Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ضمنی انتخاب: ’پیپلز پارٹی اس وقت وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی ہے‘

ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی نے پنجاب کی دو نشستوں پر اپنے امیدوار ن لیگ کے حق میں ہٹا لیے ہیں‘ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں سیاسی گہما گہمی اس وقت انتہائی دلچسپ مرحلے میں ہے۔ ایک طرف اپوزیشن کی احتجاجی حکمت عملی ہے تو دوسری طرف تمام سیاسی جماعتیں سیاسی عمل کا حصہ رہنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔
اس کی بڑی مثال یہ ہے کہ نہ صرف تمام اپوزیشن آنے والے ضمنی انتخاب میں حصہ لے رہی ہے بلکہ سینیٹ کے الیکشن کے لیے بھی خوب دوڑ دھوپ بھی شروع ہو چکی ہے۔  
اہم بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی کھُل کر لانگ مارچ کے حتمی فیصلے کو کم از کم فوری طور پر استعمال نہ کرنے کے موڈ میں ہے اور اس بات کا ثبوت چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ پاکستان ڈیموکریٹیک موومنٹ کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے کہ ابھی لانگ مارچ کے علاوہ دیگر آپشنز پر غور کیا جائے۔ 
اس سے پہلے پی ڈی ایم نے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا بھی فیصلہ کیا تھا لیکن اس میں بھی پیپلزپارٹی نے ایک تیسری راہ تجویز کی اور یکم جنوری 2021 لاہور کے اجلاس میں تمام جماعتوں نے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔
اب 16 فروری کے ضمنی انتخاب اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کا مرکزی محور ہیں۔  
ان انتخابات میں پیپلزپارٹی نے پنجاب کی دو نشستوں پر اپنے امیدوار ن لیگ کے حق میں ہٹا لیے ہیں۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 ڈسکہ (سیالکوٹ) سے پیپلزپارٹی نے اپنی امیدوار سمیرا ساہی کے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے ہیں۔
اسی طرح حلقہ پی پی 51 سے پیپلزپارٹی پنجاب کے نائب صدر اعجاز احمد سمن نے بھی مسلم لیگ ن کے امیدوار کے حق میں دستبرداری اختیار کی ہے۔ 

قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ ’ہم وہی کر رہے ہیں جو پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے۔‘ فائل فوٹو: اے ایف پی

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر قمرزمان کائرہ نے بتایا کہ ’ہماری جماعت سیاسی عمل پر یقین رکھتی ہے چونکہ پی ڈی ایم کا اتحاد ایک جمہوری اتحاد ہے اور ہم نے تمام جماعتوں کو قائل کیا ہے کہ سیاسی عمل سے دور رہنا خطرناک ہو سکتا ہے تو ایسے میں پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ پنجاب کے ضمنی انتخاب کی دونوں نشستیں پہلے بھی مسلم لیگ ن کے پاس تھیں اس لیے ان پر ن لیگ کی حمایت کرنا ضروری ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب کی دونوں نشستوں پر ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کی حمایت کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے ہیں۔‘
قمرزمان کائرہ نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی نیت پر شک نہ کیا جائے۔ ’ہم وہی کر رہے ہیں جو پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے۔‘ 
پاکستان کی سیاسیت پر گہری نظر رکھنے والے صحافی فہد حسین  پیپلز پارٹی کی سیاست کو کچھ مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’پیپلز پارٹی اس وقت وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے حق میں دستبردار ہونا اصل میں پیپلزپارٹی کی انشورنس پالیسی ہے۔ جیسے وہ کھل کر فوری لانگ مارچ کے خلاف ہیں تو ایسے میں پی ڈی ایم کے سامنے اپنی کریڈیبلٹی کو برقرار رکھنا بھی ایک ضروری عمل ہے۔‘

عظمی بخاری سمجھتی ہیں کہ اس وقت جو بھی حکمت عملی چل رہی ہے یہ پی ڈیم ایم کی تمام قیادت کو اعتماد میں لے کر ہی چل رہی ہے فائل فوٹو: اے ایف پی

فہد حسین کے بقول ’حالیہ اقدام اسی کی ہی ایک کڑی ہے اور دوسرے لفظوں میں یہ زرداری صاحب کی کلاسک سیاست ہے۔ وہ کبھی بھی اپنی تمام چالیں ایگزاسٹ نہیں کرتے۔ ہمیں یہ نہیں پتا کہ پیپلزپارٹی اصل میں حاصل کیا کرنا چاہتی ہے۔ لیکن یہ ضرور سمجھ آرہی ہے کہ وہ آخری وقت تک اپنے تمام آپشنز پاس رکھنا چاہتی ہے۔‘
ان کے مطابق ’پنجاب میں ن لیگ کی حمایت کوئی بڑی کہانی نہیں ہے کیونکہ ان کا ووٹ بینک اب یہاں نہ ہونے کے برابر ہے لیکن خبر کی حد تک یہ بڑی بات ہے کہ پی پی پی ن لیگ کی الیکشن میں حمایت کر رہی ہے۔ اور پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اور میڈیا پر یہ ایک مضبوط دلیل ہے۔‘ 
مسلم لیگ ن پنجاب کی ترجمان عظمی بخاری سمجھتی ہیں کہ اس وقت جو بھی حکمت عملی چل رہی ہے یہ پی ڈیم ایم کی تمام قیادت کو اعتماد میں لے کر ہی چل رہی ہے۔ ’میں اس وقت ایسا کچھ بھی نہیں کہوں گی کہ کون کیا کر رہا ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کی حکمت عملی ہے کہ کوئی بھی بیان یا فیصلہ اب پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہی ہو گا۔ کوئی بھی جماعت اپنے تئیں کچھ بھی کرے اس کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اپنی بات کا دفاع کرنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھے نہیں پتا کہ پی پی پی لانگ مارچ کے حق میں نہیں کیونکہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ جہاں تک ضمنی انتخابات میں امیدواروں کو دستبردار کروانے کا معاملہ ہے تو میں سمجھتی ہوں اس سے پی ڈی ایم اور مضبوط ہو گی۔‘ 

شیئر: