Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں کون سی نوکری زیادہ پُرکشش، سرکاری یا پرائیویٹ؟

کئی حکومتی عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ حکومت کا کام نوکریاں فراہم کرنا نہیں (فوٹو: نیشنل کوریئر)
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اور روزگار کے لیے نوکریوں کی بحث ایک مسلسل عمل ہے۔ 
موجودہ برسراقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں لوگوں کو ایک کروڑ نئی نوکریاں دینے کا وعدہ بھی کیا تھا، جس کی وجہ سے نوجوانوں نے ان کی بہت زیادہ پذیرائی کی تھی۔
لیکن حال ہی میں وزریر اعظم پاکستان اپنے ان بیانات کی مزید وضاحت دیتے بھی نظر آتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’سرکاری نوکریاں تباہی کا راستہ ہیں اس سے آپ کی صلاحیتیں کھل کر سامنے نہیں آتیں۔‘
اس سے قبل بھی کئی حکومتی عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ حکومت کا کام نوکریاں فراہم کرنا نہیں بلکہ ان کی دستیابی کے لیے ماحول بنانا ہے اور حکومت ایسے منصوبوں پر کام کر رہی ہے جس سے ملک میں نوکریوں کی فراوانی ہو گی۔
لیکن ساتھ ہی حکومت کئی سرکاری آسامیاں ختم بھی کر چکی ہے اور موجودہ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ بھی گزشتہ دنوں وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے ایک بڑے احتجاج کے بعد ہی کیا گیا تھا۔ 
عام تاثر یہی ہے کہ پاکستان میں سرکاری نوکری زیادہ پائیدار، آسان ، مراعات بخش اور اثر و رسوخ والی ہوتی ہے جبکہ پرائیویٹ ملازمت کے قائم رہنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی، اس میں کام بھی زیادہ کرنا پڑتا ہے اور سرکاری مراعات بھی نہیں ملتیں۔ 
شاید یہی وجہ ہے کہ سرکاری محکموں میں معمولی سے معمولی ملازمت  کے اشتہار پر لاکھوں امیدوار درخواستیں لے کر پہنچ جاتے ہیں۔
گریڈ سترہ سے اوپر کی ملازمتوں کی بات ہو تو صرف صوبہ پنجاب میں ہر سال دو سے اڑھائی لاکھ نوجوان پنجاب پبلک سروس کا امتحان دیتے ہیں جن میں سے صرف تین سے ساڑھے تین سو یہ عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
 ایسی بھی کئی مثالیں ہیں کہ پرائیویٹ نوکریاں چھوڑ کر لوگ سرکاری نوکریاں حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ 

پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق صرف وفاقی حکومت کے پاس چھ لاکھ 63 ہزار ملازمین رکھنے کی استعداد ہے (فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)

سکون صرف سرکاری نوکری میں 
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی علی عباس ( فرضی نام) نے حال ہی میں ایک سرکاری ادارے میں کمپیوٹر آپریٹر کی آسامی کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔
 ان سے جب اس بابت پوچھا گیا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ’میڈیا کی نوکری کا تو یہ بھی پتا نہیں کہ شام کو رہے گی یا صبح اور دیگر پرائیویٹ سیکٹر کا بھی یہی حال ہے ملک کے اقتصادی حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں یہاں تو کمپنیاں بند ہورہی ہیں۔ اس لیے مجھے کمپیوٹر چلانا بھی آتا ہے تو میں نے اس پوسٹ کے لیے اپلائی کیا ہے۔ اگر یہ نوکری مل جاتی ہے تو زندگی سکون میں آجائے گی۔ ملازمت کی ضمانت تو ہو گی اور پھر ریٹائرمنٹ پلان بھی ہوگا، اور کیا چاہیے؟‘ 
صرف علی عباس ہی ایسا نہیں سوچتے۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم کے مطابق ایک بہت بڑا طبقہ اس خیال کا حامی ہے اور اس کی بڑی وجہ ملکی معاشی حالات کے ساتھ ساتھ نوآبادیاتی ذہن بھی ہے۔ 
 ’حالانکہ سرکاری تنخواہ اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ اس پر اِترایا جا سکے۔ اس کے باوجود آپ کو سرکاری لوگوں کو دیکھیں تو ان کا لائف سٹائل کافی بہتر ہوتا ہے۔ اور مجھے کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ اسی جگہ سے کرپشن اور رشوت ستانی کا آغاز ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ سرکاری نوکری کی تنخواہ کتنی ہے کیونکہ ان کے ذہن میں ہوتا ہے کہ اوپر کی آمدن بھی تو آئے گی اور صرف یہ نہیں بلکہ سماجی طور پر اس خاندان کو تقویت ملتی ہے جس گھر میں کوئی نہ کوئی سرکاری ملازم ہو۔ ایک پولیس کا سپاہی ہی کیوں نہ ہو یا ایک پٹواری وہ نہ صرف اپنے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ ادھر ادھر کے بھی۔ اور اگر آپ کلرک ہیں تو پھر تو سونے پے سہاگہ ہے تو پاکستان جیسے ملک میں یہ سکون نہیں تو کیا ہے۔‘
پاکستان کے ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق صرف وفاقی حکومت کے پاس چھ لاکھ 63 ہزار ملازمین رکھنے کی استعداد ہے جن میں سے پانچ لاکھ 85 ہزار تعیناتیاں مکمل ہیں۔

پاکستان میں نجی شعبے کی پرکشش نوکریوں کی بھی اپنی کہانی ہے (فوٹو: ورلڈ بینک بلاگ)

چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کے اعدادوشمار اس سے الگ ہیں۔ ان ملازمین میں پچانوے فیصد ایک سے سولہ گریڈ اور پانچ فیصد سترہ سے بائیس گریڈ میں ہیں۔ پاکستان میں سترہ گریڈ سے اوپر سرکاری نوکری کو پرکشش تصور کیا جاتا ہے۔ 
پرائیویٹ سیکٹر کتنا پرکشش؟ 
نعمان عاقل لاہور کے ایک شہری ہیں جنہوں نے پنجاب سول سروس کمیشن میں 2015 میں امتحان پاس کر کے سترہویں گریڈ کی ایک سرکاری نوکری حاصل کی۔ لیکن تین سال میں ہی انہوں نے یہ نوکری چھوڑ دی۔
اس فیصلے کے بارے میں نعمان عاقل کا کہنا ہے کہ ’یہ میرے بس کاکام نہیں تھا۔ اگر تو آپ انتہائی دیانت دار انسان ہیں تو پھر پاکستان میں سرکاری نوکری شاید آپ کے بس کا کام نہیں اگر آپ افسر بھی ہوں تو آپ کی تخلیقی صلاحیتیں ایک کلرک سے زیادہ نہیں ہو سکتیں۔
’مجھے تو اس میں سوائے تنخواہ اور پکی نوکری کے اس میں کچھ نظر نہیں آیا اور پھر ایسے لوگوں کے درمیان کام کرنا (مشکل ہے) جن کی ذہنی سطح پیسے بنانے سے زیادہ ہے ہی نہیں، اس لیے میں نے یہ نوکری چھوڑ دی اور اپنی پی ایچ ڈی کی طرف توجہ کرلی۔ میں اپنی تعلیم سے متعلقہ کوئی ڈھنگ کا تحقیقاتی کام کر لوں گا۔‘
امریکی ادارے سی آئی اے کی فیکٹ بک کے مطابق پاکستان میں کسی نہ کسی طرح برسرروزگار افراد کی تعداد پانچ کروڑ سے زائد ہے۔ جن میں سے 43 فیصد زرعی شعبے سے وابستہ ہیں۔ بیس فیصد کسی نہ کسی طرح سے فیکڑیوں میں کام کر رہے ہیں جبکہ سروسز کے شعبے میں چھتیس فیصد لوگ ہیں۔
پاکستان میں نجی شعبے کی پرکشش نوکریوں کی بھی اپنی کہانی ہے۔ جہاں کسی بھی کمپنی ایگزیکٹو عہدے پر تعیناتی کے لیے حکومت کے سترہویں گریڈ کی ملازمت کے مقابلےمیں امیدوار نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ جبکہ سرکاری ملازمین اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر کی تنخواہیں بہرحال ان کی نسبت پرکشش ہیں۔  

ڈاکٹر قیس کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس نوکریوں کے سب سے بڑے دشمن ہوں گے (فوٹو: ڈے سپرنگ)

ڈاکٹر قیس اس کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں ’اگرآپ دونوں شعبوں کی مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کا جائزہ لیں تو ان کے حالات تقریبا ایک جیسے ہی ہیں۔ پاکستان میں کارپوریٹ سیکٹر میں کہاں ملازمین کو وہ حقوق میسر ہیں جو بین الاقوامی معیار کے ہیں، تنخواہیں تھوڑی اس لیے زیادہ ہیں کیونکہ جاب سیکیورٹی نہیں ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ کم تنخواہ والے سرکاری ملازم اوپر کی آمدن سے اسے پورا کر لیتے ہیں اور دوسرا تقریبا ہر سال ان کی تنخواہیں بھی بڑھتی ہیں جبکہ پرائیویٹ سیکٹر اس طرح کی نعمتوں سے محروم ہے۔ جب تک آپ دونوں شعبوں میں سوشل سیکیورٹی نہیں دیں گے غیر مساوی دولت کی ترسیل اور تقسیم کا فرق کم سے کم نہیں کریں گے یہ بحث ایسے ہی جاری رہے گی۔‘ 
ٹیکنالوجی ملازمین کی دشمن
ڈاکٹر قیس کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس نوکریوں کے سب سے بڑے دشمن ہوں گے چاہے وہ سرکاری سیکٹر ہو یا پرائیویٹ۔
’کیونکہ ان دونوں کے مشترکہ استعمال سے مستقبل میں افرادی قوت کی ضرورت اور کم ہو جائے گی۔ اس لیے حکومت لوگوں کی ذاتی کاروبار کرنے کی فضا فراہم کرے اور ان کی مہارتوں کو بڑھانے پر ترجیح دے اس کے علاوہ مجھے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔‘ 

شیئر: