Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں مقابلہ روایتی ہوگا یا بازی پلٹے گی؟

پنجاب میں 19 فروری کو ایک قومی اسمبلی کی نشست جبکہ ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر انتخابات ہو رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے سیاسی میدان میں ضمنی انتخابات کے حوالے سے عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ ان کے نتائج حکمران جماعت کے حق میں ہی زیادہ آتے ہیں۔ اسی کی شاید ایک بڑی وجہ ان حلقوں میں عوام کا تاثر یہی ہوتا ہے کہ جیتنے والی پارٹی ان کے مسائل زیادہ احسن طریق سے حل کر سکتی ہے۔
لیکن جب بات پنجاب کی ہو اور حکمراں سیاسی جماعت تحریک انصاف کے مقابلے میں مضبوط اپوزیشن مسلم لیگ ن میدان میں آئے تو بات روایتی تجزیے سے آگے نکل جاتی ہے اور اس کی بھی وجوہات ایک سے زیادہ ہیں جیسا کہ نہ صرف ن لیگ پنجاب کی سب سے مضبوط اپوزیشن پارٹی ہے بلکہ صوبے میں دس سال حکومت بھی کر چکی ہے۔ 
پنجاب میں 19 فروری کو ایک قومی اسمبلی کی نشست جبکہ ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر انتخابات ہو رہے ہیں۔ 
قومی اسمبلی این اے 75 ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کی نشست لیگی ایم این اے سید افتخار الدین عرف ظاہرے شاہ کی اگست 2020 میں وفات کے بعد خالی ہوئی تھی جبکہ صوبائی اسمبلی پی پی 51 ضلع گوجرانوالہ شہر وزیر آباد کی نشست ن لیگ کے ہی ایم پی اے چوہدری شوکت منظور چیمہ کی جون 2020 میں کورونا کے باعث وفات کے باعث خالی ہوئی تھی۔ 
مسلم لیگ ن نے دونوں نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لیے جو امیدوار دیے ہیں وہ دونوں خواتین ہیں۔
حلقہ این اے 75 پر نوشین افتخار کو پارٹی ٹکٹ دیا گیا ہے جو کہ مرحوم سید افتخار الدین کی صاحبزادی ہیں۔ اسی طرح پی پی 51 پر ٹکٹ چوہدری شوکت منظور چیمہ کی اہلیہ طلعت منظور چیمہ کو دی گئی ہے۔ 

ن لیگ پنجاب کی سب سے مضبوط اپوزیشن پارٹی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

دونوں نشستوں پر حکمراں جماعت تحریک انصاف کی طرف سے بالترتیب علی اسجد ملہی این اے 75 کے لیے جبکہ چوہدری محمد یوسف کو پی پی 51 کے لیے ٹکٹ دیا گیا ہے۔
پیپلزپارٹی نے دونوں حلقوں میں اپنے امیدواروں کو واپس لے لیا ہے۔  یعنی اپوزیشن اتحاد پی ڈیم ایم بھی ان دونشستوں پر حکمراں جماعت کے لیے سر درد ہوگا۔ 
سیاسی پنڈتوں کے مطابق پی پی 51 میں پیپلزپارٹی کا اچھا خاصہ ووٹ بنک ہے اور یہاں سے انہوں نے پنجاب کے نائب صدر اعجاز سمن کو ٹکٹ دے رکھا تھا۔ 
سیاسی تجزیہ کار عارف نظامی سمجھتے ہیں کہ ’ڈسکہ کی سیٹ پر ن لیگ کی گرفت مضبوط ہے کیونکہ یہ مرحوم ظاہرے شاہ کی گھر کی سیٹ سمجھی جاتی ہے وہ 1990 سے اس نشست سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ وہ ایم پی اے بھی منتخب ہوئے اور ایم این اے بھی اب ن لیگ نے ان کی صاحبزادی کو ٹکٹ دے کر ایک اچھی حکمت عملی اپنائی ہے اور اس حلقے کے ووٹ بنک کو محفوظ رکھا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے اسجد ملہی بھی ویسے تو ایک مضبوط امیدوار ہیں لیکن آپ ان سے اپ سیٹ کی توقع نہیں کر سکتے۔
’ظاہرے شاہ کا اپنا ذاتی ووٹ بنک بھی موجود ہے۔ میرے خیال میں تو یہاں کہانی واضح ہے۔ لیکن الیکشن کے نتائج بہرحال اہم ہوں گے کیوں اس سے تحریک انصاف کی ساکھ کو بھی پرکھا جائے گا کیونکہ پنجاب میں ایک بڑے عرصے کے بعد انتخاب ہو رہے ہیں اور اس دوران کئی طرح کی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ کووڈ گزرا ہے مہنگائی ایک نئی سطح پر پہنچی ہے۔ تو تحریک انصاف کو اس حوالے سے بھی خاصے چیلنجز درپیش ہیں۔‘

اپوزیشن اتحاد پی ڈیم ایم بھی ضمنی انتخابات میں دونشستوں پر حکمراں جماعت کے لیے سر درد ہوگا (فوٹو: اے ایف پی)

جبکہ حلقہ پی پی 51 پر سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات عام انتخابات سے مختلف ہوتے ہیں اور ان کا ٹرن آؤٹ بھی الگ ہوتا ہے۔
’اس وجہ سے بھی عام طور پر حکمراں جماعت کو فائدہ ہوتا ہے لیکن اس بار صورت حال مختلف ہے یہ روایتی ضمنی انتخاب نہیں اور ہم نے دیکھا ہے کہ تحریک انصاف نے اس طرح سے گرم جوشی سے کیمپین بھی نہیں کی ہے۔ نتائج کچھ بھی ہوں بہرحال چند روز تک ٹیلی ویژنز کے لیے مواد ضرور میسر آجائے گا۔‘
خیال رہے کہ ڈسکہ اور وزیرآباد کی نشستوں پر ہونے والے ان انتخابات میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے بھی انتخابی مہم کی قیادت کی ہے اور ان دونوں حلقوں میں انہوں نے ریلیاں بھی نکالی ہیں۔

شیئر: