Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تیل سے پہلے کے نجد کا زندہ نمونہ، اشیقر بستی

’نجد میں تیل کی دولت سے پہلے کی طرز زندگی یہاں دیکھی جاسکتی ہے، یہ بستی ریاض سے 200 کلو میٹر دور ہے‘ ( فوٹو: ابراہیم التمیمی)
سعودی عرب میں نجد کے علاقے کی تہذیب وثقافت اور تیل سے پہلے کی زندگی سے واقفیت حاصل کرنے کا زندہ نمونہ اشیقر بستی ہے جو دار الحکومت ریاض سے 200 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔

سبق ویب سائٹ کے مطابق سی این این نے اشیقر بستی کے متعلق رپورٹ میں کہا ہے کہ ’نجد میں تیل کی دولت سے پہلے کی طرز زندگی یہاں دیکھی جاسکتی ہے‘۔

ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے سعودی فوٹو گرافر محمد عبد الرحمن ابا حسین نے کہا ہے کہ ’ان کا آبائی تعلق اشیقر سے ہی مگر 2014 میں وہ پہلی مرتبہ وہاں گیے تھے‘۔

’بستی آج بھی کچی مٹی کے بنے مکانات کے علاوہ تاریخی مساجد اور مقامی لوگوں کی کھیتیاں دیکھی جاسکتی ہیں‘۔

’بستی کی تنگ گلیوں میں سیر کرتے ہوئے لا تعداد کچے مکانات کے علاوہ پرانے زمانے کے نقوش کے حامل دروازے اور کھڑکیاں نظر آئیں گی‘۔

’بستی میں مقامی ریستوران بھی ہیں جہاں روایتی پکوان کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے‘۔

’اشیقر کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1500 سال پہلے نجد کے بدو یہاں آباد ہوئے تھے‘۔

’پھر یہ بستی اس راستے سے گزرنے والے حاجیوں کا مرکز بن گئی جہاں عازمین حج آکر کچھ دن قیام کرتے تھے‘۔

’بستی کو اشیقر اس لیے کہا جاتا ہے اس کے قریب سرخی مائل چوٹیوں کی پہاڑیاں ہیں جن کی نسبت اسے اشیقر کہا گیا‘۔

’مقامی آبادی نے اپنی تہذیب وثقافت کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک چھوٹا سا عجائب گھر بھی قائم کیا ہے‘۔

’مقامی آبادی سیاحوں کا ہر وقت خیر مقدم کرتی ہے، آپ اگر سیاحت کے لیے یہاں جائیں تو کوئی بعید نہیں کہ کوئی بدو آپ کو اپنے گھر لے جاکر قہوہ اور کھجور پیش کرے‘۔

شیئر: