Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کم تنخواہ اور مہنگائی سے تنگ‘ بلوچستان کے سرکاری ملازمین سڑکوں پر

بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کے کنوینئر عبدالمالک کاکڑ کا کہنا ہے جب تک تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوتا احتجاج جاری رہے گا۔ (فوٹو: اردو نیوز)
بلوچستان میں سرکاری ملازمین کے احتجاج اور دھرنے کی وجہ سے نظام زندگی مفلوج ہو گیا ہے۔ سکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں سمیت سرکاری دفاتر میں بھی کام ٹھپ ہو چکا ہے۔
ایک ہفتے سے جاری احتجاج میں مزید شدت لاتے ہوئے سرکاری ملازمین نے پیر کی صبح پہیہ جام ہڑتال کی اور 30 سے زائد مقامات پر صوبے بھر کی اہم شاہراہوں کو ٹائر جلا کر اور رکاوٹیں کھڑی کر کے ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔
بلوچستان کو سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا سے ملانے والی شاہراہوں کی بندش سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ مسافروں اور ٹرانسپورٹروں کو چھ سے سات گھنٹے سڑک کھولنے کا انتظار کرنا پڑا۔
خیال رہے کہ کوئٹہ میں گورنر اور وزیراعلیٰ ہاؤس کے قریب شہر کی سب سے ایک اہم سڑک زرغون روڈ پر 40 سے زائد محکموں کے ملازمین نے تنخواہوں میں اضافے کے لیے 29 مارچ سے دھرنا دے رکھا ہے۔ اساتذہ، پیرا میڈیکس سمیت بیشتر سرکاری محکموں کے اہلکار اپنے دفاتر کو بند کرکے دھرنے میں شریک ہیں۔
سبی سے بیٹی کو علاج کے لیے کوئٹہ لانے والے محمد عبداللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم اتنی دور سے آئے ہیں مگر یہاں سول ہسپتال کی او پی ڈی کو تالے لگے ہوئے ہیں۔‘
’بیٹی کی حالت کئی دنوں سے خراب ہے۔ سبی میں علاج کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے کوئٹہ آئے ہیں مگر یہاں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔‘

شاہراؤں پر ٹریفک کی بندش سے دکاندار بھی پریشان ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

شہر کے بیچوں بیچ دھرنے کے باعث کوئٹہ میں ٹریفک کا نظام بھی شدید متاثر ہے۔
اس حوالے سے ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرنے والے کوئٹہ کے رہائشی محمد عمر کا کہنا ہے کہ ’زرغون روڈ، پرنس روڈ سمیت کئی شاہراہیں ایک ہفتے سے دھرنے کی وجہ سے بند ہیں۔ پہلے نصف گھنٹے میں گھر سے دفتر تک پہنچتا تھا، اب دو دو، تین تین گھنٹے آنے اور اتنا ہی وقت واپس گھر جانے میں لگ جاتا ہے۔‘
انہوں نے سرکاری ملازمین کے احتجاج کے حوالے سے کہا کہ ’سرکاری ملازمین عوام کی خدمت کے لیے ہوتے ہیں مگر یہاں انہوں نے عوام کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔‘
شاہراہوں پر ٹریفک جام سے دکاندار بھی پریشان ہیں۔ مقامی تاجر عبدالوحید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہر سال رمضان سے قبل اندرون بلوچستان سے لوگوں کی بڑی تعداد اشیائے ضرورت کی خریداری کے لیے کوئٹہ کا رخ کرتے ہیں مگر سرکاری اہلکاروں کے احتجاج کی وجہ سے اس بار خریداروں کی تعداد کم ہے۔‘
’باقی اضلاع کے چھوٹے تاجر کراچی اور دوسرے شہروں سے خریداری کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘
دوسری جانب احتجاج کی قیادت کرنے والے بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کے کنوینئر عبدالمالک کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں عوام کی مشکلات کا احساس ہے لیکن حکومت غیر معمولی مہنگائی کے باوجود تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ نہیں مان رہی، اس لیے ہم احتجاج پر مجبور ہیں۔‘

دھرنے کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

’بلوچستان میں نہ کوئی فیکٹریاں ہیں اور نہ ہی نجی سیکٹر میں ملازمتیں ہیں۔ زراعت اورماہی گیری کے بعد لوگوں کے روزگار کا بڑا ذریعہ سرکاری ملازمتیں ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان میں دو لاکھ 22 ہزار سے زائد سرکاری ملازمین ہیں، جو لاکھوں خاندانوں کی کفالت کرتے ہیں۔ مگر مہنگائی کی لہر اور تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین سخت مشکلات کا شکار ہیں۔‘
عبدالمالک کاکڑ کا کہنا تھا کہ ’جب تک تمام محکموں کے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے سمیت دیگر 19 نکات پر مشتمل مطالبات منظور نہیں کیے جاتے تب تک احتجاج جاری رہے گا۔‘
تاہم بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان کی مالی صورتحال اتنی بہتر نہیں کہ پندرہ ارب روپے تنخواہوں میں اضافے کی مد میں خرچ کیے جائیں۔‘
انہوں نے صوبے کی مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’صوبے کی اپنی آمدن بمشکل 30 ارب روپے ہے۔ وفاق سے ملنے والی رقم اور صوبے کی آمدن ملا کر بڑی مشکل سے بلوچستان کا بجٹ بنتا ہے۔ اس بجٹ کا بھی 80 فیصد غیر ترقیاتی بجٹ یعنی تنخواہواہوں، پنشن اور الاؤنسز پر خرچ ہوجاتا ہے۔‘
لیاقت شاہوانی نے مزید کہا کہ ’تعلیم، صحت، سڑکوں اور پانی سمیت ترقیاتی منصوبوں کے لیے صرف 80 سے 100 ارب روپے بچتے ہیں، اگر تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا تو صوبہ مزید اقتصادی دباؤ کا شکار ہو گا اور ترقی کی رفتار مزید سست ہو جائے گی۔‘

شیئر: