔ مگر پی آئی اے میں ایسا نہیں کر سکتے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے میں زہریلا ماحول ہے۔ سفارش پر بھرتیاں ہوتی ہیں اور یہ سفارشی لوگ بڑے عہدوں پر فائز لوگوں کو چھوٹی چھوٹی رعایتیں دے کر تعلقات بنا لیتے ہیں جیسے کسی کا ٹکٹ بزنس کلاس میں اپ گریڈ کرنا، زائد سامان کی اجازت دینا وغیرہ۔ ان چھوٹی رعایتوں کے بدلے میں یہ ملازمین اتنے طاقت ور ہو جاتے ہیں کہ کام کریں یا نہ کریں ان کے خلاف ایکشن نہیں لیا جا سکتا۔ ’ایک دفعہ میں نے ایک سابق وزیر کی سفارش پر کسی کو لندن سٹیشن پر نہیں لگایا تو انہوں نے میرے خلاف عدالت کو خط لکھ دیا‘۔

مشرف رسول کے مطابق پی آئی اے کو دوبارہ سے منافع بخش بنانے کے لیے اسے جدید اور سمارٹ کمپنی بنانا ہوگا (فوٹو: اے ایف پی)

مشرف رسول کے مطابق پی آئی اے ایک سمارٹ، ہلکی پھلکی اور جدید تقاضوں کے مطابق ڈھل جانے والی ایئرلائن نہیں بنے گی تو دنیا کی جدید ایئرلائنز سے مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ پی آئی اے کے بورڈ کا کردار بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ادارے کا محاسبہ کرے اور غلط ٹھیکے نہ منظور کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے میں زیادہ ملازمین کے حوالے سے معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ اگر ملازمین اچھی مہارتوں پر مشتمل ہوں تو اتنا مسئلہ نہیں ہے مگر کم مہارت والے زیادہ لوگ بھرتی کیے گئے ہیں جو ایک مسئلہ ہے۔ اسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔  
مشرف رسول بھی اتفاق کرتے ہیں کہ پی آئی اے کے زوال کا بڑا سبب یہ ہے کہ یہ بروقت خود کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کر پائی۔ دوسری ایئرلائنز نے اپنی سروس بہتر کی اور نئی ٹیکنالوجی اور سہولیات متعارف کروائیں مگر پی آئی اے نے اس میں تاخیر کر دی۔ جدید منیجمنٹ سسٹم کو لانا ضروری تھا۔
پھر اپنی پیش کش کو بہتر کرنا تھا اور اسے اس قابل بنانا تھا کہ عالمی صارفین کو متوجہ کر سکے مگر یہاں صرف نیشنلزم کا استعمال کرکے اپنی کوتاہی پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ اس وقت دنیا کی متعدد ایئرلائنز نے قطر، ترکش اور لفتھانسہ ایئرلائنز نے اپنے جہازوں سے جھنڈے اتار کر قومی نشان لگائے تاکہ نوجوان گاہکوں کو متوجہ کر سکیں مگر یہاں پر ایسی کوشش پر نوٹس ہو جاتا ہے۔ ’پاکستان کی خدمت اور عزت صرف جہاز پر بڑا جھنڈا لگانے سے نہیں ہو گی بلکہ تب ہو گی جب ہماری ایئرلائن زیادہ منافع کمائے گی اور دنیا بھر کے لوگ اس پر سفر کرنے میں فخر محسوس کریں گے‘۔

ترجمان کا مؤقف ہے کہ پی آئی اے کو نقصان برطرف ملازمین کو واپس لانے سے ہوا (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کو اپنے سیفٹی مینجمنٹ سسٹم کو جون 2019 میں بہتر کرنا تھا مگر ایسا کرنے میں ناکامی پر ادارے کو یورپی یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایازا) کی جانب سے یورپی ممالک کی پروازوں سے روک دیا گیا۔
پی آئی اے کے سابق سربراہ اعجاز ہارون کے مطابق اس وقت ادارے کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھ میں ہے جو یہ نہیں جانتے کہ کمرشل ایئرلائن کیسے چلائی جاتی ہے۔ ان کے خیال میں موجودہ انتظامیہ کی پوری ٹیم ایئرفورس کے بیک گرؤانڈ کی وجہ سے اس تجربے کی حامل نہیں جو کمرشل ایئرلائن چلانے اور اسے منافع بخش بنانے کے لیے درکار ہوتا ہے۔
اعجاز ہارون پی آئی اے کے زوال کا سبب باہر سے لائے گئے لوگوں کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کو بہتر تب ہی بنایا جا سکتا ہے جب اسی کے ملازمین کو اس کے اہم عہدوں پر تعینات کیا جائے۔  دیکھیں پی آئی اے کے لوگوں نے دوسری ایئرلائنز کو لانچ کرنے میں مدد کی، اگر ان کو بااختیار بنا کر موقع دیا جائے تو کیا یہ اپنی ایئرلائن نہیں چلا سکتے؟ جب آپ کارپوریٹ کلچر سے، سیاست سے یا ایئر فورس سے اعلٰی انتظامیہ لاتے ہیں تو وہ اس کے نظام کو نہیں سمجھ پاتے۔‘
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں انہیں 2008 میں پی آئی اے کا ایم ڈی مقرر کیا گیا تو چونکہ ان کا تعلق اسی ادارے سے تھا تو انہوں نے چند ماہ میں ایئرلائن کے 747 جہاز واپس چلائے اور اے 310 پر سے پابندی ختم کروائی،  نتیجے میں دو ہزار دس تک ایئرلائن کو آپریٹنگ پرافٹ میں لے آئے۔

پی آئی اے نے 1955 میں لندن کے لیے براستہ روم اور قاہرہ پروازوں کا سلسلہ شروع کیا (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ انہیں 2011 میں اس وقت ادارہ چھوڑنا پڑا تھا جب انکے ترکش ایئر لائن سے معاہدے کے باعث ملازمین نے ہڑتال کر دی تھی تاہم اس کے بعد پی آئی اے لگاتار خسارے میں جاتی گئی اور آج اس کا قرض 480 ارب تک پہنچ چکا ہے۔

پی آئی اے کیسے بہتر ہوگی؟

مشرف رسول کے مطابق پی آئی اے کو دوباہ سے منافع بخش بنانے کے لیے اسے جدید اور سمارٹ کمپنی بنانا ہوگا اس میں سہولیات بہترکرنا ہوں گی اور اس کے مالی حالات بہتر کرنا ہوں گے۔ ماضی میں پی آئی اے کو جب نقصان ہوتا تو حکومت اسے کہتی اور قرضہ لے لیں مگر رفتہ رفتہ یہ قرضہ اتنا بڑھ گیا کہ ایئرلائن کی آمدنی قرضوں کی ادائیگی میں ہی جانے لگ پڑی۔
اس حوالے سے مشرف رسول کا کہنا تھا کہ ان کے دور میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ہدایت پر ایک حل تلاش کر لیا گیا تھا کہ چونکہ پی آئی اے کے بیرونی قرضوں پر حکومت پاکستان کی گارنٹی دی گئی ہےاس لیے وزارت خزانہ ہی ان قرضوں کو ادا کرے گی تاکہ پی آئی اے قرضوں کی واپسی کے بجائے اپنی سروس بہتر کرنے کی طرف توجہ دے سکے۔  
پی آئی اے کے سابق سربراہ اعجاز ہارون کے مطابق ادارے کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ اس میں پروفیشنل لوگوں کو لایا جائے، اچھی ٹیم بنائی جائے اور سیاست ختم کی جائے۔ ادارے کا سربراہ کسی تعلق کو نہ دیکھے بلکہ ادارے کے مفاد کو دیکھے تو اسے بہتر کیا جا سکتا ہے۔

قومی ایئرلائن کے ترجمان کو امید ہے کہ قرضوں کی معافی کے بعد پی آئی اے ایک کلین ادارہ بن جائے گا۔ فوٹو: اے ایف پی

پی آئی اے کی موجودہ انتظامیہ کا منصوبہ کیا ہے؟

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ کہتے ہیں کہ انہوں نے متعدد سی ای اوز کے ساتھ کام کیا جن میں سیاسی افراد بھی شامل تھے، بزنس مین بھی اور ایئرفورس کے بیک گراؤنڈ کے حامل بھی۔ ماضی میں اس ادارے کے ساتھ زیادتی ہوئی کہ اس کو چلانے والے ایم ڈیز یا سی ای اوز کو بائی پاس کرکے سیاسی ادارے اس کو براہ راست چلاتے رہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی ذیلی یونین کی حمایت کرتی رہی ہیں۔ پی آئی اے یونین کو اپنے حلقے کی طرح ووٹ کے لیے استعمال کیا گیا۔ اب جب یونین کا سربراہ ایئرپورٹ پر وزیراعظم کا استقبال کرے اور انہیں ایم ڈی کی شکایت لگائے تو پھر ایم ڈی ادارہ کیسے چلا سکتے ہیں؟
عبداللہ حفیظ کے مطابق پی آئی اے کے موجودہ سی ای او ایئر مارشل ارشد خان اس لیے موثر ہیں کہ وہ کسی سیاسی پریشر میں نہیں ہیں اور اس وقت ادارے میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہے۔ ماضی میں سیاسی مداخلت سے پی آئی اے کے فرنیچر، سپئیر پارٹس تک کے ٹھیکے ملتے رہے ہیں مگر پچھلے دو سال سے کوئی ایسی سیاسی درخواست نہیں آئی۔ ان کے مطابق موجودہ سی ای او دیگر اداروں سے فالو اپ کرتے ہیں اور پی آئی اے کے کام رکتے نہیں ۔ انہیں بھی عدالتی عمل کے زریعے سے روکا گیا مگر انہوں نے قانونی جنگ لڑی اور سپریم کورٹ سے جیتی۔
ترجمان کے مطابق پی آئی اے کو نقصان اس وقت پہنچا جب 2008-9 میں ایک قانون کے تحت ادارے میں برطرف ملازمین کو واپس لایا گیا وہ لوگ مڈل مینیجمنٹ میں واپس آئے مگر اب کئی برس کے بعد وہ ٹاپ مینیجمنٹ تک پہنچ گئے تھے۔ ایسے لوگ اصلاحات کیسے لا سکتے ہیں۔ اس لیے سی ای او ایئر فورس سے ہم خیال لوگوں کو لے کر آئے ہیں تاکہ ان کے ویژن کے مطابق اصلاحات کی جا سکیں۔

سال 2019 میں قومی ایئرلائن میں 43 فیصد گروتھ ہوئی اور 76 فیصد خرچے کم کیے گئے۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے تسلیم کیا کہ اس وقت پی آئی اے کی مالی حالت بہت خراب ہے اور ہر سال ادارے کو تیس چالیس ارب قرض کی مد میں واپس کرنا ہوتا ہے جس کے باعث موجودہ حالات میں اسے چلانا مشکل ہو رہا ہے۔ ایک آپشن یہ ہے کہ ادارہ بند کر دیا جائے مگر یہ قومی سٹریٹجک اثاثہ ہے جو حالت امن اور حالت جنگ میں ملک کی ضرورت ہے۔ دوسرا آپشن اس کو بیچ دینا ہے مگر جن حالات میں پی آئی اے ہے اسے اتنے قرضوں کے ساتھ کون خریدنا چاہے گا؟
ترجمان نے بتایا کہ اس وقت اس کی مالی حالت یہ ہے کہ اس کے صرف 100 ارب کے اثاثے ہیں جبکہ 480 ارب کا قرضہ ہے ۔ یہ ادارہ قرضوں مں اتنا دبا ہوا ہے کہ 30 سے 40 ارب ہر سال قرضے واپس کرنے کے لیے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے پی آئی اے کی طرف سے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ یہ ادارہ اب وینٹی لیٹر پر ہے اس میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے ورنہ ہم اس سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ 

ایک ہی آپشن ہے کہ بڑے پیمانے پر اصلاحات کی جائیں

ترجمان کے مطابق موجودہ انتظامیہ کے ایئر مارشل ارشد ملک اور ان کی ٹیم کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں اس لیے وہ سخت اصلاحات کر سکتے ہیں۔ یہ ٹیم تین سال کے لیے لائی گئی ہے ۔ اسکے اہداف ہیں پی آئی اے کو منافع پر لانا جس کے لیے روٹس کا دوبارہ جائزہ لیا گیا اور منافع بخش روٹس کو رکھا گیا اور خسارے والے روٹس کو ختم کیا گیا۔ آمدنی بڑھانے اور خرچے کم کرنے کے اقدامات کے باعث ایک سال کے اندر 43 فیصد گروتھ ہوئی اور 76 فیصد خرچے کم کیے گئے۔  اور سال 2019 میں پورے سال خسارہ 33 ارب سے کم ہو کر صرف سات ارب رہ گیا۔

پی آئی اے کی نجکاری کی مختلف حکومتوں کی کوششوں کو ملازمین کی جانب سے مزاحمت کا سامنا بھی رہا۔ فوٹو: اے ایف پی

موجودہ انتظامیہ نے نظم و ضبط بہتر کیا ہے۔ زائد عملے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ پی آئی اے کی آمدنی کا صرف 22 فیصد عملے کی تنخواہوں پر جاتا ہے مگر جب ایک سیٹ پر تین لوگ ہوں تو وہ کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف سیاست کرتے ہیں۔ اس لیے موجودہ انتظامیہ کی کوشش ہے کہ جتنے عملے کی ضرورت ہے بس اتنا عملہ ہی رکھا جائے۔ اس سلسلے میں کوشش کی جا رہی ہے کہ ملازمین کی تعداد کو زبردستی کے بجائے رضا کارانہ طور پر کم کیا جائے اس سلسلے میں رضا کارانہ ریٹایئرمنٹ کا ایک پیکج بھی تیار کیا گیا ہے۔ ترجمان کے مطابق اس وقت پی آئی اے ملازمین کی تعداد تیرہ ہزار کے قریب ہے ۔ کوشش ہے کہ پی آئی اے صرف کور آپریشن کرے یعنی جہاز چلانے اور مسافروں کو سفری سہولیات فراہم کرنے کا کام  جبکہ گروانڈ سروس ۔ کیٹرنگ اور انجینئرنگ کی الگ کمپنیاں ہوں جو اپنے اخراجات اور آمدنی کی خود زمہ دار ہوں۔ اس طرح کور آپریشن کے لیے سات ہزار سے ساڑھے سات ہزار ورک فورس ہو۔
اس کے علاوہ حکومت کو پی آئی اے نے تجویز دی ہے کہ اس کی بیلنس شیٹ کو ری سٹرکچر کریں اور جتنا قرض پی آئی اے کا ہے وہ حکومت معاف کردے۔ اس پر کافی پیش رفت ہو چکی ہے اور حکومتی کمیٹی نے کسی حد تک آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ عبداللہ حفیظ پرامید ہیں کہ قرضوں کی معافی کے بعد پی آئی اے ایک کلین ادارہ بن جائے گا تو سٹاک مارکیٹ میں اس کے شئیرز بھی اوپر جائیں گے اور وہاں سے بھی آمدنی ہو گی۔

ترجمان کے مطابق ہر سال ادارے کو تیس سے چالیس ارب قرض کی مد میں واپس کرنا ہوتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

پی آئی اے انتظامیہ چاہتی ہے کہ اس کو فری ہینڈ دیا جائے اور اس کی کارکردگی کو حکومت مانیٹر کرے۔
اس سوال پر کہ یورپ میں پابندیاں لگنے کے بعد اب پی آئی اے کا کیا بزنس پلان ہو گا ترجمان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے نے سیفٹی مینیجمنٹ سسٹم پر ایازا کو مطمئن کر دیا ہے اب صرف لائسنس والے معاملے پر بات رہ گئی ہے جو سول ایوی ایشن کے زمہ ہے مگر پی آئی اے اس میں بھی مدد کرے گی تاکہ ایازا کے آڈٹ کی جلد تیاری مکمل ہو جائے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام چیلنجز اپنی جگہ ہیں مگر پی آئی اے نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک یورپ میں پابندیاں ختم نہیں ہوتیں تب تک نئے روٹس پر فوکس کرے اور سنٹرل ایشیا، مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید کی طرف پروازیں چلائے۔ اسی سلسلے میں سعودی عرب سے بات چیت کی جا رہی ہے کہ طائف کے لیے بھی پروازیں شروع کی جائیں اس کے ساتھ ساتھ باکو، کوالالمپور اور بینکاک تک پروازیں چلائی جائیں۔
ترجمان کے مطابق پی آئی اے کی کوشش ہے کہ پراڈکٹ بہتر کی جائے یعنی مسافروں کو بہتر سفری سہولت ہو فلائٹ کے اندر تفریح کا نظام اچھا کیا جائے۔ اس سلسلے میں اپنے جہازوں کے بیڑے (فلیٹ) میں بھی آٹھ نئے جہاز لانے کا منصوبہ ہے۔
پی آئی اے ترجمان پرامید ہیں کہ ان تمام اقدامات سے ایئرلائن کی آمدنی میں اضافہ ہو گا اور یہ بحالی کی طرف بڑھے گی۔ تاہم اس سے قبل بھی اس طرح کے دعوے کئی بار کیے گئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان کی پرچم بردار ایئر لائن کبھی دوبارہ اپنے عروج پر پہنچ پائے گی یا اس کے سنہرے دور کی بس یادیں ہی رہ جائیں گی؟

شیئر: