Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کی عمارتیں پاکستان فضائیہ کے جہازوں کے لیے کتنی خطرناک؟

پاکستان ایئر فورس نے گذشتہ مہینے سندھ حکومت کو ایک خط لکھا تھا جس میں نشاندہی کی گئی تھی کہ ’پاک فضائیہ کے بیس کے اطراف میں غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ عمارتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘
چیف سیکریٹری سندھ کو لکھے گئے اس خط میں کہا گیا تھا کہ موجودہ تعمیرات سے پہلے پی اے ایف ہیڈ کوارٹرز سے این او سی حاصل نہیں کیا گیا۔
پاکستان ایئرفورس نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اس حوالے سے سروے کرے اور ان غیر قانونی طور پر تعمیر ہونے والی عمارتوں کے خلاف کارروائی کی جائے، کیونکہ ان سے فضائی سیفٹی کے خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔
نیشنل ایئر فیلڈ کلیئرنس پالیسی کے تحت ملک میں کسی بھی ہوائی اڈے یا ایئر فیلڈ سے 15 کلومیٹر کی دوری میں بلند قامت عمارتوں کی تعمیر نہیں کی جاسکتی۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور سول ایوی ایشن اتھارٹی سے این او سی حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔
پاکستان ایئر فورس کے ریٹائرڈ پائلٹ ونگ کمانڈر عاصم نواز نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کراچی میں پاک فضائیہ کی دو اہم ایئر فیلڈز ہیں، آج سے 40 سال پہلے ان ایئر فیلڈز کے اطراف آبادی نہایت کم تھی اور بلند و بالا عمارتیں نہیں تھی۔‘
ان کے مطابق اب ماڑی پوڑ فیلڈ کے اطراف انڈسٹریل ایریا قائم ہے جبکہ فیصل بیس کے اطراف کاروباری اور رہائشی عمارتیں قائم ہیں جن میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’شاہراہ فیصل سے متصل ایئر فورس کی بیس شہر کے وسط میں واقع ہے اور اس کے اطراف میں کئی بلند و بالا عمارات تعمیر کی جا چکی ہیں۔ شارع فیصل پر ایئر بیس سے محض چند کلومیٹر کی دوری پر ہی کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر جاری ہے۔
عاصم نواز ’سکائی ونگز‘ کے نام سے نجی ایئر لائن چلاتے ہیں۔

گذشتہ سال کراچی ایئرپورٹ کے قریب حادثے میں قومی ایئرلائن کا طیارہ آبادی پر گر کر تباہ ہوگیا تھا (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے بتایا کہ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈنگ اپروچ کرتے ہوئے بائیں جانب جو عمارتیں آتی ہیں وہ غیر قانونی ہیں۔
’جب پائلٹس لینڈنگ کے لیے ایئر پورٹ کی طرف آتے ہیں تو فلائٹ کنٹرول ٹاور انہیں عمارتوں کا نہیں بتاتا کہ کون سی کتنی زیادہ اونچی ہے یا خطرناک ہو سکتی ہے، کیونکہ سول ایویشن ہی تو ان عمارتوں کو این او سی دینے یا روکنے کا مجاز ہے۔
پاک فضائیہ کے ترجمان ونگ کمانڈر قیصر آفتاب نے اردو نیوزکو بتایا کہ ’ایئر فورس کی جانب سے گذشتہ سال بھی سندھ حکومت کو ایئر بیس کے اطراف بلند قامت عمارات کی تعمیر کے حوالے سے آگاہ کیا گیا تھا تاہم اس حوالے سے کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور یہ تعمیرات جاری ہیں، جس کی وجہ سے اس سال خط لکھ کر ضوابط پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا گیا ہے۔‘
صرف پاکستان ایئر فورسہی نہیں، سول ایوی ایشن اتھارٹی بھی کئی مرتبہ اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کر چکی ہے۔
گذشتہ سال مئی میں کراچی ایئرپورٹ سے محض چند کلومیٹر دور پیش آئے حادثے میں قومی ایئرلائن کا طیارہ آبادی پر گر کر تباہ ہوگیا تھا جس کے بعد اس بحث نے دوبارہ جنم لیا تھا کہ ایئر پورٹ سے اتنے قریب ہاؤسنگ سوسائٹیز ہونی چاہییں یا نہیں۔
عاصم نواز نے بتایا کہ ایئرپورٹ کی لینڈنگ اپروچ اور ٹیک آف میں کچھ کلومیٹر تک علاقہ غیر آباد ہونا چاہیے لیکن کراچی میں ایسا نہیں رہا، لینڈنگ کرتے وقت انڈرشوٹ ایریا میں گھر اور عمارتیں آتی ہیں۔

