پاکستان اور انڈیا کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان ہونے والے رابطے کے بعد رفتہ رفتہ دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں اور سطح پر رابطے بحال ہو رہے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے اہم پیش رفت انڈیا کے ساتھ تجارت کی جزوی بحالی ہے۔ سفارتی ماہرین اس پیش رفت کو دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی بحالی کا نکتہ آغاز اور دونوں مملک کے کسانوں اور تاجروں کے لیے فائدہ مند قرار دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
پاک وہند کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کا رابطہNode ID: 255836
-
پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت کا حجم کتنا ہے؟Node ID: 553311
خیال رہے کہ پلوامہ حملے اور اس کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتے ہوئے کشیدگی کے واقعات اور اگست میں انڈیا کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کئی شعبوں میں باہمی روابط اور عوامی خدمات کے لیے شروع کیے گئے اقدامات روک دیے گئے تھے۔
پاکستان کے سابق ہائی کمشنر برائے انڈیا عبدالباسط نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’حالیہ پیش رفت سے پاکستان اور انڈیا کے تعلقات معمول پر نہیں آئیں گے۔ تاہم روابط کی بحالی کا راستہ کھل رہا ہے۔‘
’لگتا ہے کہ بات چیت کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ ایسے میں تجارت اور اعتماد کی بحالی کے اقدامات اچھے ہوتے ہیں تاہم پاکستانی قیادت کو اپنا بنیادی مقصد یعنی مسئلہ کشمیر کا حل ہمہ وقت ذہن میں رکھنا ہو گا۔ جو بھی قدم اٹھائیں وہ ہمیں اسی کی جانب لے کر جائے گا۔‘
عبدالباسط کا کہنا ہے کہ ’اس وقت اعتماد کی بحالی کے حوالے سے بال انڈین کورٹ میں ہے۔ انڈیا کو کشمیر کے حوالے سے کچھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جس سے کم از کم مسئلے کے حل کی جانب رواں تو ہوں۔‘
’مثال کے طور پر حریت رہنماؤں کو رہا کیا جائے اور ان کو بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت دیں۔ اسی طرح کالے قوانین کا خاتمہ کریں۔ پانچ اگست سے پہلے کی پوزیشن بحال نہ بھی ہو تب بھی انڈیا دنیا کو یہ یقین تو دلائے کہ وہ کشمیر میں ڈیموگرافک تبدیلیاں نہیں کرے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میرا اپنا خیال یہ ہے کہ پاکستان کو سفارتی تعلقات کی بحالی میں جلد بازی سے کم نہیں لینا چاہیے۔ ہمیں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے۔ ہمیں اپنا ہائی کمیشنر بھجوانے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ اس کے نہ جانے سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ فی الحال جو بیک ڈور چل رہا ہے اسے چلنے دیا جائے اور انڈین اقدامات کا انتظار کیا جائے۔‘
دوسری جانب انڈین صحافی رویندر سنگھ روبن نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والی تمام پیش رفت قابل ستائش ہے۔ ایل او سی پر سیز فائر، پاکستان کے مشیر قومی سلامتی اور آرمی چیف کے بیانات کا انڈیا کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا۔ اسی طرح وزرائے اعظم کے خطوط کا تبادلہ اگرچہ وہ رسمی ہی کیوں نہ ہو اسے اچھا ہی سمجھا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’چاہے ایک محدود عرصے اور محدود اشیا کے لیے ہی سہی لیکن اس تجارت کو کھولنے کا فائدہ ہو گا۔ واہگہ اور اٹاری کے درمیان راستے دراصل تجارتی راہداریاں ہیں ،جنھیں بند نہیں ہونا چاہیے۔‘
’پاکستان اور انڈیا کی زرعی اجناس دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ دے سکتی ہیں، جیسے پاکستان میں ٹماٹر اور ادرک مہنگے ہو جاتے ہیں تو انڈیا میں سستے داموں مل رہے ہوتے ہیں۔ پاکستانی سیمنٹ اور نمک کی انڈیا میں نہ صرف مانگ ہے بلکہ بہت پسند کیے جاتے ہیں۔‘

انڈین صحافی نے مزید کہا کہ ’موجودہ فیصلے سے نہ صرف دونوں ملکوں کے بات چیت کے راستے کھلیں گے بلکہ مشرقی اور مغربی پنجاب کے کسانوں کو بہت فائدہ ہو گا۔‘
پلوامہ حملہ اور کشیدگی کا آغاز
14 فروری 2019 کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں انڈیا کی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی گاڑی خودکش حملے میں اڑا دی گئی تھی۔ اس حملے میں سی آر پی ایف کے 40 سے زیادہ اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ انڈیا نے اس حملے کا فوری الزام کالعدم تنظیم پر لگایا۔ جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سرحدوں اور ایل او سی پر کشیدگی دیکھنے میں آئی۔ 26 فروری کی رات انڈیا نے بالاکوٹ میں ایئراسٹرائیک میں دہشت گردوں کے کیمپوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔ 1971 کی جنگ کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا کہ انڈین جنگی طیارے بین الاقوامی سرحد عبور کر کے پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے۔ انڈیا کی اس کارروائی کا پاکستانی فضائیہ نے اگلے ہی دن جواب دیا۔ پاکستان کی جانب سے انڈین طیارہ مار گرایا گیا جو پاکستانی حدود میں گرا۔ جس کے پائلٹ ابھی نندن کو زندہ گرفتار کر لیا گیا۔
تاہم پاکستان نے جذبہ خیرسگالی کے تحت یکم مارچ کو انڈین پائلٹ کو واہگہ بارڈر پر انڈین حکام کے حوالے کر دیا اور پلوامہ حملے کی تحقیقات میں تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی۔

اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کئی روز تک برقرار رہی اور دونوں ممالک میں مسلح افواج ہائی الرٹ رہیں۔
5 اگست 2019 کو انڈیا نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تو اس سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات محدود جبکہ تجارتی تعلقات ختم ہو گئے تھے۔
پاکستان اور انڈیا سے کشیدگی کے بعد جن اہم شعبوں میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں ان میں چند ایک درج ذیل ہیں۔
تجارتی تعلقات
ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے پاکستان اور انڈیا کے درمیان ادویات سے لے کر مصالحہ جات تک اور سبزیوں اور پھلوں سے لے کر الیکٹرونک آلات تک کی تجارت ہوتی ہے۔
پلوامہ حملے کے فوراً بعد انڈیا نے 1995 میں پاکستان کو دیا گیا پسندیدہ تجارتی ملک کا درجہ واپس لے لیا۔ جس کی وجہ سے انڈین تاجروں کو پاکستان کو برآمدات میں مشکلات کا سامنا شروع ہو گیا۔
5 اگست کے انڈین اقدام کے اگلے ہی دن پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے انڈیا کے ساتھ تمام تر تجارتی روابط ختم کرنے کا اعلان کر تے ہوئے واہگہ، اٹاری اور دیگر راستوں سے ہونے والی تجارت روک دی۔ اس سلسلے میں پاکستان کی وزارت تجارت نے ایس آر او جاری کیا۔ کچھ عرصے بعد ملک میں ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث اس ایس آر او میں ترمیم کرتے ہوئے انڈیا سے ادویات کے لیے خام مال منگوانے کی اجازت دے دی گئی۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق ان تجارتی پابندیوں کا بظاہر نقصان انڈیا کو اٹھانا پڑا کیونکہ انڈین برآمدات زیادہ متاثر ہوئی تھیں۔
فضائی حدود کی بندش
26 فروری 2019 کو انڈیا کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے بعد پاکستان نے انڈیا سے اڑنے والی تمام پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی۔ اس پابندی کے بعد انڈیا سے کمرشل پروازوں کو اپنے روٹس تبدیل کرنا پڑے جس سے ان کو بھاری مالی نقصان ہوا۔ 28 دن بعد پاکستان نے باقی ائرلائنز کی کمرشل پروازوں کے لیے فضائی حدود کھول دیں تاہم انڈین پروازوں کو پھر بھی اجازت نہیں دی گئی۔
تقریباً پانچ ماہ بعد 15 جولائی کو پاکستان نے اپنی فضائی حدود کھولنے کا اعلان کر دیا۔ ان پانچ ماہ کے دوران پاکستان نے انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی کرغزستان ، جرمنی، سعودی عرب اور امریکہ جانے جبکہ انڈین صدر کو یورپ جانے کے لیے پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت بھی مسترد کر دی تھی۔
سفارتی تعلقات
پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات اگرچہ کبھی بھی معمول پر نہیں رہے لیکن دونوں ممالک کے درمیان سفارتی روابط ہمیشہ رہتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان باہمی سفارتی معاہدوں پر عمل درآمد کرنے کے دعوے بھی کیے جاتے ہیں۔

26 اور 27 فروری کی عسکری کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک کے ہائی کمیشن معمول کے مطابق کام کرتے رہے۔ 5 اگست کے انڈین اقدام کے بعد پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے جہاں تجارتی روابط ختم کرنے کا فیصلہ کیا، وہیں انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات کو محدود کرتے ہوئے انڈین ہائی کمشنر اجے بساریہ کو ملک چھوڑنے جبکہ انڈیا کے لیے اپنے نامزد ہائی کمشنر کو نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
اس دوران انڈیا میں پاکستانی سفارتی عملے کو روز ہراساں کرنے کے واقعات سامنے آنا شروع ہوئے تو جون 2020 میں پاکستان میں بھی دو انڈین سفارتی اہلکار پہلے غائب ہوئے بعد ازاں انھیں ملک چھوڑنے کا کہہ دیا گیا۔
انڈیا نے پاکستان سفارت اہلکاروں پر جاسوسی کا الزام عائد کرتے ہوئے پاکستان کو اپنا سفارتی عملہ نصف کرنے کا کہا، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی آدھے انڈین سفارتی عملے کو واپس بھیجنے کا کہہ دیا۔
دو سال گزر جانے کے باوجود دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات محدود ہیں اور دونوں ممالک کے ہائی کمشنروں کی بجائے ناظم الامور کے ذریعے ضروری سفارتی امور انجام دیے جا رہے ہیں۔
ریل روڈ روابط
انڈیا اور پاکستان کے درمیان جب بھی کوئی واقعہ ہو جائے یا کشیدگی پیدا ہو جائے تو دونوں ملکوں کے درمیان ریل اور روڈ روابط بند کر دیے جاتے ہیں۔ جس سے نہ صرف تاجروں کو بلکہ عام شہریوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