وفاقی حکومت پانچ شہروں میں ایئر فیلڈز کے اطراف بلند قامت عمارتوں کی تعمیر پر عائد پابندی میں نرمی کرنے پر غور کر رہی ہے (فوٹو: اردو نیوز)

ان کا کہنا تھا کہ شارع فیصل ایئربیس رن وے کو مغرب کی جانب سے اپروچ کرتے ہوئے سب سے زیادہ عمارتیں آتی ہیں جن پر متعدد بار اعتراضات اٹھائے گئے لیکن حکومتی اداروں کی ملی بھگت سے کبھی کوئی کارروائی نہ ہوئی۔
کراچی میں عمارتوں کی تعمیرات کے حوالے سے مجاز ادارے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے حکام نے اس حوالے سے باضابطہ موقف دینے سے انکار کیا۔
 تاہم ادارے کے ایک عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ تمام تعمیرات قانونی دائرے میں ہیں اور اگر کوئی خلاف ورزی ہوئی تو اس کی نشاندہی کر کے کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹر سٹرکچر علی مہدی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ایئر فیلڈ کے اطراف میں قائم عمارتوں کی بلندی کی حد 55 فِٹ ہے جو لگ بھگ ساڑھے 16 میٹر بنتی ہے۔  
ان کا کہنا تھا کہ ہر سال ہی ایئر فورس اور سول ایوی ایشن کی جانب سے اعتراضات جمع کروائے جاتے ہیں جس کی روشنی میں ایئر فیلڈز کے اطراف قائم عمارتوں کی اونچائی اور ان کی قانونی حیثیت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے 2018 میں جاری کیے گئے ایئر نیویگیشن آرڈر کے مطابق رن وے کے اطراف میں ایک خاص فاصلے کے بعد 20 میٹر بلندی تک کی عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے جبکہ رن وے سے 15 کلومیٹر دور تک کوئی عمارت 151 میٹر سے زیادہ بلند نہیں ہوسکتی۔
تاہم وفاقی حکومت پانچ شہروں میں ایئر فیلڈز کے 15.24 کلومیٹر اطراف میں بلند قامت عمارتوں کی تعمیر پر عائد پابندی میں نرمی کرنے پر غور کر رہی ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے مجاز اداروں کو ضابطہ کار وضع کرنے کے حوالے سے ہدایات جاری کی جا چکی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

وزیراعظم عمران خان کابینہ کے متعدد اجلاس میں اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ شہروں میں آبادی کے مسائل حل کرنے کے لیے کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے اس معاملے پر مجاز اداروں کو ضابطہ کار وضع کرنے کے حوالے سے ہدایات بھی جاری کی جا چکی ہیں جس میں بنیادی معاملہ این او سی کی شرط کا خاتمہ ہے۔ 
ایسا ہونے کی صورت میں کراچی، لاہور، راولپنڈی، پشاور اور ملتان میں بلڈرز کو کثیر المنزلہ عمارت کی تعمیر کے لیے سول ایوی ایشن اتھارٹی سے اجازت نامہ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی جبکہ اسلام آباد میں پہلے ہی اس ضابطے کا نفاذ عمل میں لایا جا چکا ہے۔

شیئر: